سياسی حلقوں ميں یہی سوال گونج رہا ہے۔ کيا پيپلز پارٹی کو نکيل ڈالنے کے لیے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو جی ڈی اے کے پليٹ فام سے سياست ميں فعال کيا جا رہا ہے، کیا منصوبہ سازوں کو جام صادق طرز کے کسی نئے سياست دان کی ضرورت ہے؟
خبر ہے کہ يہ منصوبہ تیاری کے حتمی مراحل ميں ہے لیکن سينيئر صحافی ناصر بيگ چغتائی کا کہنا ہے کہ مرزا ابھی تيار نہيں ہیں، مگر ميری رائے ميں اقتدار، انتقام اور محبت کے لیے انسان ہر کام کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔
ابھی اسٹیبلشمنٹ کی پيپلز پارٹی کے لئے یہ صرف سوچ ہے جبکہ آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کی اس سوچ اور فکر سے آگاہ ہيں۔ وہ اس بات سے بھی آگاہ ہيں کہ پيپلز پارٹی کو محدود کرنے کا منصوبہ کس کا ہے، مگر نواز شريف فی الحال پيپلز پارٹی کو محدود کرنے کے حامی نہيں ہيں۔
آصف زرداری نے نگراں وزير اعلٰی پنجاب محسن نقوی کی صورت ميں ’اپنا ایک نمائندہ‘ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے لیکن عمران خان کے تجربہ کے بعد اسٹیبلشمنٹ یہ سوچ رہی ہے کہ ہر سياسی جماعت کو اس کے اصل سائز ميں رکھنے کے لئے آزمودہ گرينڈ ڈيموکريٹ الائنس جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی ’باپ‘ کے ذريعے طاقت کا توازن قائم کيا جائے۔
باپ کی طرف سے سابق صدر آصف علی زرداری کو ہری جھنڈی دکھانے اور جی ڈی اے کے سربراہ پير صاحب پگارا سے مسلم ليگ ن کی ملاقاتوں سے یہ بات بہت حد تک واضح ہو گئی ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کس طرح کی حکومت قائم کرنے ميں دلچسپی رکھتی ہے۔
سياسی حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ پيپلز پارٹی کو سائز ميں لانے کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ’وزير اعظم بلاول‘ کے نعرے وقت سے پہلے لگ رہے تھے۔ ان کے خيال ميں بلاول کو سياسی تحمل پيدا کرنے ميں ابھی چند سال مزید لگيں گے۔ ساتھ ہی انہيں یہ بھی خطرہ تھا کہ بلاول کہيں سياسی پختگی سے قبل اختيار ملنے پر عمران خان نہ بن جائيں حالانکہ تمام سياست دانوں کی ’نرسری اور مالی‘ ايک ہی ہيں۔
غير جانب دار سياسی پنڈت دعویٰ کرتے ہيں کہ عسکری نرسری کے ماليوں نے فی الحال شہباز شريف کو تناور درخت بنانے کا سوچا ہے مگر اس ميں ردو بدل سياسی صورتحال کو ديکھ کر ہی کی جا سکتی ہے۔
انتخابات کی تاريخ کے اعلان سے قبل سياسی بے يقينی کا يہ عالم ہے کہ ايک جانب ’باپ‘ بلوچستان ميں ’بيٹوں‘ کی حکومت بنانے کے لئے پر اميد ہے تو دوسری جانب ملک کے دو بڑے یعنی سابق صدر اور سابق وزير اعظم اپنی اولادوں اور خاندان کے ’پاکستان پر حقِ حکمرانی‘ کی حکمت عملی ترتيب دينے دبئی ميں سر جوڑ کر بيٹھ گئے تھے اور اب تعطيلات گزارنے يورپ ميں ہيں
مگر انتہائی اعلیٰ سطح پر يہ سوچ بچار ہو رہی ہے کہ کيا پيپلز پارٹی کو سندھ ميں دوبارہ اقتدار ميں آنے ديا جائے؟ کيا جی ڈی اے کو حصہ دے کر تلوار اپنے پاس رکھی جائے؟ کيونکہ ماضی ميں صرف ايک ووٹ کی اکثريت سے ارباب رحيم، مظفر حسين شاہ اور علی محمد مہر وزير اعلیٰ سندھ رہ چکے ہيں۔ گمان ہے کہ پيپلز پارٹی کو سائز ميں لانے اور شرائط منوانے کے لئے اس طرز کی تجويز بھی ايک حلقے کی طرف سے پيش کی گئی ہے۔
