گزرگاہیں کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہوں، چاہے اُن پر سے صدیوں کے شب و روز ایک ایک کرکے گزر جائیں، کتنے مٹی کے طوفان آئیں، بادل گرجیں اور آسمان سے بہتا پانی سب جل تھل کردے مگر گزرگاہوں پر سے گزرے قافلوں کے نشان کبھی فنا نہیں ہوتے۔ وہ سینہ بہ سینہ چلتی کتھاؤں میں تحریر کی صورت میں کسی پتھر پر تراشے منظرنامے میں، کسی بنے اسکیچ میں زندہ رہ جاتے ہیں۔
اگر آپ کو اُن گزرگاہوں کے سینے میں چھپی پُراسراریت سے لگاؤ ہے، آپ گزرے دنوں کے عاشقوں میں شامل ہیں تو گزرگاہ اور آپ کے بیچ میں وقت کبھی دراڑ نہیں بنتا۔
آپ اُس راستے سے گزرے ہوئے قافلوں کے متعلق بات کریں تو وہ آپ کو گزرے ہر دن کا ہر پل آپ کو سنانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ اور اُن کی سنائی ہوئی کتھاؤں میں وہ پل ایک بار پھر سے جی اُٹھتے ہیں۔ یہ وہی پل ہیں جن کو وقت نے بُن بُن کر ہمارا آج بنایا ہے۔ یہاں اکیلا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک پَل کا دوسرے پَل سے ربط ہے۔ ایک سے بات کرو تو سننے والی صدیاں ہوتی ہیں اور وقت جو آپ کے خون میں ڈی این اے کی ایک ترتیب سے گھومتا ہے۔ اُس کے زمانے کروڑوں برسوں پر کسی جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ تیس اکتیس برس پہلے کی بات ہے، جب پہلی بار میں نے کوٹری ریلوے جنکشن دیکھا تھا۔ یہ 9 دسمبر کی یخ ٹھنڈی صبح تھی جب سلمان رشید اور میں صبح کو 6 بجے حیدرآباد کے گاڑی کھاتے میں اپنے ایک دوست کے گھر سے ناشتہ کرکے رکشے میں نکلے تھے۔ چونکہ جوانی تھی تو ٹھنڈ کی پرواہ کم ہی ہوا کرتی تھی مگر پھر بھی ٹھنڈ غضب کی تھی۔ رکشے سے باہر جہاں نظر جاتی سردی کی ہلکی دھند چھائی ہوئی نظر آتی تھی۔ پھر جب تیز ہوا سے آنکھوں میں نمکین پانی کی تہہ چھا جاتی تو منظر اور بھی دھندلا ہوجاتا۔
ہم نے کوٹری پُل پار کیا اور کوٹری جنکشن پر پہنچے۔ صبح کا وقت تھا تو اتنی چہل پہل نہیں تھی مگر زندگی کی حرارت تھی جو آپ کو محسوس ہوتی ہے۔ چائے کے ایک دو اسٹال تھے۔ اب یاد نہیں پڑتا کہ اخباروں کا اسٹال تھا یا نہیں مگر سرخ قمیصیں پہنے اِکا دکا قُلی ضرور نظر آجاتے۔ برگد کے ایک بڑے پیڑ کے نیچے پڑی بینچ پر ہم نے ڈیرہ ڈالا اور ٹرین کے انتظار میں (اُن دنوں جو یہاں سے لاڑکانہ گاڑی جاتی تھی اُس کا نام قلندر یا لاڑکانہ ایکسپریس تھا) بیٹھ گئے۔ تقریباً 8 بجے کے قریب گاڑی آئی اور اس طرح ہمارا لاڑکانہ کے لیے سفر شروع ہوا۔
ٹھٹہ میں بنے قدیم گھر
