کیا حکمرانوں کا لالچ تباہ ہوتے کھیرتھر نیشنل پارک کے بعد اب کارونجھر کے تاریخی پہاڑ بھی کھا جائے گا؟

ویب ڈیسک

پہاڑ صرف نظارہ کرنے کے لیے ایک منظر نہیں، بلکہ وہ سیارے کی زمینی سطح کا 22 فیصد احاطہ کرتے ہیں اور پودوں، جانوروں اور تقریباً ایک ارب انسانوں کے لیے مسکن فراہم کرتے ہیں۔

یہ پہاڑ اہم وسائل جیسے تازہ پانی، خوراک اور یہاں تک کہ قابل تجدید توانائی بھی فراہم کرتے ہیں۔

پہاڑوں کی اہمیت پر نظر ڈالیں تو یہ پہاڑ دنیا کے لیے واٹر ٹاورز کا کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے سیارے کے لیے میٹھے پانی کے تمام وسائل کا 60 سے 80 فیصد کے درمیان فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کے خطرات کو بھی کم کرتے ہیں، بلکہ انسانی خوراک کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔

یہ زرعی حیاتیاتی تنوع کے اہم مراکز ہیں۔ دنیا کے نصف حیاتیاتی تنوع کے ہاٹ سپاٹ پہاڑوں میں مرکوز ہیں اور پہاڑ زمینی حیاتیاتی تنوع کے تقریباً ایک چوتھائی حصے کو پناہ دیتے ہیں۔

پہاڑ کسی بھی ملک کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پاکستان بھی پہاڑوں سے گہرا ہوا ہے جبکہ صوبہ سندھ خوبصورت اور منفرد نوعیت کے پہاڑوں سے مالا مال ہے۔ ان ہی میں سے ایک کارونجھر پہاڑی سلسلہ بھی ہے۔

کارونجھر پہاڑی سلسلہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے علاقے نگرپارکر میں ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔ تقریباً 26 کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ پہاڑی سلسلہ ایک ہزار میٹر کی بلندی رکھتا ہے۔ اس پہاڑ میں گرینائٹ، چینی مٹی اور مختلف رنگوں اور ساخت کے قیمتی پتھروں کے بڑے ذخائر ہیں۔

اس کی معاشی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ مقامی لوگوں میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’کارونجھر روزانہ سو کلو سونا پیدا کرتا ہے۔‘

لیکن آج یہی کارونجھر ایک مرتبہ پھر خطرے کی زد میں ہے، جہاں حکومت سندھ نے سرخ گرینائیٹ پتھر نکالنے کی نیلامی کے لیے اشتہار دیا لیکن شدید عوامی ردعمل کے بعد اُسے یہ عمل فی الحال موخر کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے

اشتہارات کے شائع ہونے کے بعد سندھ بھر سے شدید عوامی ردعمل دیکھ کر صوبائی وزیر اطاعات شرجیل انعام میمن نے پیر کو سندھ اسمبلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گرینائیٹ کی نیلامی منسوخ کی گئی ہے کیونکہ جو منصوبے عوام کی امنگوں کے خلاف ہوں گے یا جن سے عوام متاثر ہوں گے، ان کی حمایت نہیں کی جائے گی

صوبائی وزیر معدنیات میر شبیر بجارانی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے قائم وزارتی کمیٹی کو اس ضمن میں سفارشات پیش کی گئی تھیں، جن کو جلد ہی صوبائی کابینہ میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد کابینہ ہی کوئی فیصلہ کرے گی

واضح رہے کہ گذشتہ اتوار کو متعدد اخبارات میں ضلع تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر میں 2700 ایکڑ پر محیط پہاڑی علاقے سے سرخ گرینائیٹ پتھر نکالنے کی نیلامی کے اشتہارات شائع ہوئے تھے، جس کے خلاف حکومت کو شدید ردعمل کا سامنے کرنا پڑا

ننگر پارکر، کراچی سے تقریباً پونے پانچ سو کلومیٹر دور واقع قدیمی شہر ہے اور کارونجھر کے پہاڑی سلسلے نے اس شہر کو جیسے گود میں لے رکھا ہے