باپ پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزير اعلٰی قدوس بزنجو نے آصف زرداری سے وعدہ کيا تھا کہ وہ اپنے ساتھيوں کے ہمراہ پيپلز پارٹی ميں شامل ہو جائيں گے مگر انہوں نے خط لکھ کر شموليت سے معذرت کر لی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ باپ پارٹی کا کنٹرول اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور وہ سياست انہی سے پوچھ کر کرتے ہيں۔
پيپلز پارٹی کو گمان تھا کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان پيپلز پارٹی ميں شامل ہوں گے مگر انہوں نے جہانگير ترين کی قيادت ميں علیحدہ پارٹی بنا لی۔ اسی طرح کے پی کے ميں پرويز خٹک نے علیحدہ جماعت بنا کر پيپلز پارٹی کا راستہ روکا ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی منصوبے کے لئے ہو رہا تھا تاکہ پيپلز پارٹی تين صوبوں ميں اکثريت کا دعویٰ کرکے کوئی مضبوط حکومت بنانے کی دعو یدار نہ بن جائے۔
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اور پير پگارا کے گرينڈ ڈيموکريٹ اتحاد جی ڈی اے، کو کون اور کيوں استعمال کر رہا ہے، سب کو معلوم ہے۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سياسی جماعتوں کی آبياری اسٹبیلشمنٹ یا المعروف ’محکمہ زراعت‘ کے مالی کرتے ہيں۔
بعض سياسی حلقے کہتے ہيں کہ پاکستان ميں کوئی بھی سياسی جماعت یا سياسی شخصيت فوج کو ناراض کر کے اقتدار ميں نہيں آ سکتی اور آصف زرداری اس بات سے بہ خوبی واقف ہيں۔ ان کا موجودہ عسکری قيادت سے رابطے کا ذريعہ نگراں وزير اعلیٰ پنجاب محسن نقوی ہيں۔ لہٰذا پيپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ديوار سے لگانے کی باتوں میں صداقت نہيں لگتی۔
موجودہ صورتحال میں میرے خیال میں ايم کيو ايم پاکستان کا رول بڑھے گا کيونکہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو فعال کرنے ميں اہم کردار موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے ادا کيا ہے۔ سندھ نگراں حکومت بنوانے ميں ان کا کردار خاصہ اہم ہوگا اور گورنر سندھ نے جی ڈی اے کو ساتھ ملا کر، ايم کيو ايم کی خاتون رکن رعنا انصار کی بطور قائد حزبِ اختلاف تقرری اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس کے تحت شہری سندھ ميں متوقع عام انتخابات اگر ہوئے تو ايم کيو ايم کو بھی اقتدار ميں مناسب جگہ ملے گی۔
مگر پيپلز پارٹی، مسلم ليگ ن کی سوچ کا مرکز اور محور تختِ پنجاب ہی ہوگا۔ تحريک انصاف اور عمران خان کے دوبارہ فعال ہونے کا دارو مدار ان کے مقدمات اور سپريم کورٹ ميں نئے چيف جسٹس کی تعنياتی کے بعد کيا جا سکے گا۔ پی ٹی آئی اسمبلی ميں ضرور موجود ہوگی مگر سب کا کنٹرول محکمہ زراعت کے ماليوں کے پاس ہوگا۔
افسوس ناک بات يہ ہے کہ اب بھی ہر رنگ و نسل کے سياست دانوں اور سياسی جماعتوں کا رخ عسکری قيادت اور خفيہ اداروں کی جانب ہی ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)