سرخ موت (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

ایڈگر ایلن پو (مترجم: آصف فرخی)

سارے دیس پر سرخ موت کا سایہ تھا۔۔ سرخ موت، شہر شہر گلی گلی گھوم رہی تھی۔۔ کوئی اس سے محفوظ نہ تھا۔۔ کسی قاتل کی کبھی کوئی ایسی دہشت نہ چھائی ہوگی، نہ کوئی جلاد ایسا سفاک ہوا ہوگا۔۔ سرخ موت آناً فاناً وار کرتی، اچانک اور ناگہانی۔۔ اس کے شکار ہونے والوں کو تیز درد اٹھتا اور چکر آنے لگتے اور اس کے بعد پھر وہ ہولناک علامت ظاہر ہوتی، جس کی وجہ سے اس وبا کا نام ’سرخ موت‘ رکھا گیا تھا۔۔ اس کا شکار ہونے والوں کا خون رسنے لگتا، بڑی بھیانک کیفیت تھی۔۔ ایسا معلوم ہوتا کہ سارے بدن کی کھال میں سوراخ ہوگئے ہیں اور خون ایک ایک مسام سے بہا جا رہا ہے۔۔ یہ دیکھنے کی تاب لانا بھی ممکن نہیں تھا کہ تڑپتے ہوئے لوگ فرش پر ڈھیر ہو جاتے اور اذیت کی شدت کے مارے چیخنے لگتے، آدھے گھنٹے کے اندر ان کا سانس اکھڑ جاتا اور ان کا دم نکل جاتا۔۔ مرنے والوں کے چہرے خون سے سرخ ہو جاتے، کیونکہ یہی سرخ موت کا نشان تھا۔۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس کا سبب کیا ہے، کوئی نہیں جانتا تھا اس کا علاج کیسے کیا جائے۔۔ اور کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ اگلا وار کہاں اور کس پر کرے گئی۔۔ لوگ ہر وقت اس کے خوف اور مستقل عذاب میں رہتے۔۔

لیکن ایک جی دار ایسا بھی تھا، جس کو سرخ موت کی مطلق پروا نہ تھی۔۔ اس کا نام تھا شہزادہ پروسپرو۔۔۔ دولت مند اور سیر و تفریح کا دلدادہ شہزادہ اپنی عیش و عشرت کی زندگی کے معمولات کو اسی طرح جاری رکھے رہا اور چاروں طرف لوگ موت کا لقمہ بنے جا رہے تھے۔۔ شہزادے کو تو جیسے خبر ہی نہیں تھی۔۔

سرخ موت لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے چلی جا رہی تھی، آخر کار شہزادے کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اس کے آدھے سے زیادہ نوکر چاکر، خدمت گار مر چکے ہیں اور اس کے بہت سے دوست بھی اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں۔۔

لیکن خوف یا غم کا اظہار کرنے کے بجائے، شہزادے نے اس خبر کو سن کر بھی اپنے مخصوص انداز میں یوں ہی ٹال دیا، ”میں بڑی بھاری دعوت رچاؤں گا۔“ اس نے کہا، ”چھ مہینے جاری رہنے والی دعوت، جس میں ہم سب اس بیکار کی ’مصیبت‘ کو بھول جائیں گئے۔۔“

لہٰذا شہزادے پروسپرو نے دربار کے امراء اور رؤسا اور ان کی بیگمات کو بلاوے بھیجے۔۔۔

”ہم اس اداس شہر اور سوگوار شہر سے باہر نکل جائیں گئے۔۔“ اس نے کہا، ”میرا ایک آبائی محل ہے، ہم وہاں کا رخ کریں گے۔۔“

دربار کے امراء اور رؤسا کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی اور کیا بات ہوسکتی تھی کہ شہزادے کے پیچھے پیچھے اس محل میں چلے جائیں جو سب سے الگ تھلگ ایک دور افتادہ علاقے میں واقع تھا۔۔ سب کا خیال تھا کہ وہاں پہنچ کر وہ سرخ موت کے خطرے سے محفوظ ہو جائیں گے اور اس کو بھول جائیں گئے۔۔۔