کارونجھر کے پہاڑی سلسلے سے گرینائیٹ کا حصول کئی سال سے جاری ہے، جس کے خلاف دسمبر 2021 میں عدالت فیصلہ دے چکی ہے، لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے نیلامی کا اعلان کیا

عدالت نے اپنے گذشتہ فیصلے میں ایک نجی کمپنی اور فوج کے ذیلی ادارے ’ایف ڈبلیو او‘ کے اس علاقے سے گرینائیٹ نکالنے پر پابندی عائد کی تھی

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’اس تباہ کن فعل پر آنکھیں بند کر کے ننگرپارکر کے مکینوں کو خاموش اور بنیادی حقوق سے محروم کر کے ظالموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا ’یہ صرف پہاڑ نہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ ایک ہی وقت میں سیاحت، ثقافت، ورثے، مذہبی لگاؤ، آبپاشی، زراعت، دفاع، معاش، تحفظِ جنگلی زندگی، ہریالی سے بھرا جنگل اور بہت کچھ ہے۔ پہاڑ کو کاٹنے کا مطلب ننگرپارکر کے لوگوں کی زندگی کے تمام ذرائع کو ختم کرنا ہے۔‘

مقامی افراد کا مطالبہ ہے کہ کارونجھر پہاڑوں سے پتھروں کی کٹائی بند کی جائے اور حکومت اس حوالے سے تمام لیز منسوخ کر دے

پورے سندھ سمیت مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے عدالت کے واضح احکامات موجود ہیں کہ ان پہاڑوں کی کٹائی روک دی جائے مگر اس حکم کے باوجود وہاں کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈپٹی کمشنر تھرپارکر نے بھی گرینائیٹ کی نیلامی کی مخالفت کی اور ڈی جی معدنیات کو خط لکھ کر بتایا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں محکمہ جنگلی حیات نے درخواست دائر کی تھی کہ گرینائیٹ، چائنا کلے، ریتی بجری کی لیز وائلڈ لائف سے بھرپور علاقے میں غیر قانونی طور پر جاری ہیں یہ اقدام سندھ وائلڈ لائف ایکٹ کی سیکشن 9-13 کی خلاف ورزی ہے

ڈی سی تھر نے ڈپٹی کنزرویٹر کو ہدایت کی کہ عوامی مفاد میں وہ محکمہ معدنیات کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کرائیں۔

ڈی سی نے اپنے خط میں کارونجھر کی اہمیت بتاتے ہوئے تحریر کیا کہ جین مت کے بھگوان مہاویر کے مندر کی باقیات بھی صرف یہاں ہی پائی جاتی ہیں، اگر محکمہ معدنیات یہاں سے گرنائیٹ نکالنے کی اجازت دیتا ہے تو اس کو مقامی ثقافت پر کاری ضرب سمجھا جائے گا

دوسری طرف گرینائیٹ کی نیلامی میں صوبائی حکومت کے اندر بھی اختلاف رائے نظر آیا۔ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی سریندر ولاسائی نے وزیر معدنیات کو خط لکھ کر اس اشتہار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا

ان کا کہنا تھا کہ کارونجھر سے نباتات اور حیوانات کے ساتھ روحانی رشتہ ہے۔ ’سیاسی ورکر، سوشل ورکر اور عام لوگ مشترکہ طور پر اس نیلامی کے خلاف ہیں اور وہ بھی اس کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

تھر سے ہی وزیر اعلیٰ کے ایک اور معاون خصوصی ارباب لطف اللہ نے بھی صوبائی وزیر کو خط لکھ کر یاد دہانی کروائی کہ کارونجھر صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ تاریخ ہے، جس کی جغرافیائی حیثیت اور اہمیت ہے۔ یہ نہ سیاحوں کے لیے قابل کشش ہے بلکہ یہاں کئی عقیدے کے لوگوں کے مقدس مقامات بھی موجود ہیں لہذا اس کی روحانی اہمیت بھی ہے۔

ان کے مطابق اس کی خوبصورتی اور ورثے کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