تقریباً 31 برس کے بعد جب گزشتہ دسمبر کو میں دن کے 11 بجے کوٹری ریلوے جنکشن پر پہنچا تو دن جاڑے کے تھے مگر 31 برس کا بہاؤ اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کرلے گیا تھا۔ نہ وہاں وہ چہل پہل تھی نہ کوئی سرخ قمیص والا قلی مجھے نظر آیا، بس ایک ایسا ریلوے اسٹیشن رہ گیا تھا جس سے زندگی نے اپنی حرارت چھین لی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ وہ بینچ ڈھونڈ سکوں جس پر سلمان رشید اور میں نے بیٹھ کر ایک دو گھنٹے گزارے تھے اور گلہری کا برگد کے پیڑ پر تیزی سے چڑھنے اور اُترنے پر ہم بہت ہنسے تھے۔ اور جہاں جہاں نظر جاتی سارے منظر مجھے اچھے لگتے۔ مگر اب اس جنکشن کے کسی منظر نے مجھے اپنی طرف نہیں بُلایا۔ ایک بے رنگ، ٹھنڈی، ویران اور مایوسی کی کیفیت تھی جو کسی آکاس بیل کی طرح میرے ذہن میں اُگتی جاتی۔
میں تین دن اور دو راتیں کوٹری کے شہر اور اس کے اطراف میں گھومتا رہا۔ اُن گلیوں میں بھی گیا جہاں رہنے والے بٹوارے کے بعد اپنے خوبصورت مکان اور محلے چھوڑ کر یہاں سے چلے گئے تھے۔ میں نے وہاں پرانی ٹوٹتی اور خستہ ہال میونسپل کمیٹی کی عمارت بھی دیکھی۔ سندھو دریا کا خشک پاٹ بھی دیکھا جس کے کنارے پر شمال کی ٹھنڈی ہوا میں شِو کے مندر کی دھجا اُڑتی تھی۔
جس طرح کوئی بھی چیز اچانک نہیں بن جاتی اس طرح آج کل جن کو ہم شہر کہتے ہیں وہ بھی اچانک نہیں بنے ہیں۔ یہ شہر، شہر کی گلیاں، گلیوں میں بسے گھروں کے آنگن، اینٹ سے اینٹ بن کر جُڑے ہیں جس کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔
جس طرح ہر وجود کی اپنی ایک الگ طبیعت ہوتی ہے اس طرح شہروں اور بستیوں کا بھی اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ جس کے تعلق کی جڑیں گزرے زمانوں سے جُڑی ہوتی ہیں۔ ہم جب تک ان بستیوں کے گزرے وقت کے مزاج کو نہیں جانیں گے تب تک ہمیں اُن شہروں کا مزاج سمجھ نہیں آئے گا۔ میرے پاس کوٹری کی قدامت کے متعلق بہت تھوڑی سی معلومات ہے۔ مگر وہ معلومات اس بستی کی اہمیت اور قدامت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس بستی کا ذکر ہمیں کلہوڑا بادشاہوں کے زمانے (1700ء سے 1783ء) میں ملتا ہے۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ ’ملک پاھڑ خان اپنی حکومت کو وسیع کرنے کی چاہت میں لسبیلو سے مشرق میں سندھ کی طرف اپنی حکومت کو بڑھانا چاہتا تھا۔ اُس وقت سندھ میں میاں یار محمد کلہوڑو کی حکومت تھی۔ آخرکار اس وجہ سے دونوں میں جنگ ہوئی جس میں ملک پاھڑ خان نے شکست کھائی۔ اس شکست کے بعد سندھ کی طرف اپنی سرحدوں کو بڑھانے کا خیال ختم کرکے اُس نے اپنا سارا دھیان لسبیلو کی حکومت پر دیا اور 60 برس کی عمر میں اُس کا انتقال ہوا۔ پاھڑ خان برفتوں کا سردار تھا، اُس کو لسبیلو کی حکومت 1703ء میں ایک جنگ کے نتیجے میں ملی تھی جس کو ’گونگن جی جنگ‘ کے نام سے تاریخ کے صفحات میں یاد کیا جاتا ہے۔