شہزادے کا محل بہت شاندار تھا۔۔ اونچا پر شکوہ اور قدیم لیکن آس پاس کی ویرانی کی وجہ سے بلکل سنسان معلوم ہوتا۔۔ اس کے چاروں طرف مضبوط اور اونچی فصیل کھینچی ہوئی تھی، جس میں لوہے کے پھاٹک تھے۔۔ جب تمام مہمان محل کی فصیل کے اندر داخل ہو گئے تو شہزادے نے حکم دیا کہ پھاٹک بند کر دیئے جائیں اور ان پر قفل چڑھا دیئے جائیں۔۔ اب سرخ موت یہاں داخل نہیں ہوسکتی۔۔ اس نے ہنس کر کہا، ”باقی دنیا اس سے نمٹتی رہے۔۔“

اس کے ساتھیوں نے بھی اس کی تائید کی۔۔ پھاٹکوں پر قفل چڑھا دیئے گئے اور فصیل بند کر دیا گیا۔۔

محل کے اندر شہزادے نے بہت دن تک رہنے کا سامان مہیا کیا ہوا تھا۔۔ کھانے پینے کی چیزیں بہت افراط سے تھیں۔۔ نوکر چاکر بہت تھے کہ مہمانوں کی معمولی سے معمولی ضرورت کا خیال رکھیں۔۔ موسیقار موجود تھے کہ سبھا سجا سکیں اور ماہر کلاونت کہ روز شام کو محفل گرم رہے۔۔۔ پڑھنے کے لئے کتابیں تھیں اور مسخرے موجود تھے کہ لوگوں کو ہنساتے رہیں، اور کس چیز کی کمی تھی؟ سب کا خیال تھا کہ جب تک کہ وبا کا زور ٹوٹ نہیں جاتا، وقت گزارنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا، اور نہ اس سے بہتر کوئی جگہ ہو سکتی ہے۔۔ یہاں محل اونچی فصیل کے اندر ہر شخص خوش تھا اور مطمئن اور محفوظ تھا۔۔

یہ دعوت چھ مہینے تک چلتی رہی، گاہے بہ گاہے شہزادے کو اطلاع ملتی رہتی کہ سرخ موت سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔۔ سرخ موت کو قہر اور بڑھ گیا ہے۔۔ لیکن ایسی کوئی خبر محل کے اندر مہمانوں کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈال سکتی تھی۔۔ وہ کھانے پینے، مزے اڑانے میں دن بھر مشغول رہتے۔۔ ان کو تکیلف تھی تو بس اتنی کہ حد سے زیادہ تفریح سے بھی اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔۔۔ ان کو بیزاری سے بچانے کے لئے شہزادے نے ایک اور دلچسپی کا ڈول ڈالا۔۔۔۔۔ اس نے اپنے مہمانوں سے کہا کہ ہم نقاب پوش رقص کا اہتمام کریں گے۔۔ ہم بہت بڑے پیمانے پر ایسے رقص کی محفل سجائیں گے، جس میں تمام مہمان بھیس بدل کر اور بہروپ بھر کر آئیں گے اور محل کے سارے مہمان اس میں شریک ہوں گے۔۔

محل کے مہمانوں میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔ دربار کے امیر اور رئیس اور ان کی بیگمات بڑے جوش و خروش سے یہ پرے کرنے میں جٹ گئے کہ وہ کون سا سوانگ بھریں گے اور کس بھیس میں جائیں گے۔۔ خوب تیاریاں ہونے لگیں۔۔

