اس کا شوہر قبروں کے کتبے بناتا ہے۔ وہ ایک جوان عورت ہے اور قبرستان میں ہی رہتی ہے۔ وہ زیادہ بات نہیں کرتا لیکن لوگ کہتے ہیں کہ جب سے اس نے اس عورت سے شادی کی ہے، اس کے کاروبار میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ جب بھی کسی کا انتقال ہو جائے، تو مرنے والے کے پسماندگان اس کے پاس جا کر کتبے کا آرڈر دیتے ہیں۔ اسے کتبوں کے آرڈر دینے کے لیے تو لوگ ریل گاڑی کے چند اسٹیشن دور تک کے علاقوں سے بھی اس کے پاس آتے ہیں۔ دکان اگر بند بھی ہو، تو گھر کے دروازے پر لگی گھنٹی بجا کر کتبے کا آرڈر دیا جا سکتا ہے۔ اس کا گھر بھی اسی عمارت میں ہے، جس میں اس کی دکان ہے۔
شام کے وقت یا پھر ہفتے اور اتوار کے دن بھی، اس کے پاس کسی بھی وقت جا کر کتبے کا آرڈر دیا جا سکتا ہے۔ وہ کسی کو بھی انکار نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ گھر پر ہی ہوتی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی دن اس کی سالگرہ ہو اور وہ اپنے شوہر سے درخواست کرے، جو وہ دراصل کبھی نہیں کرتی، کہ میرے لیے کچھ بھی نہ خریدنا، میری خواہش ہے کہ مجھے صرف تھیٹر کے ٹکٹ خرید دو۔ پھر ہو سکتا ہے کہ کسی شام وہ گھر پر نہ ہو۔
اس کا شوہر صبح پانچ بجے جاگ جاتا ہے۔ صبح کے وقت لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اکیلا چھوڑ دے۔ اب تو اسے اس بات کی عادت ہو گئی ہے۔ شوہر خود ہی جاگ جاتا ہے اور اپنے لیے چائے بھی بنا لیتا ہے۔ صبح کے وقت اس سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی، ورنہ وہ بہت جلد ناراض ہو جاتا ہے۔ اسی لیے دن کے آغاز پر وہ پرسکون ہوتی ہے اور اپنے شوہر کے ورکشاپ پہنچ جانے کا انتظار کرتی ہے۔ وہ ہر روز صبح ساڑھے پانچ بجے اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔
جب وہ گھر سے ورکشاپ چلا جاتا ہے، تو وہ بستر سے اٹھتی ہے اور منہ دھو کر بچوں کے لیے ناشتہ بناتی ہے۔ انہیں ساتھ لے جانے کے لیے سینڈوچ بنا کر دیتی ہے اور پھر انہیں اسکول بھیج دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ ناشتے کے برتن دھوتی ہے، بستروں کی چادریں ٹھیک کرتی ہے اور گھر کی جھاڑ پونچھ میں لگ جاتی ہے۔
ٹھیک آٹھ بجے وہ دکان کھولتی ہے۔ اتنی صبح تو وہاں کوئی نہیں آیا ہوتا۔ اس کی دکان کوئی اشیائے خوراک کی دکان تو ہے نہیں۔ ساڑھے آٹھ بجے وہ دوسری مرتبہ ناشتے کا اہتمام کرتی ہے۔ تب اس کا شوہر اور اس کا ملازم بھی آ جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو صبح بخیر بھی کہتے ہیں۔
اگر دوسرے ناشتے کے بعد تک بھی کوئی نیا گاہک نہ آئے تو وہ خود بھی ورکشاپ میں چلی جاتی ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا کوئی ایسا کام ہے، جو وہ کر سکتی ہے۔ شاید پتھر پر کندہ کی گئی کوئی تحریر، جسے وہ روشنائی سے سنہری رنگ دے سکتی ہو۔ ایسے کام تو وہ بہت اچھی طرح کر لیتی ہے۔ پتھروں پر مختلف تحریریں تو وہ خود بھی کندہ کر لیتی ہے۔ ایسے کام انسان سیکھ نہیں سکتا، بلکہ یہ تو اپنے اپنے ذوق کی بات ہوتی ہے۔
