’ہندو مسلم بیٹھ کے کھائیں تھالی میں، ایسا ہندوستان بنا دے یا اللہ۔۔۔‘

ویب ڈیسک

انڈیا کے درالحکومت نئی دہلی کے نواح میں واقع علاقے گروگرام (گڑگاؤں) میں مسجد پر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے حملے میں شہید ہونے والے نائب امام حافظ محمد سعد ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے

منگل کو گروگرام کے سیکٹر 57 میں فسادات کے دوران مسلح افراد نے انجمن جامع مسجد کو آگ لگا دی تھی اور اس حملے میں بائیس سالہ نائب امام مولانا سعد کو بھی شہید کر دیا تھا

بائیس سالہ حافظ سعد صرف سات ماہ قبل گروگرام، جسے گڑگاؤں بھی کہا جاتا ہے، آئے تھے۔ ملینیم سٹی ہندوستان کا ایک ٹیک ہب ہونے اور لاکھوں ہندوستانیوں کو ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں مدد کرنے کے لیے جانا جاتا ہے

شہید ہونے والے مولانا سعد کی ایک وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے فروغ کے پیغام پر مبنی کلام پڑھ رہے ہیں

اس وڈیو میں مسجد کے نوجوان امام کو ترنم کے ساتھ ایک دعائيہ نظم پڑھتے سنا جا سکتا ہے، جس کے بول ہیں

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیو میں سعد انور ایک دعائیہ نظم کو ترنم سے پڑھ رہے ہیں۔ اس نظم کے بول کچھ یوں ہیں:

’ظالم ہوں انسان بنا دے یا اللہ،
گھر کی مرے دیوار ہٹا دے یا اللہ!

ہندو مسلم بیٹھ کے کھائیں تھالی میں،
ایسا ہندوستان بنا دے یا اللہ!‘

ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز پیر کو ہریانہ کے ضلع نوح میں ہندو انتہا پسند تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے جلوس کے دوران ہوا تھا، جس کے بعد تناؤ کی یہ صورت حال دارالحکومت نئی دہلی سے تیس کلومیٹر دور گروگرام تک پھیل گئی، جس کے بعد کئی جگہوں سے تشدد کی خبریں آئیں، جن میں درجنوں افراد زخمی ہوئے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے

بھارت کے علاقے گُڑ گاؤں میں درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیاں واقع ہیں ان میں گوگل، ڈیلؤئٹ اور امریکن ایکسپریس بھی شامل ہیں۔ اسی مقام سے قریب 10 کلومیٹر کے فاصلے پر حالیہ جھگڑے ہوئے۔ یہ امر ہنوز واضح نہیں کہ آیا بُدھ کو مذکورہ کمپنیوں میں کام کرنے والا عملہ کام پر آیا، یا ان کے دفاتر کھلے تھے یا نہیں۔ جبکہ اس علاقے کے بیشتر اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم بُدھ سے کئی تعلیمی اداروں نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر تمام کلاسیں آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا

ہندوتوا انتہا پسندوں کے ڈھائی تین سو کے ایک بپھرے ہجوم نے نہ صرف مسجد کے اندر گولیاں چلائیں بلکہ بعد میں اسے بھی آگ لگا دی

انجم مسجد کے امام شاہنواز نے بتایا کہ مسجد پچیس سال پرانی تھی اور ہم نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں ایک کیس جیت لیا تھا۔ ہمارے پاس اگست سے اسے مزید تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا

پولیس کا کہنا ہے کہ مسجد کو نذرِآتش کرنے اور مسجد کے نائب امام کو قتل کرنے کے الزام میں کچھ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے

مولانا سعد کا تعلق انڈین ریاست بہار سے تھا اور انہوں نے چترپور، مہرولی اور دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کے بھائی شاداب انور کے مطابق وہ گذشتہ چھ ماہ سے مسجد میں نائب امیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے

”اس کی زندگی ابھی شروع ہوئی تھی، وہ ابھی ایک بچہ تھا۔۔“ حافظ سعد کے بڑے بھائی شاداب انور، جو اپنے چھوٹے بھائی کی لاش کے ساتھ سفر کر رہے تھے، ٹوٹ پڑے