آخر کار وہ دن بھی آ گیا، جب نقاب پوش رقص ہونا تھا۔۔ محل کے پرانے حصے میں سات وسیع و عریض رقص گاہیں تھیں۔۔۔ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ رقص کا اہتمام انہی میں کیا جائے۔۔ رقص کے لئے استعمال ہونے والے یہ سات کمرے ایک کے بعد ایک واقع تھے اور ان کی اونچی لمبی کھڑکیاں آس پاس کے دیہات کی طرف کھلتی تھیں بلکہ ایک اور راہدری پر کھلتی تھیں، جس کو بند کر دیا گیا تھا۔۔ کمروں میں روشنی کے لئے دیوار میں مشعلیں لگی ہوئی تھیں۔۔ جب مشعلیں جل اٹھتیں تو ان کے بھڑکتے شعلوں کی وجہ سے ایک عجیب تاثر پیدا ہو جاتا۔۔ ہر کمرے کے در و دیوار ایک الگ رنگ کے تھے، اور اسی رنگ کے پردے اور دیوار گیر تصوریں مزین تھیں۔۔ پہلا کمرہ نیلا تھا، دوسرا کمرہ عنابی، تیسرا سبز، چوتھا نارنجی، پانچواں سفید، اور چھٹا کاسنی۔۔۔۔ ہر کمرے کی اونچی اونچی پتلی پتلی کھڑکیوں میں رنگین شیشے جڑے ہوئے تھے، جن کا رنگ دیواروں کے رنگ جیسا تھا۔۔

”کمروں کو اس طرح سجانا بھی کیسی عجیب بات ہے“ ایک خاتون نے کہا، ”شہزادے کا ذوق بہت غیر معمولی ہے۔۔“

لیکن ساتواں کمرہ ایسا تھا کہ سارے مہمانوں کو سب سے زیادہ عجیب معلوم ہوتا تھا۔۔ اس کمرے کی دیواریں سیاہ پوش نظر آتی تھیں۔۔ دبیز سیاہ مخمل کی طویل، دیوار گیر تصوریں فرش تک آتی تھیں، جہاں سیاہ رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا۔۔ یہ واحد کمرہ تھا، جہاں کھڑکیوں کا رنگ کمرے کی دیواروں جیسا سیاہ نہیں تھا۔۔ سیاہ رنگ کے بجائے ساری کھڑکیوں کا رنگ سرخ تھا، اتنا سرخ، جیسے خون۔۔۔!

اس ساتویں کمرے میں ایک اور چیز عجیب تھی۔۔ ایک دیوار کے ساتھ دیوقامت گھڑیال تھا، جو آبنوس کا بنا ہوا تھا۔۔ اس کا پنڈولم سونے کا بنا ہوا تھا، اور آگے پیچھے حرکت کرتا ہوا لمحوں کا حساب رکھتا۔۔ لیکن جب گھنٹہ پورا ہو جاتا تو اس میں ایسی آواز آتی کہ رقص کرنے والے تمام لوگ تھم جاتے۔۔ ان کے چہرے فق جاتے۔۔ موسیقار اپنے ہاتھوں میں وائلن تھامے رہ جاتے اور چور نظروں سے ایک دوسرے کی طرف تکنے لگتے۔۔ وہ دل ہی دل میں قسم کھاتے کہ اگلا گھنٹہ پورا ہوگا تو وہ خوف زدہ نہیں ہوں گے۔۔ لیکن ہر مرتبہ ایسا ہوتا کہ گھنٹہ بجنے کا وقت جوں جوں قریب آنے لگتا، ان کے دل ایک بار پھر سہم جاتے۔۔ مگر اس عجیب، اندھیرے ساتویں کمرے اور اس بھیانک آواز والے گجر کے باجود، رقص گاہوں میں جیسے میلا لگا ہوا تھا۔۔ جشن کا سماں تھا۔۔ لوگ نت نئے بھیس بدل کر اور زرق برق پوشاکیں پہن کر آئے تھے۔۔ اور مشعلوں کی روشنی میں رقص گاہ کے فرش پر ایسے حرکت کر رہے تھے، جیسے ہوا میں اڑ رہے ہوں۔۔۔۔ خوشی سے بھرپور قہقہوں اور دلچسپ گفتگو کی آوازوں سے چھے کمرے بھرے ہوئے تھے، مگر جو بھی مہمان ساتویں کمرے کو ایک نظر دیکھ لیتا، دوبارہ اسی طرف کا رخ بھی نہ کرتا۔۔۔