’ملک پاھڑ خان اپنی حکومت لسبیلو میں اورنگزیب عالمگیر کے نام کا خطبہ پڑھواتا تھا۔ پاھڑ خان کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھنے کا حقدار اُس کا بیٹا عزت خان ٹھہرا، لیکن وہ ابھی صغیر تھا اس لیے حکومت کی باگ دوڑ اُس کی ماں ’مائی چاگلی‘ کے ہاتھ میں آئی۔ مائی چاگلی نے اپنی حکومت بڑی کامیابی سے چلائی خاص کر اُس کے زمانے میں کچھ نئی نہروں کی کھدائی اور کاریزوں کی وجہ سے پانی کی فراوانی ہوئی جس کی وجہ سے اُس کے زمانے میں زراعت میں ترقی ہوئی‘۔
مکلی قبرستان کے قدیم آثار
’1742ء میں، مائی چاگلی کے مخالفین جام عالی اور دیگر نے قلات کے حاکم میر محبت خان سے مل کر لسبیلو کی حکومت پر حملہ کیا اور مائی چاگلی کو شہر سے بے دخل کردیا گیا۔ مائی چاگلی اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے اصل ملک، سندھ کے کوہستان کی طرف واپس آئی اور باقی دن گوشہ نشینی میں گزارے اور 1801ء میں یہ جہان چھوڑا اور اُس کو کوٹری کے قریب قدیمی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس قبرستان میں اُس کا بیٹا عزت خان اور دوسرے ملک بھی مدفون ہیں‘۔
یہ برفتوں کا قدیمی قبرستان ہے جہاں اب بھی قرب و جوار میں جو برفت بستے ہیں، زندگی کی ڈور ٹوٹنے کے بعد اُن کی آخری آرام گاہ یہ گورستان ہی بنتا ہے۔ میں وہاں پر صبح کے ابتدائی پہروں میں گیا، خاموشی، قدامت اور خستگی کی ایک چادر تھی جو اس گورستان پر راج کرتی تھی۔ پیلو کے کچھ درخت تھے جن کی ٹہنیوں سے شوخی یہاں کے نمک نے چھین لی تھی۔
کلہوڑوں کے بعد سندھ پر تالپوروں کی حکومت آئی تو ساتھ ہی برطانیہ کے بیوپاری جو شروع میں تو بیوپار کے لیے ہندوستان آئے مگر پھر حاکم بنے اور اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی جو کئی برسوں سے سندھ پر حکومت کرنے کے لیے تگ و دو کررہی تھی وہ آخرکار 1843ء میں کامیاب ہوئی۔ کچھ مصنف تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ کراچی پر کمپنی سرکار کی حکومت نے اس سے 6 برس پہلے 1839ء قبضہ کرلیا تھا۔
2 فروری 1839ء کو کمپنی سرکار کا جہاز ’ویلسلے‘ منوڑا کے قریب آکر لنگر انداز ہوا تھا اور وہاں سے ہی اُس نے 3 فروری کو شہر پر پہلا گولا فائر کیا تھا۔ ویلسلے کے اس گولے نے منوڑا کے قلعے کی توپوں کو جلد خاموش کردیا تھا۔ برطانیہ کے ریئر ایڈمرل میٹلینڈ اور برگیڈیئر ویلینٹ نے کراچی پر قبضہ کرلیا اور جلد ہی یہاں فوجی چھاؤنی بنادی گئی تھی۔ پھر 1843ء آیا، مغل سلطنت کے خاندانوں کے ساتھ جو 1857ء میں واقعات پیش آنے والے تھے، سندھ کے تالپور ان واقعات سے 1843ء میں گزر چکے تھے۔
