سقراط پر مقدمے کی حقیقت

ملک اشفاق

قدیم عربی شاعر علقمہ کے ایک شعر کا مطلب کچھ یوں ہے کہ ”جس کا کوئی دشمن نہ ہو وہ شخص منافق ہوتا ہے‘‘۔سقراط کی دانش، سچائی، شجاعت اور ایتھنز کے مروّجہ عقائد کے برخلاف جدید نظریات نے اس کے بہت سے دشمن بھی پیدا کر دیئے تھے۔ایتھنز کی حکمران جماعت کا بااثرلیڈر ’اینی ٹس‘ سقراط کی تنقید کی وجہ سے پہلے ہی اس کا دشمن تھا۔ سقراط کا شاگرد خاص زینوفن کا کہنا تھا کہ ’اینی ٹس‘ نے سقراط کے مذہبی مخالفین سے رابطہ کیا۔ ان میں ایک مذہبی انتہاپسند میلی ٹس بھی تھا۔ میلی ٹس نے مدعی بن کر ایتھنز کی اسمبلی میں مقدمہ دائر کر دیا۔ سقراط پر الزام تھا کہ وہ ریاست کے معروف دیوتاؤں کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔ وہ ان دیوتائوں کی بجائے نئے دیوتاؤں کو متعارف کروا رہا ہے۔ سقراط ریاست کے نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑ کر انہیں گمراہ کر رہا ہے۔ اس لیے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ سقراط کو سزائے موت دی جائے۔ میلی ٹس جو کہ سقراط کے خلاف مقدمے کا مدعی تھا، ایک نوجوان تھا، اسے شہر کے زیادہ لوگ نہ جانتے تھے۔ یہ شخص بہت ہی کینہ پرور تھا۔ اس نے اسی سال ایک اور آدمی پر ملحد ہونے کا الزام لگا کر اسے سزا دلائی تھی

اس عدالت میں اس کی مدد کے لیے دو اثر ورسوخ والے شخص بھی چنے گئے تھے۔ ان میں ایک کا نام ’لائی کون‘ تھا جو کہ ایتھنز کا مشہور مقرر تھا اور دوسرا مشہور و معروف سیاستدان ’اینطوس‘ تھا۔ ’اینطوس‘ کے متعلق سب لوگ جانتے تھے کہ وہ محبِ وطن بھی ہے اور دیانتدار بھی۔ اس طرح اینطوس کا نام مستغیثوں میں شامل کر دیا گیا۔ اس سے سقراط کے مقدمے سے بری ہو جانے کے امکانات بہت کم ہو گئے تھے۔قانون کے مطابق ایک مہینہ کے اندر جیوری کے 501 اراکین کو مقدمے کی سماعت کرنا تھی لیکن یہ بات کسی کو مقدمے کے دن کی سماعت تک بھی معلوم نہ تھی کہ جیوری میں کون کون شامل ہوگا۔ مقدمہ عدالت میں پہنچ جانے کے بعد فیصلہ صادر کر دیا جاتا تھا۔ ایک رکن جیوری کی رائے ادھر یا ادھر ہونے سے سقراط کو جلاوطنی یا پھر موت کی سزا دی جا سکتی تھی

یہ 399 قبل مسیح کا زمانہ تھا۔ اس وقت سقراط کی عمر ستر سال تھی۔ سقراط نے (پیرکلز) فارقیس کا زمانہ دیکھا تھا۔ ایتھنز کی سپارٹاکے ساتھ خوفناک جنگ دیکھی تھی۔ انقلاب اور آمریت کا دور دیکھا تھا۔ اب ایتھنز میں جمہوریت کافی حد تک بحال ہو چکی تھی۔قرعہ اندازی کے ذریعے جیوری کے اراکین مقرر ہو چکے تھے۔ ایوان اعلیٰ (Senate) قائم ہو چکا تھا۔ اس وقت افلاطون کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ وہ اپنے خاندان کی روایت کے مطابق سیاست میں آنا چاہتا تھا۔ وہ سقراط کے حلقہِ ارادت میں شامل ہو چکا تھا اور سقراط کی تعلیمات سے بہت متاثر تھا۔سقراط کو میلی ٹس کے قائم کردہ مقدمہ کی بنا پر عدالت میں طلب کر لیا گیا تھا۔

