ٹائیلٹ (جنوبی افریقی ادب سے منتخب افسانہ)

گیسینا مہلوپ (مترجم: حمید رازی)

کسی وقت میں سوچتی مجھے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اچھی لڑکی بننا چاہیے جو اپنے بڑوں کی ہر بات دھیان سے سنتی ہے۔ میری ماں کی خواہش تھی کہ میں نرس یا اُستانی بنوں۔ لوگ اِن شعبوں کو اچھا سمجھتے۔ مجھے معلوم نہیں لیکن میں کچھ اور کرنا چاہتی تھی۔ میں نے اداکاری کے بارے میں سوچا۔ میری ماں کہتی اسے تعلیم دلانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسے پتہ ہی نہیں اس نے پڑھ کے کیا کرنا ہے۔

میری بڑی بہن ’اورنج گروو‘ کے ایک گھر میں کام کرتی۔ میں اس کے ساتھ پچھلے کمرے میں رہتی تھی۔ میں جوہانسبرگ میں اپنی بہن اور اس کی سہیلیوں کے علاوہ کسی کو نہ جانتی۔ ہم اکٹھی چرچ جاتیں۔ باہر جانے کا صرف یہی بہانہ ہوتا تھا۔ میں اکیلی تھی اور بوریت کا شکار بھی۔

چھٹی والے دن بہن مجھے کمرے میں بند کر دیتی، تاکہ مالکن مجھے دیکھ نہ لے۔ وہ سارا دن گھر ہوتی، دوستوں کے ساتھ چائے پیتی یا تالاب کنارے دھوپ میں پڑی رہتی۔ تالاب میرے کمرے سے بہت قریب تھا، اس لئے مُجھے خاموش رہنا پڑتا۔ میری بہن مجھے اندر بند کرنے پر خوش نہ تھی پر اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ میں ریڈیو بھی نہ سن سکتی بس اخبار اور رسالے پڑھتی رہتی۔ میں ’فیئر لیڈی‘ اور ’ویمنز ویکلی‘ کا ایک ایک لفظ پڑھتی۔ پھر میری بہن کو اندازہ ہوا میں بہت زیادہ پڑھ رہی ہوں۔

”تم کیسی بیوی بنو گی، اگر تمہیں بچوں کے کپڑے سینے اور اپنے لئے جرسی بنانا نہیں آتا؟ میرا خیال ہے تم کسی پڑھے لکھے شخص سے شادی کرو گی، جسے خالی پیٹ پڑھنا برا نہیں لگے گا۔“

جب رات کو مالکن سو جاتی، ہم ریڈیو سنتیں یا تاش کھیلتیں۔ پھر میں نے کپڑوں کی فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا۔ میں نئے لوگوں سے ملتی۔ مجھے اس کمرے سے باہر رہنا اچھا لگتا۔ فیکٹری میں ایک بوتیک کے لیے کپڑے سیئے جاتے تھے۔ فیکٹری میں بہت سی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ کپڑے سیتے اور کچھ بڑی بڑی استریوں سے اُنہیں استری کرتے۔ میں جیکٹ یا کپڑے سے لٹکے دھاگے کاٹتی۔ جس وقت کپڑے تیار ہوجاتے، وہ میرے پاس بھیجے جاتے۔ میں اُن کی گنتی کرتی، اُن پر نمبر لگاتی پھر دھاگے کاٹتی۔ مجھے اچھا لگتا تھا کہ ایک شخص بازو، دوسرا کالر اور آخر میں ایک عورت سب حصوں کو جوڑ کر سی دیتی اور بٹن بھی لگا دیتی۔ اس طرح جوڑا تیار ہو جاتا۔

فیکٹری میں زیادہ لوگ ’سوتھو‘ بولتے پر وہ اچھے تھے، مجھ سے ’زولو‘ میں گفتگو کرتے۔ وہ مجھے مشورے بھی دیتے۔ وہاں ایک لڑکی گوینڈولن بھی تھی جو مجھے بیوقوف سمجھتی۔ وہ مجھے ’باری‘ کہتی۔ کیونکہ جس وقت دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا لڑکے لڑکیاں باہر چلے جاتے اور میں اندر بیٹھ کر پڑھتی رہتی۔ اس نے مجھے بتایا مجھے بھی ’لنچ بوائے‘ رکھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ سونا نہیں کیونکہ پھر یہ ساری عمر کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ میں نے سوچا باہر کسی لڑکے سے چاقو کھانے کی نسبت ’باری‘ رہنا بہتر ہے۔