احسان سلیم لکھتے ہیں کہ ’مگر لگتا ایسا ہے کہ کسی نے ان واقعات سے سیکھنے کی کوشش نہیں کی یا شاید ایسا ہے کہ ان میں حقائق سے سیکھنے کی اہلیت ہی ختم ہوچکی تھی۔ میر صاحبان کے پاس تو ماتم کرنے کے لیے بھی وقت نہیں بچا تھا، وہ تو زندہ لاش تھے اور ان پر وقت نے شکست کی سیاہ چادر تان دی تھی، سر میں خاک تھی اور ان کے محلوں اور درباروں میں خاموشی اور ماتم کی سیاہی پھیل گئی تھی‘۔ وقت کی خاموش آنکھوں نے دیکھا کہ سندھ کے حاکم ہندوستان کے مختلف شہروں میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اور سندھ پر کمپنی سرکار کا جھنڈہ لہراتا تھا۔
کمپنی کی طرف سے رچرڈ برٹن پہلی بار سندھ میں 18 ریجمنٹ کا کیپٹن بن کر آیا تھا۔ وہ طبیعتاً ایک لکھاری، گھومنے پھرنے، حالات کا تجزیہ کرنے، دوسری زبانوں اور ثقافتوں کو جاننے پہچاننے میں زیادہ دلچسپی رکھنے والا انسان تھا۔ اُس نے فقط سندھ پر 4 شاندار کتابیں تحریر کیں جو تقریباً ایک ہزار 883 صفحات پر مبنی ہیں۔ برٹن نے سندھ کی تاریخ خاص کر تالپوروں کے آخری ایام سے لےکر 1877ء تک سندھ پر اپنی آخری کتاب ’ری ویزٹ آف سندھ‘ تحریر کی۔ اس طرح سے ہمیں تالپور حکومت کے خاتمے سے لےکر 1877ء تک یعنی 32 برس تک سندھ کے جو حالات رہے، اُن سے متعلق رچرڈ برٹن انتہائی اہم اور شاندار معلومات ملتی ہیں۔
یہی وہ برس تھے جب کمپنی سرکار نے یہاں سندھ میں آکر کچھ انتہائی بنیادی کام کیے۔ وہ یہاں بیوپار اور حکومت کرنے کے لیے آئے تھے۔ اُن کے اچھے مستقبل اور بہتر بیوپار کے لیے ضروری بھی تھا کہ وہ بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جائے جیسے آبپاشی کا نظام، پانی اور خشکی کے راستے، مواصلات، بیوپاریوں کے لیے تحفظ اور یہ سب ان ابتدائی برسوں میں ہوا۔
مجھے نہیں پتا کہ یہ اتفاق ہے یا کچھ اور، لیکن رچرڈ برٹن صاحب نے دو ایسی کتابیں یا سفرنامے لکھے جو 1844ء اور 1877ء یعنی 32 برس کی ایک گزرگاہ بناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم کسی ایک گھنٹے کے منظر کو انتہائی فاسٹ فارورڈ چلا کر ایک منٹ میں دیکھ لیتے ہیں جیسے ایک بیج کو زمین میں لگتے، اُگتے اور درخت بنتے ہم دیکھ لیتے ہیں۔
برٹن یقیناً ایک شاندار انسان تھا۔ اُس نے سندھ کا جو پہلا سفر کیا جو کراچی سے شکارپور تک کا تھا اُس نے اس کتاب کا نام Scinde or the Unhappy Valley رکھا۔
پھر اُس نے بالکل اسی راستے سے 1877ء میں دوسرا سفر کیا جس کا اُس نے نام ’سندھ ری ویزیٹڈ رکھا‘۔ پہلے سفرنامے میں آپ کو وہ سندھ نظر آئے گا جو تالپور حکومت کے زمانے کا سندھ تھا اور دوسرے سفرنامے میں آپ وہ سندھ دیکھ سکیں گے جو 32 برس میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے تعمیر کیا تھا۔ ہمارا موضوع کوٹری ہے اور کوٹری اس لیے ہے کیونکہ برطانوی راج میں انڈس فلوٹیلا اور سندھ ریلوے کا اہم مرکز کوٹری تھا۔ شاید کوٹری چھوٹی بندرگاہ کی حیثیت سے تب سے آباد تھا جب دریائے سندھ نے 1756ء میں اپنا پرانا راستہ چھوڑ کر نیا راستہ اختیار کیا۔ دریا کے کنارے پر، کوٹری کا چھوٹا سا گھاٹ تھا جو آگے چل کر بندر کی صورت اختیار کرگیا جبکہ بہاؤ کے سامنے یا دوسری طرف گدومل کا بندر تھا۔ آج بھی آپ کو بٹوارے سے پہلے کی کچھ ایسی کتابیں دیکھنے کو مل جائیں گی جن پر ’کوٹری بندر‘ چھپا ہوگا۔