مقدمہ کی سماعت کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ سقراط کے خلاف جو کچھ بھی مستغیث کہہ رہے تھے وہ بالکل جھوٹ اور غلط تھا۔ سقراط اس سے ذرا بھی خوف زدہ نہ تھا لیکن عدالت میں سقراط کے خلاف جو کچھ کہا جا رہا تھا، لوگ اس سے خوفزدہ تھے۔ سقراط سوچ رہا تھا یہ لوگ نیکی سے خوف زدہ ہیں۔اینی ٹس، میلی ٹس اور لائی کون بہت ہی زور شور سے سقراط کے خلاف بول رہے تھے لیکن ان کی گفتگو میں کوئی سچائی کی طاقت نہ تھی۔ سقراط کا عقیدت مند افلاطون بھی عدالت میں موجود تھا۔ وہ ہر کسی کا ایک ایک لفظ سن رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا۔

استغاثہ کے بعد اب سقراط کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنے دفاع میں جو کچھ کہنا چاہتا ہے کہے۔ سقراط نے اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا اگر استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ میں نوجوانوں کا اخلاق بگاڑتا ہوں تو عدالت میں موجود میرے شاگردوں، ان کے شاگردوں کے والدین اور بھائیوں کو استغاثہ کے گواہوں کے طور پر طلب کیا جائے۔ میں ایتھنز والوں کا احترام کرتا ہوں اور ان سے محبت کرتا ہوں۔ اس لیے میں جو کچھ کہتا ہوں وہ صرف سچ ہوتا ہے۔ عدالت میں سقراط نے اپنے دفاع میں جو کچھ کہا اسے قدیم یونانی دفاعی بیان (Apology) کہا جاتا تھا۔ افلاطون اور زینوفن نے سقراط کے دفاعی بیان کو ’معذرت‘ ہی کہا ہے لیکن یاد رہے کہ معذرت کا لفظ معافی کے معنوں میں نہیں بلکہ دفاعی بیان ہے

سقراط نے کہا ”اے ایتھنز والو! مجھے نہیں معلوم کہ مجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں کی تقریروں کا تم لوگوں پر کیا اثر ہوا ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں تو تقریباً یہی بھول گیا ہوں کہ میں کون ہوں؟ اگرچہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ان کی تقریریں بہت موثر تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک لفظ بھی سچ نہیں کہا۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں خطیب تو ہوں لیکن ان جیسا اچھا خطیب نہیں ہوں۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ان لوگوں نے کوئی بات سچی نہیں کہی لیکن میں آپ کے سامنے سارا معاملہ سچ ہی بیان کروں گا۔میں ان لوگوں کی طرح پہلے سے تیار کی ہوئی تقریر نہیں کروں گا۔ میں حلفاً کہتا ہوں میں تو صرف وہی دلائل دوں گا جو اس وقت میرے ذہن میں آئیں گے۔ میرا طرزِ تکلم اچھا ہو یا بُرا، تم لوگ صرف میرے الفاظ کی سچائی پر دھیان دو گے، کیونکہ کہنے والے کو صرف سچی بات ہی کہنی چاہیے۔ میرے متعلق یہ افواہ میرے دشمنوں نے اڑائی ہے کہ میں معاوضہ لے کر لوگوں کو تعلیم دیتا ہوں۔ اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ جب کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر کوئی شخص واقعی ہی ان انسانوں کو تعلیم دے سکے اور تعلیم کے بدلے میں معاوضہ وصول کرے تو یہ بات تو اس کے لئے قابل فخر و افتخار ہے۔ آج کل ایک پیریائی فلسفی ایتھنز میں ٹھہرا ہوا ہے، مجھے اس سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جو کہ اپنی فیس پانچ میمنے لیتا ہے، اگر وہ شخص واقعی ہی عالم فاضل ہے اور اتنی کم فیس لیتا ہے تو بہت بڑی بات ہے۔ اگر میں اس قابل ہوتا تو مجھے اس بات پر بہت فخر ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس قسم کے علم سے بالکل نابلد ہوں۔ اے ایتھنز والو! آپ میں سے شاید کوئی سوال کرے کہ اے سقراط تم کیا کرتے ہو کہ تم پر الزامات لگائے گئے ہیں؟ اگر تم عام لوگوں کی طرح کسی خاص کام میں مصروف نہیں ہو تو پھر تمہارے بارے میں ایسے الزامات کیوں لگائے گئے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ میں ضرور کوئی ایسا کام کرتا ہوں، جو عام لوگ نہیں کرتے۔“

بشکریہ: دنیا نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close