پاکستان میں زرعی زمین مسلسل سکڑ رہی ہے، ہر جگہ ایک بے ہنگم تعمیرات کا سلسلہ ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔ جدھر نظر ڈالیں نئی ہاؤسنگ اسکیم کالونی کے بورڈز نظر آتے ہیں، یہی کچھ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے مضافات میں بھی ہو رہا ہے
حیدرآباد کے مضافات کی زمینیں جو کئی شہروں کو سبزیاں اور پھل فراہم کرتی تھیں، اب بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف غذائی اجناس کی کمی ہو رہی ہے بلکہ ان کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں
مزے کی بات یہ ہے کہ زرعی زمین کے دیگر مقاصد کے لیے استعمال پر کافی عرصہ سے پابندی ہے، لیکن پھر بھی مختار کار، پٹواریوں اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے زرعی زمین ہاؤسنگ سیکٹر کو منتقل ہو رہی ہیں۔ آپ پٹواری کو اچھی خاصی تگڑی رقم دیں، پھر دیکھیں کہ کس طرح آپ کا کام ہوتا ہے
پٹواری اور مختارکار کی مدد سے آپ کی زرعی زمین، جو خانہ کاشت میں شامل ہوتی ہے، کو خانہ کاشت سے نکال کر مالک کو زمین دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا جواز دے دیتے ہیں۔ خانہ کاشت سے نکلنے کے بعد مرضی آپ کی ہوتی ہے۔ زمین پر گھر بنائیں، پلازہ یا ایک ہاؤسنگ اسکیم
اسی اثنا میں قبضہ گروپ بھی وجود میں آئے اور انہوں نے سرکار کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی زمینوں پر ہاتھ صاف کیے۔ شہر کے امراء اسی دور کی پیداوار ہیں کہ کس طرح انہوں نے زمینوں پر قبضے کرکے اپنا اسٹیٹس بڑھایا
لوگ اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اس لیے آپ کو ہر جگہ پراپرٹی ڈیلر اور کنسلٹنٹ کے بورڈز ہی ملیں گے۔ ہر جگہ آپ کو پلازہ یا فلیٹس زیر تعمیر کے بورڈز ہی نظر آئیں گے
شمع اور لالی کولہی کی کہانی
چالیس سالہ شمع کولہی حیدرآباد کی نیوسبزی منڈی میں مزدوری کرتی ہیں۔ وہ چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے شوہر بھی تعمیراتی شعبے میں مزدوری کرتے ہیں
شمع کولہی شہر سے تین کلومیٹر دور محل نما گھروں کے درمیان گاؤں لکھمن کولہی کی رہائشی ہیں۔ پانچ سو افراد پر مشتمل ان کا گاؤں ھالہ ناکہ روڈ پر نصف صدی سے آباد ہے۔ اس علاقے میں اب تین سو ایکڑ اراضی پر ایک بڑی ہاؤسنگ اسکیم بن چکی ہے
شمع کولہی بتاتی ہیں ”یہاں ہر طرف آم، بیر اور لیموں کے باغات ہوتے تھے۔ پیاز، گنا، ٹماٹر اور گندم سمیت کئی فصلیں اگائی جاتی تھیں، جن پر عورتیں اور مرد سب مل کر کام کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ زمینداروں نے یہ ساری زمین بلڈر کو بیچ دی۔ باغات کاٹ دیئے گئے۔ فصلیں ختم ہوئیں تو انہیں مویشی بھی بیچنا پڑے۔ زیر زمین پانی کڑوا ہو گیا۔ ایک تو روزگار گیا اور پھر سبزی، بچوں کا دودھ اور پانی بھی بازار سے خریدنا پڑتا ہے۔ بلڈر کے ملازمین روزانہ آ کر کہتے ہیں ’گاؤں خالی کر دو۔ اب تمہارے گھر بھی گرا دیں گے۔‘ اگر ہمیں بے دخل کرنا ہی ہے تو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دیں، جہاں ہم بے خوف زندگی گزاریں اور کھیتی بھی کر سکیں“