کوٹری کی گلیوں، بازاروں اور دریائے سندھ سے ملاقات اور اُن سے طویل اور تفصیلی گفتگو کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے۔ مگر ہمارے ساتھی رچرڈ برٹن جو ’دی سیمیرامس‘ نامی اسٹیمر میں بمبئی سے اکتوبر 1844ء کو نکلے تھے۔ اس جہاز میں برٹش سپاہیوں کے ساتھ 600 کے قریب سیاہ رنگ کے افریقی غلام بھی شامل تھے کیونکہ ان دنوں میں ان کا بیوپار ہوتا تھا۔ ہمارے مہمان برٹن پانچویں دن منوڑا اور بابا بھٹ سے ہوتا ہوا کیماڑی پہنچا اور کراچی میں 15 دن تک رہا۔ وہ ان دو ہفتوں میں بہت گھوما۔ وہ اُن دنوں جو بندرگاہ پر تعمیراتی کام ہورہا تھا اُس کے متعلق بتاتا ہے۔ شہر کی آبادی میں مٹی، گارے اور لکڑی سے بنے گھروں کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان گھروں میں کھڑکیوں کے بجائے روشندان ہوتے ہیں جن سے ہوا اور روشنی گھروں میں پہنچتی ہے۔
برٹن کو ڈھول کی تھاپ شاید کچھ زیادہ سُننے کو ملی چونکہ یہ اکتوبر کا مہینہ تھا یعنی شادیوں کا سیزن شروع ہوچکا تھا، اُن دنوں میں یقیناً برٹن کو پتا نہیں تھا مگر آگے چل کر وہ یہاں کے متعلق بہت جان سکا تھا۔ وہ عورتوں کے گیت گانے کا ذکر کرتا ہے، جو مقامی سندھی عورتیں، شادیوں اور خوشیوں کے مواقع پر ساتھ مل کر ایک سُر میں گاتی ہیں۔ وہ یہاں کی لوگوں کے زور سے بولنے کی بات کرتا ہے ساتھ میں سمندری بگلوں کے بے تحاشا ہونے، آک (Calotropis) کی جھاڑیوں کی بہتات بھی اُسے نظر آتی ہے۔ ساتھ میں ملیر نئیں (Malir Path of rain) کے کنارے کنوؤں کی بھی باتیں کرتا ہے جہاں صبح اور شام کے وقت عورتیں پانی بھرنے آتی ہیں اور ایک دوسرے سے خُوب باتیں کرتی ہیں اور اپنے گھروں کے حال احوال اور دکھ سکھ آپس میں بانٹتی ہیں۔ ملیر کے باغات کی ہریالی نے برنس صاحب کو بہت متاثر کیا تھا۔
ساتھ میں وہ ’رام باغ‘ (جو اب آرام باغ ہے) کا بھی ذکر کرتا ہے جس کے متعلق روایت بیان کرتے ہوئے وہ تحریر کرتا ہے کہ ’گزرے زمانوں میں شری رام چندر سفر پر جاتے ہوئے کچھ وقت یہاں رُکا تھا اس لیے اس کا نام رام باغ پڑ گیا‘۔ وہ کراچی میں قائم چھاؤنی کے متعلق بتاتا ہے کہ یہاں 5 ہزار فوجی رہتے ہیں۔ شہر کے اطراف میں قائم باغات شاندار ہیں جہاں گوروں کی سرکار کے افسروں کی بیویاں شام کو اپنے بچوں کے ساتھ گھومنے آتی ہیں جن کے لیے ایک بینڈ کا انتظام بھی ہے۔ اس کی زبردست آواز کانوں تک پہنچتی ہے۔ ان باغات میں ہری سبزیاں بھی اُگائی جاتی ہیں جیسے دھنیا، پیاز، گوبھی وغیرہ’۔