سخت کام اس کا شوہر کرتا ہے۔ وہ صرف ناشتے کے لیے مختصر سا وقفہ کرتا ہے۔ دوپہر کے وقت بھی کھانا تھوڑا سا ہی کھاتا ہے۔ اسکول سے واپسی کے بعد شام کے وقت بچے جب کھانے کی میز پر جمع ہوں، تو وہ بھی آدھ گھنٹے کے لیے کھانے کے لیے آ جاتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ ورکشاپ میں چلا جاتا ہے۔ تب تک اس کا ملازم گھر جا چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیوی سلانے کے لیے بچوں کو بستروں میں بھیج دیتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ بچوں کے ساتھ لوڈو بھی کھیلتی ہے، کیونکہ بچوں کو اپنے لیے ماں کا کچھ وقت بھی تو چاہیے ہوتا ہے۔ اسے بچوں کو اسکول سے ملنے والے ہوم ورک کی کوئی فکر نہیں کرنا پڑتی۔ اس نے صرف پہلے چھ ماہ کے دوران ہی اس بات پر پوری توجہ دی تھی، اس کے بعد اس حوالے سے بچے خود بخود ہی نظم و ضبط کے عادی ہو گئے تھے۔
ہفتے میں ایک بار وہ خریداری کے لیے شہر کے وسطی حصے میں جاتی ہے۔ ایک روز پہلے ہی فون کر کے وہ گوشت کا آرڈر دے دیتی ہے۔ اس کا شوہر اسے گاڑی میں اپنے ساتھ لے جاتا ہے، تاکہ خریدا گیا بھاری سامان اسے خود نہ اٹھانا پڑے اور وہ اسے ہمیشہ دیکھتا بھی رہے، پریشانی اور حاسدانہ نظروں سے۔ اس طرح اس کی دکان پر بہت جلد واپسی بھی ممکن ہو جاتی ہے۔
اس کے پاس کوئی بھی نہیں ہے، جو اس کی مدد کر سکے۔ ویسے اس کا جو کام ہے، وہ کوئی اور کر بھی نہیں سکتا۔ وہ کاروبار کا پورا حساب کتاب رکھنے کے علاوہ ٹیکس کے کاغذات بھی خود ہی جمع کرا دیتی ہے۔ وہ لوگوں سے بات چیت بھی کر لیتی ہے۔
سب سے کٹھن اور برا کام یہی ہے۔
لوگوں سے بات چیت کرنا، کوئی دوسرا یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ کتنا افسردہ کر دینے والا کام ہے۔ وہ دن بھر بڑی ہی اداس کر دینے والی باتیں سنتی ہے، مرنے والوں کے بارے میں۔۔ اس لیے کہ کسی اور وجہ سے تو کوئی کسی ایسی دکان میں نہیں آتا، جہاں قبروں کے کتبے تیار کیے جاتے ہوں۔ جو اداس نہیں ہوتے، وہ بھی کم از کم افسردہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کچھ تو بالکل کچھ نہیں کہتے۔ وہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں سب سے زیادہ پریشان ہوتی ہے۔
ایسے لوگ غم کو اپنے اندر سے باہر نکلنے دینے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ اسے اپنے اندر ہی دفن کر لیتے ہیں۔ بہت زیادہ گہرائی میں۔ وہ جانتی ہے کہ اسے ایسے پسماندگان سے کس طرح بات کرنا چاہیے کہ ان کے آنسو بہنا شروع ہو جائیں۔ یہ عمل کسی نجات کی طرح کا ہوتا ہے۔ اسے یہ خوف بھی رہتا ہے کہ ایسے کچھ نہ بولنے والے اداس لوگ اپنے گھروں کو لوٹ کر خود کشی بھی کر سکتے ہیں۔ اس نے ایسے کئی واقعات کے بارے میں اپنے شوہر کے ساتھیوں سے سن رکھا ہے۔
کچھ لوگ تو کسی قبر کے کتبے پر مرنے والے کے نام کے ساتھ اپنا نام اور تاریخ پیدائش بھی کندہ کروا لیتے ہیں۔ اس طرح انہیں علم رہتا ہے کہ وہ کہاں مدفون ہیں۔ یوں ان کو سکون ملتا ہے۔ کسی مرنے والے کی وراثت کے حق داروں کو تو کتبے پر صرف تاریخ وفات کندہ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ رقم ادا کر کے چل دیتے ہیں۔