شاداب کا مزید کہنا تھا ”سعد مسجد میں ہی رہا کرتے تھے اور جس دن ان کا قتل ہوا اس سے اگلے دن انہیں اپنے آبائی گاؤں اپنے اہل خانہ کے پاس جانا تھا“

ان کے بھائی کا کہنا تھا ”مولانا سعد نے مجھے بتایا کہ وہ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد ٹرین سے اپنے گاؤں آجائیں گے۔“

"سعد ایک مثبت سوچ رکھنے والے تھے، وہ انسانیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر یقین رکھتے تھے اور نعتیں پڑھنا پسند کرتے تھے“ شاداب نے کہا

کیا اس واقعے کے بعد ان کا کسی سیاستدان یا اعلیٰ حکام سے رابطہ ہوا؟ اس سوال پر انہوں نے غصے سے کہا ”نہیں، ہمیں صرف صحافیوں کے فون آ رہے ہیں۔ کسی اور نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ پولس کا کہنا صرف اتنا ہے کہ اس نے اس سلسلے میں دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن وہاں 250-300 فسادیوں کا ہجوم تھا، یہ کافی نہیں ہے‘‘

اہم بات یہ ہے کہ دو بڑے واقعات کے بعد بھی، ایک جے پور-ممبئی ٹرین پر حملہ، جس میں چار بے گناہ مسلمانوں کو ایک دہشت گرد چیتن سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا، دوسرا ایک مسجد پر حملہ جس کے نتیجے میں حافظ سعد کی ہلاکت ہوئی، اس کے علاوہ کوئی بڑا سیاستدان نہیں تھا۔ سی پی آئی ایم کے سیتارام یچوری اور اے آئی ایم آئی ایم کے اسدالدین اویسی نے دہشت گردی کے اس بھیانک عمل کی مذمت کی۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے نفرت اور تفرقہ انگیز ماحول کے بارے میں ٹویٹ کیا لیکن دونوں واقعات کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا

ہندو مسلم اتحاد کے پیغام پر مبنی نوجوان امام کی یہ وڈیو ابھیشیک آنند نامی صحافی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر شیئر کی ہے، جسے اب تک لاکھوں افراد نے دیکھا ہے

اس کے ساتھ انھوں نے لکھا ’یہ امام سعد ہیں۔ ایسا گیت گاتے تھے۔ کل رات گروگرام میں انہیں مار دیا گیا۔‘

ابھیشیک کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے ایک صارف نے لکھا ”آج ملک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اگر کوئی ہندو کسی مسلمان بھائی کے اچھے کام کی تعریف کردے تو لوگ اسے ملا اور مغل کی اولاد کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان بھائی کسی ہندو بھائی کے اچھے کام کی تعریف کردے تو اس کے خلاف فتویٰ جاری ہو جاتا ہے اور اسے اسلام سے خارج کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے“

انھوں نے مزید لکھا ”سب سے درخواست ہے کہ بھائی چارہ قائم رکھیں، ملک بڑا ہوتا ہے، اگر ملک نہ رہے تو دھرم کا کیا کریں گے“

ذاکر علی تیاگی نامی صارف نے اسی وڈیو کو شیئر کیا اور لکھا ”یہ اس مسجد کے امام ہیں جو ملک میں امن اور چین کے لیے اللہ سے دعا کر رہے تھے“

امریش مشرا نامی ایک صارف نے وڈیو کے ساتھ لکھا کہ اب یہ واضح ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں ہندو مسلم اتحاد اور ملک کو توڑ رہی ہیں

کانگریس کی رہنما الکا لامبا نے ابھیشیک کی وڈیو کے جواب میں کہا ”ہندو مسلم اتحاد کی بات کرنے والے خدا کے بندے کو کٹر ہندوتوا والوں نے مار ڈالا۔ انڈیا جوڑو، نفرت چھوڑو۔“

بھارت کے اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلم برادری کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن 2014 ء میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ عرصہ ان کی تعداد میں کمی آئی، تاہم بعد ازاں ہندوتوا نظریات کے فروغ میں مودی سرکار کے کردار سے مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف تشدد میں واضح اضافہ ہوا

مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ تشدد کے ان واقعات کو شمال مشرقی دہلی میں کئی دہائیوں میں ہونے والے بدترین فرقہ وارانہ جھگڑے کہا جاتا ہے۔ ان فسادات کا محرک مودی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس متعارف کرایا جانے والا شہریت سے متعلق قانون بنا جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد مسلمانوں کو مزید کمزور اور پسماندہ بنانا ہے۔ مسلمانوں کے استحصال اور ان کے خلاف تشدد کو مودی سرکار کی مکمل آشیرباد حاصل ہے