شہزادہ پروسپرو اس محفل میں سب سے زیادہ لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ہر شخص سے زیادہ خوش ہے۔۔ اس کا تو انداز ہی یہی تھا۔۔ ”سب ٹھیک تو ہے ناں؟“ وہ ایک ایک مہمان کے پاس جا کر پوچھتا، ”آپ کچھ کھانا پسند کریں گے؟“ وہ مہمانوں کی تواضع کر رہا تھا۔۔ وہ ہر طرف نظر آرہا تھا۔۔ نقاب پوش رقص واقعی بہت کامیاب جا رہا تھا۔۔ کئی برس سے ایسی بارونق تقریب نہ ہوئی تھی۔۔۔

خوشی کے موقعوں پر وقت تو جسے ٹھہرتا ہی نہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پر لگا کر اڑ گیا۔۔ چنانچہ اس محفل کے مہمان بھی حیران رہ گئے، جب ساتویں کمرے کا عجیب و غریب گجر آدھی رات کی صدا دینے لگا۔۔ گجر کی آواز پہلے سے بھی زیادہ ہولناک تھی۔۔ ایک، دو، تین، چار، چوتھی آواز پر موسیقاروں نے ساز روک دیے، مہمان دم بہ خود کھڑے اس کی آواز سن رہے تھے۔۔ پانچ، چھ، سات۔۔۔ گجر کی آواز ساتویں کمرے سے نکل کر سارے محل میں پھیلتی جا رہی تھی۔۔ رقص گاہوں کی دیواروں سے ٹکرا کر گونج رہی تھی۔۔ شاید اس لئے کہ سب لوگ ساکت کھڑے تھے، یا شاید اس وجہ سے کہ چاروں طرف سناٹا تھا، لیکن وجہ کوئی بھی ہو، گجر پورے بارہ بجا چکا تو جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔۔ پھر اچانک پہلے کمرے سے حیرت کی آواز بلند ہوئی اور دبی دبی سرگوشیاں پھیلنے لگیں۔۔ حیرت کی وجہ یہ تھی کہ رقص گاہ کے عین بیچوں بیچ، فرش پر ایک نقاب پوش موجود تھا۔۔ جسے اس سے پہلے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا اور جسے جیسے مہمان اس کی طرف متوجہ ہوتے گئے، ان کی حیرت خوف میں بدلتی گئی۔۔ جس کی بھی نظر اس پر پڑ جاتی، اس کی حلق سے خوف کی گھٹی گھٹی چیخ نکل جاتی۔۔

شہزادے نے اپنے مہمانوں سے یہ تو کہا تھا کہ نت نئے بہروپ بھریں اور عجیب و غریب پوشاکیں پہن کر آئیں۔۔ جو خوب صورت ہوں یا عجیب یا مزاحیہ۔۔ مگر یہ۔۔ یہ تو حد ہو گئی! اس کا تو یقین ہی نہیں آتا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔۔!!

وہ لمبا تڑنگا نقاب پوش رقص گاہ کے فرش کے بیچوں بیچ اکیلا کھڑا تھا اور اس کے کاندھوں پر سرمئی رنگ کا لبادہ تھا۔۔ اس نے اپنے چہرے پر جو نقاب پہن رکھا تھا، وہ کسی لاش جیسا تھا، گویا وہ قبر سے ابھی آٹھ کر آیا ہو۔۔ شاید یہ لبادہ اور نقاب بھی اس محفل کے مہمان یہ سمجھ کر برداشت کر لیتے کہ جو مہمان اس نقاب کو اوڑھے ہوئے ہے، اس کا مذاق ذرا سنگین ہے، مگر اس نقاب میں ایک بات بہت عجیب تھی۔۔ اس لاش کے نقاب پر سرخ نشان تھے۔۔ جیتے جیتے لہو کے نشان سرخ موت کی نشان۔۔!!