فیکٹری ساڑھے چار بجے بند ہوجاتی۔ میں قریبی پارک میں چلی جاتی، ساڑھے چھ بجے تک وہاں رہتی، پھر چوری چوری گھر آجاتی تاکہ سفید لوگ مجھے کہیں دیکھ نہ لیں۔ صبح ساڑھے پانچ بجے گھر سے نکل پڑتی۔ اس طرح ساڑھے سات بجھے کی بس پکڑنے تک میرے پاس دو گھنٹے ہوتے۔ میں سوچتی میں یہ وقت کیسے گزاروں۔ میں پارک میں ٹائیلٹ میں چلے جاتی۔ اسے کبھی تالا نہ لگا ہوتا۔ میں ٹائیلٹ کی سیٹ پر بیٹھ جاتی اور اس وقت تک پڑھتی، جب تک بس کا وقت نہ ہوجاتا۔

جب میں پہلی بار ٹائیلٹ گئی، میں بس اسٹاپ کی طرف جا رہی تھی۔ عام حالات میں، میں سیدھی بس اسٹاپ چلی جاتی جو ’اوکے بازار‘ کے باہر تھا۔ میں وہاں بیٹھ کے پڑھتی رہتی یا گاڑیوں اور کاروں کی بڑھتی تعداد کو دیکھتی رہتی۔ ایک دن بہت زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا میں اس وقت تک ٹائیلٹ میں رہوں گی، جب تک کہ بارش تھم نہ جائے۔ میں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ اندر کوئی ہے تو نہیں، دستک دی جواب نہ ملنے پر اندر گھس گئی۔ مجھے تھوڑی سی بدبو آئی پر یہ ٹائیلٹ کوئی بہت زیادہ استعمال میں نہ تھی۔ دوسرے ’نان یوروپین‘ ٹائیلٹ کے مقابلے میں صاف ستھری تھی۔ اس کا فرش سرخ اور دیواریں سفید تھیں، لگتا تھا بہت عرصے سے اسے رنگ روغن نہیں کیا گیا تھا۔ جس وقت تیز بارش ہو رہی تھی، میں نے اِردگرد دیکھا۔ بارش کی آواز مجھے اچھی لگی، میں بھیگنے سے بچ گئی تھی، صرف تھوڑی سی بوندیں مجھ پر پڑیں۔ پلاسٹک کا تھیلا، جس میں کتابیں، دستی بیگ اور رومال تھا گیلا ہوگیا تھا۔ یہ اس لئے ہو اکہ ٹائیلٹ جاتے میں نے اسے سر پر رکھ لیا تھا، میں کپڑے تھوڑے سے نیچے کر کے بیٹھ گئی پر اس طرح کہ میری استری خراب نہ ہو۔ میرے آنے والی کئی صبحیں اس ٹائیلٹ میں گزریں۔

میں خوش قسمت تھی کہ مجھے ٹائیلٹ مل گئی کیونکہ اس سال سخت سردی پڑی، یہ نہیں کہ یہ جگہ کوئی گرم تھی لیکن ایک بار دروازہ بند کر لیا جائے تو ہوا اندر نہ آتی۔ یہ ایک چھوٹی ٹائیلٹ تھی۔ جس کی دیواریں تنگ تھیں۔ مجھے لگتا یہ خاص میرے لئے بنائی گئی ہے۔ میں نے وہاں کئی خواب دیکھے۔ مجھے کئی بار لگا، جیسے میں ایک بڑے ہال میں دوسرے اداکاروں کے ساتھ مل کر ڈرامے میں حصہ لے رہی ہوں۔ اسکول کے زمانے میں ہم نے ڈرامہ "A Man For All Seasons” کھیلا تھا۔ پھر ہم اسے دوسرے اسکولوں میں بھی لے کر گئے۔ مجھے یہ بہت اچھا لگتا تھا۔ جوانی کے زمانے میں، میں نے کئی خیالات انجیل سے مستعار لئے اور انہیں اہم دنوں جیسے ’گڈ فرائیڈے‘ پر اسٹیج کرتے اور خوش ہوتے۔ میں نے وہاں کئی خواب دیکھے۔۔۔۔