گاؤں لکھمن کولہی کی پینتالیس سالہ لالی بھی شمع کولہی کے ساتھ سبزی منڈی میں کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ کچے گھر میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے باپ دادا دہائیوں سے یہاں آباد تھے۔ شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو نادرا والے بجلی کا بل مانگتے ہیں۔ یہاں کبھی گیس اور بجلی تھی ہی نہیں تو بل کہاں سے لائیں۔ زمیندار تو ہمیشہ سے ’پردیس‘ میں رہتے ہیں۔ یہاں سارا کام کمدار سنبھالتے تھے، جن کو ووٹ دیئے تھے، وہ بھی ان کا تحفظ نہیں کر رہے
محکمہ روینیو اور پولیس آلہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں
حیدرآباد شہر کی آبادی بیس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہاں 1980ء سے 2023ء تک حیدرآباد ڈیولپمنٹ اٹھارٹی کی منظوری سے پانچ سو سے زیادہ رہائشی اسکیمیں بنائی گئی ہیں۔
شہر کے اطراف اب بھی تقریباً ایک ہزار ایکڑ رقبے پر درجنوں رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ ان میں ووھرا ٹاؤن، عباس ٹاؤن، بسم اللہ ٹاؤن، قادر ایونیو، جمیرا پام سٹی، حیدرآباد نیو سٹی، گولڈن ٹاؤن، اسرا ولیج و دیگر شامل ہیں۔
سالہا سال سے آباد بیس سے زیادہ چھوٹے بڑے گاؤں، جن کا ذریعہ معاش یہاں ہونے والی زراعت سے وابستہ تھا، اب ان سے نہ صرف وہ ذریعہ چھن گیا ہے بلکہ وہ اپنے گھروں سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ ان کے گاؤں ان رہائشی اسکیموں میں گھرے ہوئے ہیں، جنہیں خالی کرایا جا رہا ہے
گاؤں امید علی لغاری، حاجی بھٹی، شیرمحمد گوپانگ، گاؤں عرس عالمانی و دیگر گوٹھوں کے تقریباً 19 ہزار کے قریب لوگ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ کسان اب اپنے گھروں کو بچانے کی آخری لڑائی لڑ رہے ہیں
چار سو نفوس پر مشتمل گاؤں امید لغاری ’فضل سن سٹی‘ نامی رہائشی اسکیم کی زد میں آنے والی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس گاؤں کے رہنے والے سماجی کارکن دوست علی بتاتے ہیں ”ہاؤسنگ اسکیم کی تین سو ایکڑ اراضی محکمہ مال (ریونیو) اور محکمہ انہار کی ملکیت تھی۔ یہ زمین ایک انہار انجنیئر عبدالعزیز شیخ نے زرعی استعمال کے لیے 99 سالہ لیز پر لی تھی۔ بعد میں اسے محکمہ ریونیو کی منظوری سے بیچ دیا گیا۔ یہاں ایک نہر بھی تھی، جو اب ختم ہو گئی ہے اور وہاں پلاٹ بن رہے ہیں“
گاؤں عرس عالمانی کے رہائشی علی نواز اب بھی کاشتکاری کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ قانونِ مزارعت کے تحت ہاری کو نوٹس دیئے بغیر زمین سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا، مگر انہیں آج تک کوئی نوٹس نہیں دیا گیا
دس افراد پر مشتمل خاندان کے واحد کفیل پچاس سالہ علی نواز بتاتے ہیں ”گاؤں کے لڑکے مزدوری کرنے شہر جاتے ہیں تو بلڈرز کے ایما پر راہوکی اور ہٹڑی پولیس انہیں اٹھا لیتی ہے۔ اہلکار کہتے ہیں کہ گاؤں خالی کرو ورنہ تمہیں سکون سے رہنے نہیں دیں گے۔ہم پولیس کو پیسے دے کر لڑکوں کو چھڑا لاتے ہیں۔ دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے“
اسی گاؤں کے پرائمری اسکول ٹیچر میر اعجاز کہتے ہیں ”چار سال قبل گاؤں خالی نہ کرنے پر حیدرآباد نیو سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالکان عارف بلڈرز کی جانب سے مقامی لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ ایک سابق فوجی افسر زاہد سومرو نے راہوکی تھانے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کرایا، جس میں محمد عرس عالمانی، خیر محمد، خدا بخش اور کوثر سمیت گاؤں کے بیس نوجوانوں اور کسانوں کو نامزد کیا گیا تھا۔ گرفتاریاں ہوئیں، ہم نے سول کورٹ میں مقدمہ لڑا، گزشتہ سال مقدمہ جھوٹا ثابت ہوا۔ لیکن اب گاؤں کا سیوریج بند کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے آواز اٹھائی تو دو مزید جھوٹے مقدمات درج کرا دیئے گئے۔ پولیس گھر پہنچ گئی اور اب بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں“
