اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی حکومت کی نااہلی اور ریاستی ناکامی ہے، م تمام سیکورٹی ایجنسیاں شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہو گئی ہیں
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر اعلیٰ افسران کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے لاپتہ شہری عمر عبدﷲ کی بازیابی کے لئے آخری مہلت دے دی۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر مغوی کو پیش نہ کیا گیا تو متعلقہ افسران جیل جانے کے لیے تیار رہیں
عدالت نے اغوا کے وقت کے سیکرٹری داخلہ، دفاع اور آئی جی کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے
دوران سماعت ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملک نعیم اقبال اور اس وقت کے تفتیشی افسر گلفام وڑائچ، اسٹیٹ کونسل ایڈووکیٹ حسنین حیدر تھیہم عدالت میں پیش ہوئے
جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے صرف وردیاں پہنی ہیں، کام کسی نے نہیں کرنا، ریاست غیر قانونی کاموں سے ملک کی خدمت نہ کرے، مقدمہ چھ سال سے درج ہے ، اب کیا اسٹیٹس ہے؟
تفتیشی افسر نے عدالت کو اپنے جواب میں بتایا کہ تفتیش چل رہی ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ تین تین سال درخواست زیر سماعت رہی، 26، 26 بار آپ کو مواقع دیے ہیں، جب آپ نے کام نہیں کرنا تو عدالت نے کام کرنا ہے
عدالت نے پوچھا کہ سیکرٹری داخلہ کیوں نہیں آئے؟ جوائنٹ سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو جواب دیا کہ سیکرٹری داخلہ بیمار ہیں۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ سب نے مذاق بنایا ہوا ہے، سیکرٹری داخلہ سمیت سب کے خلاف کارروائی کروں گا، سیکرٹری داخلہ کو اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں، چھ چھ سالوں سے آپ نے لوگوں کو اٹھایا ہوا ہے، ریاست نے ہی جواب دینا ہے دوسرے ملک سے کوئی نہیں آئے گا جواب دینے، لاپتہ افراد کا مسئلہ حکومت کی نا اہلی اور ریاست کی ناکامی ہے
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس صرف چھوٹے چھوٹے جرائم کو روک سکتی ہے، لوگوں کو بازیاب کرانا ان کے بس کی بات نہیں
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی، تمام سیکورٹی ایجنسیاں شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہو گئیں ہیں، اگلی سماعت پر اگر فریقین پیش نہ ہوسکے تو وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا، کسی نے ملک سے بھاگ جانا ہے تو بھاگ جائے، عدالتی احکامات پر عمل درآمد کروا کر ہی رہوں گا، ان سب کے خلاف کارروائی کے بعد موجودہ آئی جی اور موجودہ سیکرٹری داخلہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جتنی آپ لوگوں نے ڈیوٹی کی بہت ہے، آپ سب کو بڑوں سمیت گھر بھیج دوں گا
بعد ازاں عدالت کی طرف سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 جنوری تک ملتوی کردی گئی.