میں کتابیں پڑھ پڑھ کے تنگ آگئی تھی۔ پیار کی کہانیاں ایک جیسی لگتیں۔ پڑھنے میں میری دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ اسکول چھوڑنے کے بعد میں نے کوئی چیز کیوں نہیں لکھی۔ میں اسکول کے زمانے میں نظمیں اور کہانیاں لکھا کرتی تھی۔ میری انگریزی کی اُستانی میری حوصلہ افزائی کرتی۔ انہیں شائع کرنے کا مجھے پتہ نہیں تھا۔ مجھے یہ بھی علم نہ ہوتا کہ میں نے کیسے لکھا ہے۔ مجھے تو جب فرصت ملتی، لکھنا اچھا لگتا۔ ایک جمعے کو لکھنے کے لیے میں نے کاپی خریدی لیکن ایک شام کے علاوہ میں کچھ نہ لکھ سکی۔

میری بہن نے جمعرات پچھلے پہر کی چھٹی لی لیکن وہ گھر نہ پہنچی۔ میں کام سے لوٹی تو گھر جانے کے لیے پارک میں اچھے وقت کا انتظار کرتی رہی۔ سفید لوگ رات کا کھانا ہمیشہ ساڑھے چھ بجھے کھا لیتے۔ یہ وہ وقت ہوتا، جب میں چھپ کر گھر آتی تاکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکیں۔ میرا آنا جانا راز رکھنا پڑتا تھا تاکہ انہیں علم نہ ہو کہ میں یہاں رہائش پذیر ہوں۔

پھر مجھے لگا اس کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے، پر میں باہر جانے سے ڈرتی تھی۔ میں بہن کے کمرے کے باہر بیٹھ کر انتظار کرتی رہی۔ میرا خیال تھا وہ مجھے دیکھ نہ سکیں گے۔ میں ’ڈرم میگزین‘ پڑھتی رہی۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ جلدی نہیں لوٹے گی۔

مجھے پہلی بار لگا میں بھی کتنی بیوقوف ہوں، فالتو چابی رکھ لیتی۔ مجھے دروازہ کھلنے کی آوازیں آئیں۔ ایک آدھ بار لگا، جیسے اس کے قدموں کی چاپ ہو لیکن یہ کچھ اور تھا۔

میں پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی، جب دو کتے کھیلتے اور ایک دوسرے کا پیچھا کرتے میرے قریب آگئے، پھر وہ میرے بالکل سامنے کھڑے ہو گئے۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ انہوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ مجھے لگ رہا تھا میں تھوڑا سا بھی ہلی تو یہ میرے ٹکڑے کر دیں گے۔ اس لئے چپ چاپ بیٹھی رہی، ان کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ میرا دل پھٹ رہا تھا اور منہ کاغذ کی طرح خشک ہورہا تھا۔

جب اڑوس پڑوس کے اور کتے بھی ان سے آ کے مل گئے تو انہوں نے مزید بلند آواز میں بھونکنا شروع کر دیا۔ پھر مالکن کی آواز آئی جو کتوں کے بھونکنے سے بھی زیادہ اونچی تھی۔۔۔ ارررینی۔۔۔ یہ میری بہن کا انگریزی نام تھا لیکن ہم نے اسے اس نام سے کبھی نہ پکارا۔ میں بولی نہ اپنی جگہ سے ہلی، کیونکہ کتے دانت نکالے میرے سامنے کھڑے تھے۔ جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو وہ دیکھنے آئی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

”ہیلو یہ تم ہو؟“ وہ مسکرا رہی تھی اور کتوں کو بھگانے کی بجائے چیونگم کھاتی رہی۔ انہوں نے بھونکنا بند کر دیا پر اپنی جگہ کھڑے رہے، وہ دانت نکالے منتظر رہے کہ کب ان کی مالکن انہیں بھاگ جانے کا حکم دیتی ہے۔

”مالکن یہ مجھے کھا جائیں گے“ میں نے کہا اور اپنی توجہ ان پر مرکوز رکھی۔

”نہیں یہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے“ وہ پیار سے بولی ’یہاں سے بھاگ جاؤ‘ تو وہ آرام سے چلے گئے۔