تھانہ راہوکی کے ایس ایچ او عطا محمد کاکا تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے شکایت پر کارروائی کی تھی، تاہم وہ کہتے ہیں ”پولیس نے کسی کسان کو دھمکی نہیں دی“
واضح رہے کہ حکومت سندھ نے تین ماہ قبل صوبے میں تین سو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے، ان میں حیدرآباد ضلع کی بیس اسکیمیں بھی شامل ہیں، لیکن یہاں کام تاحال نہیں رکا۔ ان اسکیموں میں المدینہ سٹی، الرحیم سٹی، کوہسار گرین سٹی، غوثیہ ٹاؤن، کوہسار ہیون، سائبان ہاؤسنگ اسکیم اور دیگر شامل ہیں
جبکہ صوبائی سیکرٹری زراعت اعجاز احمد مہیسر کے مطابق ”زرعی اراضی پر ہاؤسنگ کالونیاں ممنوع قرار دینے کی پالیسی بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ سے بھی بات ہوئی ہے۔ اس وقت ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ مستقبل میں لینڈ پالیسی بنا کر ضروری قانون سازی کریں گے۔“
دوسری جانب قیمتی زرعی اراضیوں کو مقامی لوگوں سے زبردستی کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر انہیں پہلے برانڈ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پھر اشرافیہ کے درمیان پرتعیش اور محل نما مکانات بنانے کی ایک لمبی ریس لگ جاتی ہے۔ ان ہاؤسنگ سوسائٹی کی ابتدا ڈی ایچ اے سے ہوئی اور پھر بحریہ ٹاؤن نے اسے مزید بڑھاوا دیا
آج پاکستان کے تمام صوبوں کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور بحریہ ٹاؤن پورے طمطراق کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا کاروبار ملک کے گرد و پیش میں جال کی طرح پھیل چکا ہے، جس کی وجہ سے اب زرخیز زرعی اراضی پر کھیت کھلیان کی جگہ سیمنٹ کے پختہ مکانوں نے لے لی ہے۔ یہاں نہ صرف زراعت تباہ ہو رہی ہے، بلکہ کئی تاریخی مقامات بھی اس کی نذر ہو رہے ہیں
اسکول ٹیچر میر اعجاز بتاتے ہیں ”حیدرآباد شہر سے دس کلومیٹر شمال مشرق میں ’دبی‘ کا میدان ہے۔ جہاں سندھ پر قبضے کے لیے انگریز فوج نے حملہ کیا تو حکمران ٹالپور خاندان کے ساتھ 24 مارچ 1843 کو یہیں بڑا معرکہ ہوا۔ سندھی فوج اپنے سپہ سالار ہوش محمد شیدی کی قیادت میں لڑی۔ ہوش محمد بہادری سے لڑے اور شہید ہو گئے۔ان کا نعرہ ’مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘ آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔ انگریز جنرل نے وہاں یادگار بنوائی۔ شہید ہوش محمد کی یادگار بھی وہیں تعمیر کرائی گئی۔ قریب ہی شھید ہوش محمد کا مزار بھی ہے
میر اعجاز کہتے ہیں ”یہ علاقہ بھی اب بلڈرز کی نظر میں ہے، جہاں کل کوئی ہاؤسنگ اسکیم بن رہی ہوگی۔“
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
سندھ آبادکار بورڈ کے سینئر نائب صدر محمود نواز شاہ کا کہنا ہے ’’ٹنڈو اللہ یار، سکھر، جام شورو اور کراچی کے کئی زرعی علاقوں میں اب ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں۔ قانونی طور پر زرعی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا آسان نہیں ہے لیکن پاکستان میں قوانین صرف بنائے جاتے ہیں، ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔‘‘
محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ زراعت میں بڑھتی ہوئی لاگت بھی زمین داروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی زمینیں بیچیں۔ یہ خطرناک رجحان ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر فوڈ ان سکیورٹی بڑھے گی
سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد کہتے ہیں ”ضلع حیدرآباد کی زرخیز زمینوں کو آبادیوں میں تبدیل کر کے ملک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو ملک کے اندر غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ ضلع حیدرآباد کے زرخیز زرعی زمین جس پر آم، بیری، کیلے ،چیکو کے باغات، گنے، گندم کی فصل اور سبزیاں اُگائی جاتیں ہیں، جو پورے ملک میں بھیجی جاتی ہیں، ان زرعی زمینوں میں بڑی تعداد میں ہاری کام کرتے ہیں اور اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو روزگار حاصل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع حیدرآباد اور میرپور خاص کے زرعی علاقے بڑے زرخیز اور مقبول ہیں لیکن کچھ عرصہ سے ان زرعی زمینوں کو آبادیوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا گیا ہے“
سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد مری کے مطابق دس سالوں میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمینوں کو آبادی میں تبدیل کر دیا گیا ہے، یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے، اس کی وجہ سے تیزی سے زرعی باغات اور زرعی زمین ختم ہوتی جا رہی ہے
انہوں نے بتایا کہ ضلع حیدرآباد اس میں نمبر ون پر آگیا ہے، جس کی زرعی زمینیں رہائشی آبادیوں میں تبدیل ہورہی ہے، جس کی وجہ سے زراعت متاثر ہو رہی ہے
زرعی معاشیات میں پی ایچ ڈی مولا بخش پیرزادہ کے مطابق زرعی زمینوں پر رہائشی آبادیوں کی وجہ سے زراعت سخت متاثر ہو رہی جس کے نقصانات بہت زیادہ نکلیں گے، اس کو روکنے کے لیے اداروں کو فوراً پالیسی بنانی چاہیے تاکہ آگے چل کر ہم غذائی قلت سے بچ سکیں
سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد مری کا کہنا ہے کہ ملک میں آبادی کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ ماحولیاتی تباہی اور غذائی قلت کا خطرہ اس وجہ سے پیدا ہوتا جارہا ہے اور ہم اپنی زرعی زمین کے تحفظ پر توجہ نہیں دے رہے
سابق تعلقہ ناظم خاوند بخش جہیجو کہتے ہیں ”حیدرآباد میرپور خاص ہائے وے کے دونوں جانب شاندار زرعی زمین اور باغات ہوتے تھے، جو اب تیزی سے ہاوسنگ اسکیموں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ زمینداروں کا کہنا ہے حکومت کاشتکاری کے لیے وقت پر پانی نہیں دیتی اور اگر پانی ملتا ہے تو اس کے لیے ہر دفعہ رشوت بھی دینی پڑتی ہے، اس وجہ سے وہ ہاؤسنگ اسکیم والے کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ ٹنڈوجام کے علاقے میں آئل فلیڈ کنر پلانٹ، قریب ہی ٹنڈو عالم آئل فلیڈ موجود ہے جس کی وجہ سے بھی موحولیات آلودگی بڑھ رہی ہے کیوں انھوں نے ماحولی آلودگی سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں اب اگر اس صورتحال میں باغات اور زرعی زمیینں کو ہاوسنگ اسکیموں میں تبدیل ہونے سے نہیں روکا گیا تو آنے والے دنوں میں یہاں کا موسم نہ صرف تبدیل ہو جائے گا، بلکہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گا۔“