شہزادہ پروسپرو دوسرے کمرے میں تھا، وہ اس کمرے میں آ گیا کہ اس اچانک خاموشی کا سبب معلوم کریں۔۔ جب اس نے نقاب پوش کو دیکھا تو وہ غصے سے بپھر گیا، ”کون گستاخ ہے جو اسی طرح میری اور میرے مہمانوں کی توہین کر رہا ہے؟“ وہ دہاڑا۔۔ ”کون بدبخت ہے، جو میرے محل میں ایسی بدشگونی کر رہا ہے؟“

ایک آدھ مہمان آگے بڑھے، مگر وہ نقاب پوش خود دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔۔ اس جانب جہاں شہزادہ کھڑا تھا۔۔ جو مہمان اس کو روکنے کے لئے آگے بڑھا، وہ دو چار قدم آگے بڑھا کر خود ہی رک گیا۔۔ اس کے قدم من من بھر کے ہو گئے اور خوف کے عالم میں ساکت ہو گیا۔۔ کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کو روک سکے اور وہ نقاب پوش بغیر کسی روک ٹوک کے، ایک سے دوسری رقص گاہ میں گزرتا گیا اور ساتویں کمرے کے دروازے پر پہنچ کر رک گیا۔۔

شہزادہ پروسپرو اب اپنی حیرت پر قابو پا چکا تھا۔۔ اس نے اپنا خنجر نکال لیا اور غصے میں بھرا ہوا اس کی جانب بڑھا۔۔ شہزادہ جب نقاب پوش کے طرف آیا تو نقاب پوش نے اپنے چہرے کا رخ اس کی جانب کر دیا۔۔ مہمانوں نے چیخ سنی۔۔ طویل اور تکلیف دہ چیخ۔۔ خنجر شہزادے کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا اور خنجر کے ساتھ ہی شہزادہ بھی فرش پر گر پڑا۔۔ اس کا جسم بے جان تھا اور اس کے چہرے پر خون کے سرخ نشان تھے۔۔

چند لمحوں تک تو سارے مہمانوں کو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔۔ کسی نے حرکت نہ کی۔۔ پھر دو باہمت لوگ ذرا چونکے اور سیاہ کمرے کی طرف لپکے۔۔ وہ بن بلایا اور ہولناک مہمان گجر کے عین سامنے کھڑا تھا۔۔ ایک شخص نے اس کا لبادہ گھسیٹ لیا اور اس کا نقاب نوچ ڈالا۔۔

کسی کے منہ سے ایک آواز نہ نکلی۔۔ کسی کی پلک تک نہ جھپکی۔۔ اس لئے کہ اس لبادے اور نقاب میں کچھ نہیں تھا۔۔ کوئی بھی نہیں تھا، کوئی بھی نہیں۔۔ خالی لبادہ اور نقاب سیاہ فرش پر ڈھیر ہو گئے۔۔۔

ایک ایک کر کے مہمانوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور وہ خوف کے مارے کچھ کہہ بھی نہ سکے۔۔ موسیقاروں اور ملازموں کو بھی احساس ہو گیا۔۔ کسی لٹیرے کی طرح دبے پاؤں سرخ موت وہاں پہنچ گئی تھی۔۔ محل کی اونچی فصیلیں اس کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکیں تھیں۔۔ وہ نقاب پوش اس رقص میں بن بلائے مہمان کی طرح شریک تھی۔۔

اور پھر موت نے اپنا رقص شروع کر دیا۔۔ وہ جہاں جہاں سے گزری تھی، لوگ درد کی شدت سے چیختے ہوئے فرش پر گرنے لگے۔۔ آدھے گھنٹے کے اندر، رقص گاہوں کا فرش جو موسیقی اور مہمانوں کے لئے بے فکر قہقہوں سے گونج رہا تھا، موت کا بازار بن کر لاشوں سے پٹ گیا۔۔ لاشوں کے چہروں سے خون بہہ رہا تھا۔۔

جب اس محفل کا آخری مہمان بھی موت کا شکار ہوگیا تو وہ آبنوسی گجر چلتے چلتے رک گیا۔۔ محل کی دیواروں پر جلنے والی مشعلیں زور سے بھڑکیں اور بجھ گئی۔۔

اب چاروں طرف اندھیرا تھا اور تباہی اور سرخ موت کا راج۔۔۔!!

Original Title: The Masque of the Red Death
By: Edgar Allan Poe

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close