کارونجھر کی تاریخی اہمیت

ایک محقق مشکور پھولکاری اپنی کتاب ’سرسوتی تہذیب اور اچھرو تھر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کارونجھر پہاڑی سلسلے میں 109 پہاڑیاں ہیں جو مختلف عقائد کے لیے 100 سے زیادہ مذہبی اور ثقافتی طور پر مقدس مقامات رکھتی ہیں۔ یہ علاقہ ماضی میں بہت خوشحال رہا ہے، جب دریائے ہاکڑو سرسوتی جمنا اور ستلج سے بہتا تھا اور صحرائے تھر میں ختم ہوتا تھا۔‘

کارونجھر کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ منگھارام اوجھا اپنی کتاب ’پرانا پارکر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب مہابھارت کے مرکزی کردار پانچ بھائی یودھیشتھرا، بھیم، ارجن، نکولہ اور سہدیو اپنے چچا زاد بھائی کوروا کے ہاتھوں جلاوطن ہوئے، تب انہوں نے اپنی جلاوطنی کا کچھ عرصہ ان کارونجھر کے پہاڑوں میں گزارا۔‘

سندھ کے معروف شاعر و بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنی شاعری میں کارونجھر کا ذکر کیا ہے۔

انگریزوں کے قبضے کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بننے والے باغی کردار روپلو کولھی، جنہیں بعد میں ساتھیوں سمیت پھانسی گھاٹ پر چڑھایا گیا تھا، نے انگریزوں پر حملے کے لیے اسی کارونجھر کو ڈھال بنایا۔

کارونجھر میں جین مت مذہب کے کئی مندر آج بھی زبوں حالی کی حالت میں موجود ہیں۔ کارونجھر کی سب سے اونچی چوٹی کو تروٹ کی چوٹی کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ برطانوی فوجی کرنل تروٹ یہاں بیٹھ کر اپنا دربار لگاتے تھے، اسی وجہ سے اسے تروٹ کی چوٹی بلایا جاتا ہے۔

لیکن افسوس کہ اس قسم کا تاریخی و ثقافتی ورثہ کارونجھر بھی ہماری بے قدری کی روش سے محفوظ نہیں رہ سکا۔

کارونجھر اور اس کے آس پاس کے علاقے کو ’جنگلی حیات کی جنت‘ قرار دیا جاتا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ اراضی لگ بھگ 8300 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اس میں سمندر اور زمینی رقبہ شامل ہیں۔

اس علاقے میں کئی قدرتی جھیلیں اور تالاب ہیں جہاں نایاب پرندے آتے ہیں۔ بین الاقوامی کنوینشن رامسر کے تحت بھی اس علاقے کو تحفظ حاصل ہے۔

ڈپٹی کمشنر کے مطابق کارونجھر رینج کو سنہ 1833 سے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

اس پہاڑی سلسلے میں ہندو مذہب کے کئی آستھان یعنی مقدس مقامات بھی موجود ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کے درمیان میں واقع مقام کو ’سادہڑو گام‘ کہا جاتا ہے، جہاں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مرنے والوں کی باقیات جلاتے ہیں۔

یہاں ہر سال میلہ بھی لگتا ہے۔ انڈین گجرات کی سرحد کے قریب اس سرخ پہاڑ میں چامونڈکا ماتا کا ایک مندر اس طرف پاکستان اور دوسرا مندر انڈیا میں ہے۔

ننگرپارکر پہاڑ سے شہد اور جڑی بوٹیوں سمیت لکڑیاں بھی حاصل کی جاتیں ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ ’کارونجھر روزانہ سوا سیر سونا پیدا کرتا ہے۔‘

ننگرپارکر شہر اور اس کے آس پاس میں جین دھرم کے قدیم مندر بھی واقع ہیں جو بارہویں صدی میں قائم کیے گئے تھے اور اب ان مندروں کی مرمت کر کے بحال کیا گیا ہے۔

یہاں بھوڈیسر تالاب کے قریب ایک قدیم مسجد بھی واقع ہے۔ مختلف روایات کے مطابق یہ مسجد گجرات میں مسلم حکمران نے تعمیر کی اور بعض مؤرخین اس کو دلی کے حکمرانوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔

کارونجھر ایک دیو مالائی کردار رکھتا ہے۔ یہاں روپلو کولھی، جس نے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی، کا کردار موجود ہے تو اپنے شوہر سے محبت میں ستی ہو جانے والی رانی بھٹیانی کی کہانی بھی موجود ہے۔ ھوتھل پری کی خوبصورتی کی داستان بھی یہاں ملتی ہے۔

منگھام رام کی کتاب پرانو پارکر سمیت بعض روایات کے مطابق مہا بھارت میں جب کوروں نے پانڈوں کو 13 سال کے لیے جلاوطن کیا تھا تو پانچ پانڈے اس پہاڑ پر آ کر بس گئے تھے ان کے نام سے پانی کے تالاب موجود ہیں۔

 ’سیو کارونجھر‘ کا ٹرینڈ

گرینائیٹ نکالنے کی نیلامی کے اشتہار کے ساتھ ہی اتوار سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور فیس بک پر کارونجھر زیر بحث رہا اور ایک بار پھر ’سیو کارونجھر‘ (کارونجھر کو بچاؤ) کے نام سے ٹرینڈ چلا، جس میں سندھ کے نوجوانوں کے علاوہ موسیقار، ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں نے بھی شرکت کی۔

نوجوان گلوکار سیف سمیجو نے لکھا کہ کارونجھر پہاڑ کو تحفظ دینے کے لیے اس کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جائے تاکہ اس کی ثقافت، ماحولیاتی نظام اور طرز زندگی کو محفوظ رکھا جا سکے۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے وفاقی وزیر شیری رحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی کو مخاطب کر کے کہا کہ ’پاکستان میں جس سب سے خوبصورت جگہ کا انھوں نے کبھی دورہ کیا، وہ کارونجھر ہے۔‘

’اسے کسی دکان یا جائیداد کے ٹکڑے کی طرح نیلام کرنا جرم ہے۔ کیا یہ وہی سبز نیا پاکستان ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا؟ کارونجھر کو بچائیں۔‘

سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کے حفیظ بلوچ نے لکھا ”‏کارونجھر کو نیشنل پارک قرار دینے کا مطالبہ جائز ہے مگر ان حکمرانوں سے کچھ بعید نہیں۔ انہوں نے عالمی ورثہ قرار دیئے جانے والے کھیرتھر نیشنل پارک کے کئی حصے ملک ریاض کو تحفے میں دے دیئے، جہاں پہاڑوں کی کٹائی اور مائیننگ جاری ہے، اس لیئے صرف نوٹیفیکشن واپس لینا کافی نہیں۔“

علی رند لکھتے ہیں کہ کیا بلاول بھٹو نہیں جانتے کہ کارونجھر سے گرینائٹ نکالنا اور کھدائی پورے تھر کو تباہ کر دے گی اور آنے والی نسلوں پر اس کا اثر بہت زیادہ ہو گا۔

دادلو سائیں لکھتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کا دہرا معیار دیکھنا شرمناک ہے۔ ’وہ عالمی پلیٹ فارمز پر ماحولیات کے انصاف کی وکالت کرتے ہیں اور کرہ ارض کو بچانے کی بات کرتے ہیں لیکن گھر میں وہ ماحولیاتی تباہی سے آنکھیں چراتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔‘

کارونجھر صرف سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ مقامی لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کا انحصار بھی اسی پہاڑ پر ہے۔ کارونجھر ڈیم نگرپارکر کے علاقے کے لوگوں کو پانی فراہم کرتا ہے، بارشوں کی موسم میں بارش کا پانی پہاڑ سے نیچے آتا اور 20 سے زائد ندی نالوں میں جاتا ہے۔ اس کی کٹائی سے پانی کا یہ چکر رک جائے گا اور لوگ پانی سے بھی محروم ہوجائیں گے۔

اس کے علاوہ مقامی لوگ پہاڑوں پر پیدا ہونے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں کو کئی بیماریوں کی دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کو اکٹھا کرکے فروخت بھی کرتے ہیں۔

کارونجھر کی حفاظت وقت کی اہم ضروت ہے۔ چند کاروباری لوگ اپنے کاروباری نفع کے لیے پوری ثقافت و تاریخ اور ماحول کو تہس نہس کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close