پاکستان: ڈرون ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپ کمپنی کسانوں کا کام کیسے آسان بنا رہی ہے؟

ویب ڈیسک

سن 2022ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی براہ راست یا بالواسطہ طور پر زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ ورلڈ بینک کے حالیہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اپنے اثرات میں شدید ہوتی جا رہی ماحولیاتی تبدیلیوں اور خاص کر مون سون کی بارشوں میں غیر معمولی کمی بیشی ہوتے رہنے سے زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے

’کلام فار سولیوشنز‘ (Kalam4Solutions) خواتین کی ایک ٹیم پر مشتمل ایک ایسی اسٹارٹ اپ کمپنی ہے، جو دیہی علاقوں میں جدید ڈرون ٹیکنالوجی سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما کسانوں کے کام میں ان کی مدد کر رہی ہے

اس کمپنی کی بانی سربراہ روزینہ صالحہ ’کلام فار سولیوشنز‘ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ‘کلام فار سولیوشنز‘ کی بنیاد 2018ء میں رکھی تھی اور تب ان کی ٹیم میں زیادہ ترخواتین ہی تھیں۔ اس اسٹارٹ اپ کے قیام کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پاکستانی دیہی علاقوں میں کسانوں کی مدد کرنا تھا تاکہ یوں نہ صرف وقت اور توانائی کی بچت ہو سکے بلکہ زرعی پیداوار کو بھی آسانی سے بڑھایا جا سکے۔

روزینہ صالحہ کہتی ہیں ”ڈرونز کو دنیا بھر میں زراعت میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ سائنسی جریدے ‘ایگریکلچر‘ میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے نتائج کے مطابق دنیا بھر میں ڈرونز کی مدد سے فصلوں پر مختلف اقسام کی کھاد اور جراثیم کش ادویات کا سپرے کرنے کے رجحان سے زرعی پیداوار میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ممکن ہوا کہ ایک ڈرون سے ایک دن میں دس انسانوں کے برابر کام لیا جا سکتا ہے۔“

روزینہ صالحہ نے کہا کہ ان کے ادارے کے قیام کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کو پاکستان کے زیادہ سے زیادہ دیہات تک پہنچانا تھا۔ اب ’کلام فار سولیوشنز‘ کی ٹیمیں دو دو تکنیکی ماہرین اور دو دو ڈرون آپریٹرز پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ ٹیمیں اب تک مردان، صوابی اور رحیم یار خان میں کسانوں کو ان کی فصلوں پر کھاد اور زرعی ادویات کے سپرے کے لیے ڈرونز فراہم کر چکی ہیں اور یوں تین ہزار ہیکٹر رقبے پر اسپرے کیا جا چکا ہے

کمپنی کی سی ای او روزینہ صالحہ نے بتایا کہ ایک ڈرون پر تقریباً پچیس لاکھ روپے لاگت آتی ہے جبکہ کسانوں سے ایسے ڈرونز کے استعمال کے لیے فی ہیکٹر صرف دو ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں

ایک ڈرون کی مدد سے ایک دن میں چالیس ایکڑ زرعی رقبے پر سپرے کیا جا سکتا ہے جبکہ روایتی طور پر عام کسان آج بھی بڑے بڑے اسپرے ٹیکنوں کو اٹھا کر ایک دن میں صرف ایک ایکڑ رقبے پر ہی اسپرے کر پاتے ہیں۔ اس شعبے میں ڈرونز کے استعمال سے نہ صرف وقت اور توانائی کی بچت ہوتی ہے بلکہ زرعی پیداوار میں بھی بتدریج اضافہ نوٹ کیا گیا ہے

ڈرونز کی مدد سے زراعت میں مزید بہتری کے حوالے سے روزینہ صالحہ کہتی ہیں ”ڈرونز صرف فصلوں پر اسپرے کرنے ہی میں مدد نہیں دیتے بلکہ دنیا بھر میں انہیں وسیع و عریض رقبے پر فصلوں کی مانیٹرنگ کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کی مدد سے فضائی جائزے لے کر فصلوں کو موسمیاتی تبدیلیوں یا بیماریوں سے پہنچنے والے نقصانات کو مانیٹر کر تے ہوئے بروقت مناسب اقدامات بھی کیے جاتے ہیں، جو بہت سود مند رہتے ہیں۔“

انہوں نے بتایا ’’اس مقصد کے لیے ’کلام فار سولیوشنز‘ کے ڈرونز پر بہت حساس سینسر لگے ہوتے ہیں، جن سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں کسانوں کی بہتر حفاطتی اقدامات کے لیے رہنمائی بھی کی جاتی ہے۔“

ان کے بقول ”اس طرح ہم نے مردان، صوابی اور دیگر علاقوں میں فصلوں کی پیداوارمیں چار سے پانچ فیصد تک اضافہ بھی نوٹ کیا ہے‘‘

روزینہ صالحہ کے مطابق فصلوں پر طاقت ور ادویات کے بہت زیادہ اسپرے سے کسان پھیپھڑوں اور گردوں کے امراض کا شکار بھی ہونے لگے ہیں۔ لیکن ڈرونز کے ذریعے سپرے سے کسانوں کی صحت کی حفاظت میں بھی مدد مل رہی ہے

مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں ’کلام فار سولیوشنز‘ کی بانی سربراہ روزینہ صالحہ کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی ایک ڈرون تقریباً پچیس لاکھ روپے میں خریدتی ہے۔ اپنے اس پروگرام کو پنجاب اورخیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کے لیے انہیں مزید ڈرونز کی ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات سے کئی اسپانسرز اس حوالے سے دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں ۔ لیکن بیرون ملک سے مہنگے ڈرونز منگوانے کے بجائے اب اس اسٹارٹ اپ کی توجہ اس بات پر بھی ہے کہ ان ڈرونز کے مختلف پرزے مقامی طور پر پاکستان ہی میں بنائے جائیں تاکہ سر مائے کی بچت بھی کی جا سکے

ایسے ڈرونز کو استعمال کرنے والے صوابی سے تعلق رکھنے والے کسان کلیم اللہ کریلے اور ٹماٹر کی فصلیں کاشت کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ صوابی میں زیادہ تر کسان پہلے تمباکو کاشت کیا کرتے تھے کیونکہ دیگر سبزیوں اور پھلوں کی کاشت ان کے لیے زیادہ منافع بخش نہیں ہوتی تھی۔ تاہم حالیہ چند برسوں میں یہی کسان جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ٹماٹر، کریلے اور دیگرسبزیاں کاشت کرتے ہیں اور پہلے سے زیادہ منافع کما رہے ہیں

کلیم اللہ کے مطابق پہلے کریلے کی فصل موسمی بیماریوں یا کیڑا لگ جانے سے خراب ہو جاتی تھی۔ اب وہ ڈرونز کی مدد سے کئی ایکڑ رقبے پر صرف چند روز میں ہی زرعی ادویات کا اسپرے کر کے اپنی فصل کو خراب ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ڈرونز کے علاوہ ورٹیکل فارمنگ یا عمودی کاشت کاری جیسے طریقے بھی زرعی پیداوار بہتر بنانے میں بہت معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close