رچرڈ برٹن جب منگھو پیر پہنچتا ہے تو وہاں کے لینڈاسکیپ سے بڑا متاثر ہوتا ہے اُس کی تحریر سے لگتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔ وہ منگھو پیر سے واپسی پر ایک کاریز کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے کہ یہ کاریز زراعت کے لیے ’پب پہاڑ‘ (یہ کراچی ہاکس بے سے آگے بلوچستان کی طرف ہالار پہاڑی سلسلے کی ایک پہاڑی ہے) سے یہاں تک لائی گئی ہے، پہاڑوں میں ایسی کاریزوں کی کھدائی قلاتی لوگ کرتے ہیں۔
اس کے بعد وہ کلفٹن کو ایک شاندار پکنک پوائنٹ کہتا ہے جہاں لوگ نہانے اور گھوڑوں کی ریس لگانے آتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ سمندر کے کنارے لگی ہوئی اُن تحفظی لکڑیوں کا بھی ذکر کرتا ہے جو کنارے پر نہانے والوں کو مگرمچھوں کے حملے سے بچانے کے لیے گاڑ دی گئی تھیں۔ برنس اپنی تحریر میں ساتھ ساتھ کراچی کی ترقی و تعمیر کے لیے صلاح مشورے بھی دیتا جاتا ہے۔
رچرڈ فرانسس برٹن تقریباً اکتوبر کے بالکل آخری دنوں میں کراچی سے کوٹری کے لیے ایک قافلے کی صورت میں نکلا تھا۔ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں اُس قافلے میں شامل کچھ بے جان اور کچھ جاندار وجودوں کا آپ کو بتادوں، یہ سب بتانے سے یہ ہوگا کہ برٹن کے قافلے کا تصور ہمارے ذہن میں ہوگا تو ہم محسوس کرسکیں گے کہ جہاں جہاں اُنہوں نے رہنے کے لیے کیمپ لگایا ہوگا یا سفر کیا ہوگا تو کیسا لگتا ہوگا۔
اس قافلے میں سواری کے لیے ایک اونٹنی اور سامان اُٹھانے کے لیے 4 اونٹ، ایک اچھی نسل کا گھوڑا، بنگال میں بنا ہوا ٹینٹ (وہ بمبئی میں بنے ہوئے ٹینٹ کو بےکار اور چھوٹا کہہ کر رد کرتا ہے)، باڈی گارڈ، ایک خاص ملازم، ایک باورچی، گھوڑوں کے لیے سائس اور اونٹوں کے لیے دو جت، اور دو تین مزید نوکر جن میں دو کم ذاتوں والے اچھوت بھی شامل تھے اس قافلے کا حصہ تھے۔ ساتھ ہی میز، کرسی، چارپائی، کپڑوں کی صندوقیں، بچھانے کے لیے غالیچہ، موسم کے حساب سے بستر، کھانے کے لیے اعلیٰ کوالٹی کے برتن، چمچے، چھریاں، کانٹے، خوراک اور کافی بنانے کے لیے برتن بھی تھے جبکہ مزید سامان جیسے کاغذ، قلم اور دوات بھی اس قافلے میں شامل ہیں۔
گرمیوں کے گرم اور طویل دن، ٹھنڈے اور چھوٹے ہونے لگے تھے۔ جاڑے نے دھوپ سے تمازت ایسے چھین لی تھی جیسے جوانی سے بچپن چِھن جاتا ہے۔ شمال کی ہواؤں نے جنوبی اور مغربی ہواؤں کے آگے بند باندھ دیا تھا۔ اب ان منظرناموں پر جاڑوں کی ٹھنڈی ہواؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ایسے موسم میں برنس کا یہ قافلہ کراچی سے کوٹری کے لیے نکل پڑا۔ لانڈھی، وٹیجی، بنبھور، گھارو اور گجو سے ہوتا ہوا یہ قافلہ ٹھٹہ پہنچا جس کو برنس اس کے قدیم نام ’ٹھٹو ننگر‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ برٹن یہاں 3 دن رہا۔ وہ تحریر کرتا ہے کہ ’ہم نے مکلی کے قریب جو ٹھٹہ سے ایک میل مغرب میں واقع ہے، وہاں ایک چھوٹے بہاؤ کے قریب اپنا ٹھکانہ بنایا، کراچی سے ہم 70 میل جنوب مشرق میں ہیں‘