وہ گڑیا کی طرح تھی اور اس کے بال سنترا رنگے تھے۔ اس کی آنکھیں بھی گڑیا جیسی تھیں، اس کے ہونٹ بھی بہت خوبصورت تھے۔ اس نے اونچی ایڑی کی جوتی پہن رکھی تھی۔ جب اس کے دوست تیراکی کے لئے آتے تو ہمیشہ اس کے ہنسنے کی آوازیں آتی رہتیں۔ میں گھبرا گئی اور سمجھ نہ سکی کہ وہ کس طرح مسکرا لیتی ہے، جب کہ اپنے گھر میں وہ مجھے ٹھہرنے نہیں دیتی۔

”تم یہاں کب آئیں؟ ہم نے تمہیں دیکھا ہی نہیں۔“

”میں کچھ دیر سے یہاں ہوں، میری بہن گھر نہیں، میں اس کا انتظار کر رہی ہوں“

”اوہ۔۔۔ وہ یہاں نہیں ہے؟“ وہ بے وجہ ہنس پڑی ’’میں اس کو پیغام دے دوں گی تم گھر چلی جاؤ، میں اسے بتا دوں گی کہ تم اس سے ملنے آئی تھیں۔“

میں گیٹ سے باہر نکل آئی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں اور کہاں جاؤں۔ میں آہستہ آہستہ چلتی رہی۔ باہر تیز روشنی تھی، ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ بڑی بڑی آنکھیں ہوں، جو مجھے تاڑ رہی ہیں۔ میں پریشان تھی کہ لوگ مجھے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے کہ میں رات کے اس پہر یہاں کیا کر رہی ہوں۔ یہ سارا کچھ میرے بس سے باہر تھا۔ اس لئے میں نے پریشان ہونا چھوڑ دیا۔ میں سوچنے لگی کہ اس دن میری بہن مجھ سے کیوں ناراض ہو گئی تھی۔ اس صبح میں نے الارم لگایا ہوا تھا لیکن چھلانگ مار کے اسے بند نہ کر سکی تو بہن مجھ سے روٹھ گئی۔ پر جب وہ خود الارم لگاتی، اسے اس کا منہ بند کرنے کی کوئی جلدی نہ ہوتی۔ ایک دن میں نے کچھ سیکنڈ کے لئے دروازہ کھلا رکھا تو اس نے مجھے جھاڑ پلا دی۔
میں روز صبح سویرے اٹھتی بستر تہہ کر کے بہن کی چارپائی کے نیچے رکھ دیتی۔ اندھیرے میں مجھے لائٹ جلانے کی اجازت نہ تھی۔ میں موم بتی جلاتی اور باتھ روم میں گھس جاتی۔ میرے کپڑے دروازے کے پیچھے لٹکے ہوتے۔ میں کپڑے لیتی اور آہٹ کے بغیر دروازہ بند کر لیتی۔ رات سے پہلے دوبارہ ہر چیز اپنی سابقہ جگہ پر ہوتی۔ بیسن میں ٹھنڈا پانی ہوتا تاکہ ٹونٹی کی آواز سے سفید لوگ جاگ نہ جائیں اور یہ نہ سوچیں کہ صبح صبح میری بہن کیا کر رہی ہے۔۔ میں سویرے ساڑھے پانچ بجے دروازے سے باہر ہوتی۔ جوتے بیگ میں ہوتے اور گیٹ سے باہر آکے پہنتی۔ گیٹ آواز کرتا تو میں خواہش کرتی کاش میں اسے ٹاپ سکتی۔

میں ان سوچوں میں گم تھی۔ ٹھنڈ اور ٹھٹھرتی ناک بھی بھولی ہوئی تھی۔ جب میں نے اپنی بہن کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ’محلو‘ تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا۔

”او۔۔۔ تم کسی وقت بہت ہی بیوقوف ہو جاتی ہو۔ تم اندر کیا کر رہی تھیں۔ تم میرا انتظار کرتیں، ہم دونوں اکٹھے اندر داخل ہوتیں۔ پھر میں کہہ سکتی تھی کہ تم مجھے ملنے آئی ہو۔ اگر انہوں نے تمہیں دوبارہ دیکھ لیا تو میں کیا جواب دوں گی۔“ وہ غصے سے گیٹ کی طرف بڑھی اور میں اس کے پیچھے پیچھے جب وہ اندر گئی تو بولی دوڑ کے آ جاؤ۔ میں نے اس سے معافی مانگی اور اندر آ گئی۔

