عوامی تاریخ کے ماخذ

ڈاکٹر مبارک علی

ایک زمانے تک تاریخ پر حکمران طبقوں کی اجارہ داری تھی۔ اب مورّخ اس کو چیلنج کر رہے ہیں۔ عوامی تاریخ لکھتے وقت مورّخوں کو یہ دشواری تھی کہ روایتی تاریخ میں عوام کا ذکر بہت محدود تھا۔ اس لیے انہوں نے ایسے ماخذوں کی طرف توجہ دی، جنہیں اب تک نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ مثلاً عدالتوں، پولیس اور سراغ رساں اداروں کا سراغ جس سے لوگوں کے آپس کے لین دین اور سماجی جھگڑوں کی تفصیلات ملتی ہیں۔ جیل کا ریکارڈ جو جرائم کے بارے میں مواد فراہم کرتا ہے۔ تاجروں کی کمپنیاں اور اس کا ریکارڈ، تجارت اور صنعت و حرفت کے بارے میں معلومات کہلاتی تھیں۔ اس میں ماسٹر Guilt شاگردوں کی تربیت کرتا تھا۔ برصغیر میں پیشہ ور کاریگروں کی برادریاں ہیں، جہاں اُستاد اور شاگرد کے رشتے سے پیشہ ورانہ ہنر نسل در نسل منتقل ہوتا تھا۔

چرچ کے ادارے انکلوژیشن کا ریکارڈ بھی عوامی تاریخ کے لیے بہت اہم ہے۔ اس عدالت میں اُن افراد پر مقدمہ چلایا جاتا تھا، جو مذہب سے منحرف ہو گئے تھے یا جن پر یہ شبہ تھا کہ اُنہوں نے عقیدے میں ترمیم کر لی ہے۔ مورّخوں نے اس ریکارڈ کی مدد سے عام لوگوں کے مذہبی خیالات اور مذہب کے بارے میں اُن کے شکوک و شبہات پر دستاویزات کی بنیاد پر عوامی روّیوں کی تاریخ لکھی۔ خاص طور سے اٹلی کے مورّخ کارلو گینزبرگ نے اپنی کتاب Cheez and the Worm میں ایک مِل کے مالک کے مقدمے کی تفصیل لکھی ہے۔

فرانسیسی ناول نگار ایمل زول اور مشہور آرٹسٹ فان گوخ دونوں نے مل کر کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے لوگوں کی حالت کا جائزہ لیا۔ اُنہوں نے ان کی روزمرہ کی زندگی کا مطالعہ کیا۔ ایمل زولا نے اپنا مشہور ناول جیرمینل Germinel لکھا اور فان گوخ نے ”پٹاٹو ایٹر‘‘ نامی پینٹنگز بنائیں، جن میں کان کنوں کی غربت، مفلسی اور بے بسی کا اظہار ہوتا ہے۔

انگریز شاعر تھوماس گرے نے دیہاتی قبرستان پر مرثیہ لکھا تھا، جس کا اردو ترجمہ نظم ”طباطبائی” نے گورے غریباں کے عنوان سے کیا ہے۔ شاعر جب قبرستان میں غریبوں کی قبریں دیکھتا ہے تو اُس کے ذہن میں سوالات آتے ہیں کہ اُن میں سے کتنے ایسے افراد ہوں گے، جو بڑے ذہین اور لائق ہوں گے۔ مگر زمانے نے اُن کی قدر نہ کی اور وہ غربت کی حالت میں مر گئے۔ پوری نظم غم اور افسردگی کا احساس لیے دل پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اُردو شاعری میں بھی عام لوگوں کی زندگی کے بارے میں بہت مواد ملتا ہے۔ مثلاً ’سودا‘ نے ہندوستانی فوج پر جو نظم لکھی ہے، اس میں اس کی حالت زار کو بتایا ہے کہ ایک فوجی کے پاس اگر تلوار ہے تو ڈھال نہیں ہے۔ گھوڑا ہے تو زین نہیں۔ جب فوج کا یہ حال ہو تو اس سے معاشرے کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نذیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ کسی دربار سے وابستہ نہیں رہے بلکہ عام لوگوں میں مل جل کر رہنے کی وجہ سے ان کی شاعری میں عوام پوری طرح سے جھلکتے ہیں۔ عوامی تہوار ہوں یا مذہبی محفلیں ہوں انہیں وہ سادگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ آگرہ شہر پر انہوں نے جو شہر اشوب لکھا ہے اس میں مغل زوال کی پوری داستان ہے کہ عام لوگ بیروزگار ہیں، کاریگروں کے کام کی کوئی مانگ نہیں ہے، پیشہ ور اور ہنرمند مفلسی اور غربت کا شکار ہے۔ کیونکہ جب حکومت کا انتظام نہ ہو، قانون نہ ہو اور صنعت و حرفت ختم ہو جاتی ہے، تو معاشرے کی خوشحالی بھی قائم نہیں رہتی ہے۔ ان کی پوری شاعری میں عام لوگوں کی سرگرمیاں اور عوامی کردار موثر انداز میں ملتا ہے۔

موجودہ دور میں بھی عوامی تاریخ کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ احسان دانش جو خود ایک مزدور تھے انہوں نے اپنی شاعری میں عوام کی حالت کو بیان کیا ہے۔ ان کی ایک نظم ”جشن بیچارگی” میں ایک غریب لڑکی کی شادی کا ذکر ہے، جس کی شادی پر نہ شادیانے تھے، نہ رقص اور نہ خوشی اور مسرت کے لمحات۔

ناول، افسانے اور شاعری میں عام لوگوں کے بارے میں جو مواد ملتا ہے۔ اب اسے عوامی تاریخ کا ماخذ بنا کر اس کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سے ایسی فلمیں بھی بنی ہیں، جن میں عام لوگوں کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان میں سے چند فلمیں قابل ذکر ہیں۔ مثلاً ”روٹی” جس میں چندرموہن نے ایکٹنگ کی ہے۔ ”ہم لوگ” اور ”دو بیگھا زمین” بھی قابل ذکر ہیں۔ لہٰذا اب روایتی تاریخ کی جگہ عوامی تاریخ لے رہی ہے، جس کی وجہ سے تاریخ میں وسعت آئی ہے اور نئے موضوعات نے اس کی اہمیت کو بڑھایا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close