سزائے موت پانے والے ایرانی گلوکار توماج صالحی کون ہیں؟

ویب ڈیسک

حال ہی میں ایران کی ریولوشنری کورٹ یعنی ’انقلابی عدالت‘ نے معروف ایرانی ریپر توماج صالحی کو موت کی سزا سنائی ہے۔ گلوکار پر ’زمین پر فساد‘ پھیلانے کا الزام تھا، جس کی وجہ سے پہلے انہیں سپریم کورٹ نے چھ سال تین ماہ کی قید کی سزا سنائی تھی، جسے بعد ازاں سزائے موت میں تبدیل کر دیا گیا۔

توماج صالحی ملک میں اپنی موسیقی کے ذریعے سخت پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں اور وہ اس صف میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق عدلیہ کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تینتیس سالہ گلوکار اپنی سزا میں کمی کے لیے بیس دن کے اندر اندر اپیل دائر کر سکتے ہیں۔

یوں عدالت کی جانب سے اشارہ ملا ہے کہ اگر ایرانی ریپر شرمندگی ظاہر کریں گے اور عدالت سے تعاون کریں گے تو ان کی سزائے موت کو طویل قید میں بدلا جا سکتا ہے۔ توماج صالحی کے وکیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کریں گے۔

صالحی کے وکیل عامر رئیسان نے ایک مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے انقلابی کورٹ کی برانچ ون کو اس سخت فیصلے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے اسے ’عجیب اور بہت ہی غیر معمولی‘ عدالتی کارروائی بھی قرار دیا۔

عامر رئیسان کا کہنا تھا کہ ایران میں 2022 کے دوران ہونے والے احتجاج کی حمایت کرنے پر صالحی کو سپریم کورٹ نے سزا دی ہوئی ہے، جسے نافذ کرنے کے بجائے نئی سزا دینا درست نہیں۔

واضح رہے کہ صالحی کو اکتوبر 2022 میں ان ملک گیر مظاہروں کے حق میں بیان دینے پر گرفتار کیا گیا تھا، جو بائیس سالہ ایرانی کرد لڑکی مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد شروع ہوئے تھے۔

مہسا امینی کی حراست کے دوران موت کے بعد پورے ایران میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی، جس کے حق میں صالحی نے بیان بھی دیا اور ’زن، زندگی اور آزادی‘ کے عنوان سے ایک گیت بھی گایا۔

صالحی کے خلاف اس عدالتی فیصلے پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت تنقید ہو رہی ہے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ ایران کی گلیوں میں ڈرائیورز بھی احتجاج کے طور پر صالحی کے گانے چلا رہے ہیں۔

صالحی کو سزائے موت دینے کے اعلان کے بعد ان کے حامیوں نے گرفتاری کے خطرے کے باوجود تہران کے ہائیوے پر پلے کارڈز اٹھائے رکھے تھے۔ اس منظر کو بہت زیادہ شیئر کیا گیا ہے۔

تین دسمبر 1990 کو ایران کے شہر میں گردبيشه میں پیدا ہونے والے توماج صالحی 33 سال کے معروف ایرانی ریپر ہیں۔ انھوں نے اپنا بچپن مرکزی ایران کے صوبہ اصفہان میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارا۔ ان کے والد نے سیاسی قیدی کے طور پر آٹھ سال جیل میں گزارے۔ توماج اپنے خاندانی بزنس کے ساتھ منسلک ہیں جو کہ طبی آلات کے پرزے ڈیزائن کرتا اور بناتا ہے۔

توماج صالحی نے 24 سال کی عمر میں گانا شروع کیا۔ توماج صالحی کا شمار ایران کے ابھرتے ہوئے ریپرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے رومانوی گیت گانے کے بجائے اپنی حکومت کی پالیسیوں اور معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کی، ریپنگ میں وہ امتیازی سلوک، غربت، کرپشن اور جبر پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں نوجوانوں میں مقبولیت ملی، لیکن اس مقبولیت کے ساتھ ہی وہ ایرانی حکومت کے نشانے پر بھی آ گئے، جس کی وجہ سے انہیں متعدد بار گرفتار کیا گیا