برٹن نے اپنی کیمپ کے جنوب میں تغرل آباد (کلان کوٹ) دیکھا اور مکلی کا قدیم قبرستان بھی دیکھا۔ پھر وہ ٹھٹہ شہر کی طرف گیا۔ جس کے متعلق وہ لکھتا ہے کہ ’جنوبی سندھ کا یہ قدیم دارالحکومت اپنے شاندار دن گزار چکا ہے، ایک زمانے میں اس کی آبادی 2 لاکھ 80 ہزار تھی جو اب کم ہوکر 5 ہزار تک پہنچی چکی ہے۔ شاہ جہانی مسجد کے اطراف میں ویران بستی ہے۔ محلے اور گلیاں ویران پڑی ہیں۔ بنے ہوئے مکان خستہ ہوکر گر رہے ہیں جس کی وجہ سے راستے بند ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ شاندار شہر خاموش، ویران، خستہ اور گرتے گھروں کا ایک قبرستان سا بن گیا ہے۔ یہاں کے لوگ اب زیادہ تر ٹھٹہ ننگر کو چھوڑ کر حیدرآباد میں آباد ہو رہے ہیں‘۔
اس کے بعد برٹن، ایسٹ انڈیا کمپنی کی بیوپاری کوٹھی کی عمارت میں گیا۔ چونکہ یہ بھی ٹھٹہ شہر میں تھی تو ویرانی اور خستگی سے کیسے بچتی۔ اس نے وہاں جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور جو وہ بتاتا ہے، آپ بھی سُن لیں کہ ’اس بیوپاری کوٹھی کی عمارت کا آنگن وسیع ہے، دوسری منزل پر رہنے کے لیے کچھ کمرے ہیں۔ 1758ء میں غلام شاہ کلہوڑو سندھ کا حاکم تھا تو اُس نے یہاں بیوپاری کوٹھی کی تعمیر کی اجازت دی تھی مگر سرفراز خان نے 1775ء میں ان بیوپاری تعلقات کو ختم کردیا تھا۔ یہ عمارت بھی اب اپنے آخری دن دیکھ رہی ہے، فرش ٹوٹنے لگا ہے۔ چھتیں کمزور ہوگئی ہیں بلکہ کہیں کہیں سے تو اُن میں شگاف پڑ گئے ہیں۔ مگر اب بھی ہم اس کی چھت سے ٹھٹہ کی اس مختصر آبادی اور ویرانی کا نظارہ ضرور کرسکتے ہیں‘۔
ہم مسٹر برٹن کو اس بیوپاری کوٹھی کی چھت پر چھوڑتے ہیں تاکہ وہ زوال کی دھند میں لپٹے ہوئے اس شہر کے اُداسیوں سے بھرے نظارے کرسکے۔ سُورج کے غروب ہونے میں ابھی ایک دو گھنٹے ضرور ہیں مگر جاڑے کی شام میں شمال کی ہوائیں ٹھنڈی ہونے لگتی ہیں۔ اور شہر کی گلیوں اور محلوں میں زوال کی ویرانی بڑھنے لگی ہے۔ ہم جلدی واپس آتے ہیں اور سفر کی اگلی منزل کے لیے اس ذہین انسان کے ساتھ ساتھ چل پڑیں گے۔
حوالہ جات:
’بیلاین جا بول‘۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ۔ 2014ء۔ سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ، کراچی
Scinde or The Unhappy Valley. Richard F. Burton, Vol: 1. London 1851
بشکریہ: ڈان نیوز و مصنف
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)