سوشل میڈیا پر چند روز قبل پیش آنے والے ایک ایسے ہی واقعے کی وڈیو وائرل ہے، جس میں ریلوے پروٹیکشن فورس (آر پی ایف) کا ایک اہل کار چلتی ٹرین میں دیگر مسافروں کو متنبہ کر رہا ہے جب کہ ٹرین کے فرش پر خون آلود لاش پڑی ہے۔ اس کو یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ ’یہ لوگ پاکستان سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ اگر تم کو بھارت میں رہنا اور ووٹ دینا ہے تو مودی اور یوگی کو دینا ہوگا‘

ریلوے فورس کے اہل کار کا نام چیتن سنگھ بتایا جا رہا ہے، جس نے اپنے سرکاری اسلحے سے اپنے سینئر اسسٹنٹ سب انسپکٹر ٹیکا رام مینا اور تین مسافروں کو گولی مار کر ہلاک کیا

ہلاک ہونے والے تینوں مسافر مسلمان تھے۔ ان کے نام عبد القادر بھائی محمد حسین بھانپور والا، اختر عباس علی اور صدر محمد حسین ہیں

میڈیا رپورٹس کے مطابق فائرنگ سے قبل چیتن سنگھ کی ٹیکا رام مینا سے کچھ تلخ کلامی ہوئی تھی۔ وہ انہیں گولی مارنے کے بعد کئی ڈبوں میں گیا اور تین مسافروں کو مبینہ طور پر ان کی مذہبی شناخت یعنی مسلمان ہونے کی بنا پر گولی مار دی

کانگریس پارٹی کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے اسے وحشیانہ قتل بتایا ہے اور ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ نفرت کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ اسے واپس بوتل میں بند کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنا ہوگی۔

کانگریس کی سوشل میڈیا سربراہ سپریہ شرینیت اور دیگر رہنماؤں نے قتل کے اس واقعے کے لیے ملک کی موجودہ سیاست کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق موجودہ سیاست نے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا ہے

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اسے ‘دہشت گرد’ کارروائی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق مسلم مخالف ہیٹ اسپیچ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس پر قدغن نہ لگانے کی وجہ سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں

مبصرین بھی اس قتل کے لیے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کو ذمے دار قرار دیتے ہیں

سینئر تجزیہ کار رویندر کمار کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی جانب سے عوام کی توجہ منی پور نسلی فساد اور ملک کو درپیش مسائل سے ہٹانا ہے اور دوسرے کام کا سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز میں پائی جانے والی مایوسی ہے

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مذہب کے نام پر جو نفرت انگیز سیاست کی جا رہی ہے، اس نے عوام کے بڑے طبقے کے ذہنوں کو زہر آلود کر دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سیکیورٹی اہل کار جرم کرنے کے وقت پاکستان کا نام نہ لیتا اور نہ ہی یہ کہتا کہ مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہے

ایک اور تجزیہ کار اشوک وانکھیڑے کا کہنا ہے کہ یہ وحشیانہ قتل کا صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ بتاتا ہے کہ ملک نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا صرف الیکشن جیتنے اور اقتدار میں رہنے کی خاطر ملک کو تباہی کی طرف لے جانا درست ہے

رویندر کمار کے خیال میں بی جے پی اور آر ایس ایس میں 2024 کے عام انتخابات میں متوقع شکست کا خوف پایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے مسلم مخالف واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں

وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کے اندرونی سروے بتاتے ہیں کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے جیتنے کے امکانات کم ہیں۔ اس وجہ سے بقول ان کے بی جے پی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے

تجزیہ کار اشوک وانکھیڑے بھی مسلم مخالف تشدد میں اضافے کی وجہ ملک کا موجودہ ماحول قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ہندو مسلم منافرت میں اضافہ ہی بی جے پی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس لیے آگے چل کر اگر ایسے اور واقعات ہوتے ہیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے

یاد رہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگر وزرا اور بی جے پی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ 2024 میں بھی مودی حکومت واپس آئے گی اور اسے پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل ہوں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close