گائیگی کی دنیا میں مشہور ہونے سے پہلے 2021 میں انہیں پہلی مرتبہ اس لیے گرفتار کیا گیا کیوں کہ ان پر حکومت کے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے کا الزام تھا۔

سنہ 2022 اور 2023 میں احتجاج سے کچھ مہینے پہلے صالحی نے ایک گانا گایا، جس کا عنوان تھا ’چھپنے کے لیے چوہے کا بل خرید لو‘۔ اس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس گانے میں انہوں نے ایران کی پالیسیوں اور ملک کے اندر اور باہر ان کی حمایت کرنے والوں پر کڑی تنقید کی تھی، لیکن اس گرفتاری کے چند ہی روز بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

کئی ممالک نے ایرانی حکومت پر تنقید کرنے پر صالحی کی جرات کو سراہا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی کے فلورنس شہر نے انھیں اعزازی شہریت دی ہے۔ گذشتہ برس صالحی کو اپنے گانے ’تقویٰ‘ کے لیے گلوبل میوزک ایوارڈ ملا۔ اس گانے میں وہ مستقبل کی حکومت کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہیں۔

سنہ 2022 میں پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جب مظاہرے شروع ہوئے تو صالحی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دو ماہ تک وہ گرفتاری کے خطرے کے پیش نظر روپوش رہے تاہم سکیورٹی فورسز نے بالآخر انہیں گرفتار کر لیا۔

رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ صالحی اور ان کے دوستوں کو گرفتاری کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے حوالے سے جو تصاویر سامنے آئیں ان سے پتا چلتا ہے کہ صالحی کو شدید چوٹیں آئیں اور ان کے چہرے پرتشدد کے نشانات تھے۔ اس پر عالمی سطح پر شدید تنقید اور احتجاج ہوا۔

ڈھائی سو دن تک نظر بندی اور ایک سال تک جیل میں رہنے کے بعد نومبر 2023 کے دوران انہیں بالآخر جیل سے ضمانت پر رہائی مل گئی، لیکن ابھی بارہ روز ہی گزرے تھے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کر کے جیل میں بھجوا دیا گیا۔ ابتدا میں ایران کی عدالت نے دعویٰ کیا کہ صالحی کو غلط باتیں پھیلانے پر دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔

عبوری ضمانت پر رہائی کے گیارہویں روز ہی ان کی دوبارہ گرفتاری کو ان کے وکیل نے اغوا قرار دیا، تب سے لے کر اب تک صالحی جیل میں ہی ہیں، جہاں انہیں بدھ کو سزائے موت سنائی گئی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صالحی کی حمایت اور ان کے لیے امید کا بہت اظہار کیا گیا ہے۔ ایک وکیل اور ایرانی یونیورسٹی میں پروفیسر محسن برہانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ وہ ’پرامید ہیں کہ صالحی کی سزائے موت کو سپریم کورٹ منسوخ کر دے گی۔‘

کیہان کلہور معروف ایرانی موسیقار ہیں۔ انھوں نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر لکھا ’صالحی کو رہا کیا جانا ضروری ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جبر کی حمایت کر رہے ہیں۔‘

کچھ ایرانی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ صالحی کو دی جانے والی سزا دراصل حکومت کے خلاف ہر قسم کی احتجاجی آواز اور مخالفت کو خاموش کرنے کا پیغام ہے۔

اقبال اقبالی نے توماج کو سزائے موت دینے کے فیصلے پر کہا کہ ’حکومت کی جانب سے یہ ان لوگوں سے انتقام ہے۔۔۔ یہ ایک انتباہ ہے کہ مخالفین کو پھانسی دی جائے گی۔‘

ایک بیان میں اقوام متحدہ سے منسلک ماہرین نے صالحی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور ایرانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ سزائے موت کے فیصلے کو واپس لیں۔

وہ کہتے ہیں کہ صالحی کے گانے حکومت کے لیے سخت ہیں۔ تاہم یہ ثقافتی حقوق اور فن کے اظہار میں آزادی کے عکاس ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close