یہ معجزہ تھا کہ کسی نے ہمیں آتے نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے گفتگو کیے بغیر کھانا کھایا اور چائے پی۔ میرا چیخنے کو دل کر رہا تھا۔ میرا جی کرتا میری بھی کوئی سہیلی ہو، جو مجھے بتائے کہ میں بیکار نہیں ہوں اور میری بہن مجھ سے نفرت نہیں کرتی اور ایک دن ہمارے پاس رہنے کے لیے اچھی جگہ ہوگی۔ میرا جی چاہتا میں اپنی عمر کے کسی شخص سے باتیں کروں۔
مجھے پتہ تھا میری بہن میرے بارے میں پریشان ہے اور اپنی مالکن سے ڈری ہوئی ہے۔ اگر اسے پتہ چل گیا کہ میں اس کے ساتھ رہ رہی ہوں تو وہ اسے بھی نکال دے گی۔ پھر ہمارے پاس سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ ہوگی۔ میری تنخواہ کم تھی۔ مجھے نہیں پتہ میں کب تک آنسوؤں اور خواہشوں کے ساتھ اور بِن نیند زندہ رہوں گی۔

اگلی صبح میں الارم سے پہلے جاگ پڑی لیکن میں تھکی اور بور تھی۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں کام پر نہ جاتی۔ میرے اندر کوئی ایسا جذبہ تھا جو مجھ سے دگنی رفتار سے کام کرواتا اور مجھے ٹائیلٹ تک لے جاتا۔ میں اسے اپنی ٹائیلٹ کہتی ہوں کہ یہ مجھے ایسے ہی لگتی ہے۔ میں نے اس کے اندر کسی کو کبھی جاتے نہ دیکھا۔ مجھے لگتا سب کو پتہ تھا میں یہاں ہوتی ہوں، اس لیے کوئی اِدھر کا رُخ نہ کرتا۔ میں جب بھی جاتی مجھے معلوم ہوتا یہ خالی ہوگی۔

جب میں نے گیٹ کے باہر جوتے پہنے، مجھے لگا جیسے میں ہوا میں اُڑ رہی ہوں۔ میں نے دیکھ لیا کہ کاپی میرے بیگ میں موجود تھی۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ میں لنچ بکس رکھنا بھول گئی تھی۔ میں بہت تیز چل رہی تھی۔ پھر میں نے دیکھا دروازے کو نیا پینٹ کیا گیا ہے، نئے شیشے لگا دیے گئے ہیں، میں قریب پہنچی تو اندر ہی اندر مسکرائی۔ میں عرصے بعد ٹائیلٹ سیٹ پر بیٹھ کر نظم لکھ رہی تھی۔
میں کئی صبحیں وہاں بیٹھ کر لکھتی رہی۔ کسی وقت یہ نظم نہ ہوتی۔ میرے ذہن میں جو آتا لکھ لیتی۔ مجھے لگتا میں سکھی سہیلی سے باتیں کر رہی ہوں۔ پھر مجھے لگا میں اپنی بہن سے کچھ چھپا رہی ہوں۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ پارک میں میری ٹائیلٹ بھی ہے۔ نہ اسے میری ڈائری سے کوئی دلچسپی تھی۔

میں نے فیکٹری میں لنچ کے وقت کچھ لوگوں کو چوری کرتے دیکھ لیا لیکن اپنے سپروائزر کو اطلاع نہ دی۔ اسے مجھ پر غصہ تھا۔ میں اس کے بارے میں کہانی لکھنا چاہتی تھی، پر میں جب میں ٹائیلٹ کے قریب پہنچی تو مسکرائی کیونکہ اسے تالا لگا ہوا تھا۔ مجھے پہلی بار لگا ٹائیلٹ میری نہیں ہے۔ میں قریبی بنچ پر بیٹھ گئی۔ چڑھتے سورج کو دیکھا اور اپنی کہانی لکھ ڈالی۔

English Title: The Toilet
Written by Gcina Mhlope

گائنا مہلوپ 1959ء میں ڈربن جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئی۔ وہ اداکارہ اور شاعرہ بھی ہے۔ ان کی اس کہانی ’’ٹائلٹ‘‘ میں انہوں نے اپنے ذاتی تجربات کو بیان کیا ہے۔ یہ کہانی سیاہ فام لوگوں کی زندگی کی اذیتوں کی گواہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close