اگر کوئی اپنے والدین کے لیے کتبے کا آرڈر دینے آئے، تو اسے یہ بات بہت افسردہ کر دینے والی نہیں لگتی۔ والدین اپنی زندگی جی چکے ہوتے ہیں، اگرچہ وہ دو جنگوں میں حصہ بھی لے چکے ہوتے ہیں۔ آخر میں تو وہ پینشن یافتہ بھی تھے اور گاہے بگاہے اتوار کے روز ان کے بچے اور ان کے بچوں کے بچے بھی انہیں ملنے آیا ہی کرتے تھے۔ ان کو تو اندازہ بھی تھا کہ انہیں مر جانا ہے۔ کبھی کبھی تو بچے بھی ایسی موت کا اندازہ لگا لیتے ہیں، اور اس کمرے کا بھی جو ایسی کسی موت کے بعد خالی ہونا ہوتا ہے۔
اسے یہ بات زیادہ اداس کر دینے والی لگتی ہے کہ کسی بزرگ شادی شدہ جوڑے میں سے کوئی ایک پہلے انتقال کر جائے۔ ایسی کسی موت کے بعد اکیلے رہ جانے والے بوڑھے مردوں کے مقابلے میں بوڑھی عورتیں صورت حال پر بہتر طور پر قابو پا لیتی ہیں۔ بوڑھے مردوں کو خریداری اور صفائی ستھرائی بھی کرنا پڑتی ہے۔ انہیں وہ ہمیشہ مشورہ دیتی ہے کہ وہ جلد از جلد کسی اولڈ ہوم میں منتقل ہو جائیں۔
اگر کسی نوجوان شادی شدہ جوڑے میں سے کوئی انتقال کر جائے، تو قدرتی طور پر یہ بہت افسردہ کر دینے والے بات ہوتی ہے۔ جو شریک حیات ابھی زندہ ہوتا ہے، وہ کتبے کا آرڈر تو دے دیتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد خود قبرستان جانا چھوڑ دیتا ہے۔ ابھی وہ سال پورا بھی نہیں ہوا ہوتا، جس میں مرنے والے کا انتقال ہوا ہوتا ہے، کہ اکثر ایسی کسی قبر کی دیکھ بھال کا کام کچھ رقم کے عوض مستقل طور پر قبرستان کے مالی کو سونپا جا چکا ہوتا ہے۔
اگر تو اس کے پاس صرف ایسے ہی لوگ آئیں، تو وہ ان سب سے بات چیت کر سکتی ہے۔ لیکن ہر بار، جب کوئی نوجوان عورت اس کی دکان میں آتی ہے، تو وہ ڈر جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی چھوٹی سی قبر کے کتبے کا آرڈر دینے آئی ہو۔ اسی لیے وہ فوراً ہی پوچھ لیتی ہے کہ مرنے والے یا مرنے والی کی عمر کیا تھی۔
اگر تو کتبے کا آرڈر ساٹھ سال سے زائد کی عمر کے کسی انسان کے لیے دیا جائے، تو وہ کچھ سکون کا سانس لیتی ہے۔ لیکن اکثر، اس کی توقعات کے عین برعکس، کسی نہ کسی بچے کی قبر کے کتبے کا آرڈر بھی دیا جاتا ہے۔ پھر اسے یہ سمجھ بالکل نہیں آتی کہ وہ کہے کیا۔ ہمدردی اور غم خواری کے لیے کہی جانے والی کوئی بھی بات اس کے ذہن میں نہیں آتی۔ تب وہ چاہتی ہے کہ دوڑ کر باہر جائے اور ورکشاپ سے اپنے شوہر کو بلا لائے، جو پہلے ہی اسے اس لیے برا بھلا کہتا ہے کہ وہ گاہکوں کے ساتھ بڑی دیر تک باتیں کرتی رہتی ہے۔ اس کو تو چاہیے کہ وہ کتبوں پر کندہ کی گئی تحریروں میں سنہری رنگ بھرتی رہا کرے۔ پھر اس کا شوہر خود ہی کتبے کے لیے کوئی پتھر تلاش کر لے گا اور یہ بھی پوچھ لے گا کہ کتبے پر کھدائی کر کے لکھنا کیا ہے۔
اسے تو لوگ ایک لفظ بھی ضرورت سے زیادہ نہیں کہتے۔ کہہ بھی دیں تو وہ توجہ سے سنتا ہی نہیں۔
Original Title: Trauriger Tag
Written by: Helga Schubert