سیاست کی سرحد

امر جلیل

اگر آپ تاریخ کے طالبِ علم ہیں اور سیر و سیاحت کے متوالے ہیں تو پھر کراچی کی جدید تاریخ اور جغرافیہ کا مطالعہ کرنے کے بعد کراچی کا رخ مت کیجئے گا۔ آپ چکرا جائیں گے۔ آپ گھبرا جائیں گے۔ گریبان چاک کر کے آپ اپنے بال نوچ ڈالیں گے۔ آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ آپ اپنے ملک کے کسی شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں بھٹک رہے ہیں یا کسی مشرق وسطیٰ، ایران یا ترکی کے کسی شہر میں بھٹک رہے ہیں۔ آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ ویسے بھی بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم پاکستانیوں کی سمجھ کا خانہ خالی ہے۔ ہم سب سمجھتے ہیں، بوجھتے ہیں۔ مگر کیا کریں کہ چھہتر ستتر برس کے دوران سیاستدانوں کی اکھاڑ پچھاڑ دیکھ کر ہماری اپنی مت ماری گئی ہے۔

سات دہائیوں سے ہم سیاسی ڈرامہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔۔ مگر کیا مجال کہ آج تک پسِ پردہ موسیقی دینے والے کسی ایک میوزک ڈائریکٹر کے نام اور کام کا پتہ چل سکا ہو۔ کٹھ پتلی سیاستدانوں کی گردن سے بندھی ہوئی ڈور دراصل کس کے ہاتھ کی انگلیوں کے بس میں ہے، اس بارے میں ہم بڈھے کھوسٹ کچھ نہیں جانتے۔۔ حالانکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کٹھ پتلی سیاست دانوں کی گردن سے بندھی ڈور کا دوسرا سرا کس کس کے ہاتھ میں ہے۔۔

جہاں تک میری اپنی بات ہے، جب پاکستان بنا تھا، تب تک میں اپنا بچپن بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔۔ پاکستان جب بنا تھا، تب میں بچہ نہیں تھا۔ اس لیے میں نہیں جانتا کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی افتتاحی تقریر نشر ہونے کے بعد جب شائع کرنے کے لیے اخبارات کو بھیجی جا رہی تھی، تب قائد اعظم کی تقریر کس نے ایڈٹ کی تھی، یعنی کس نے قائد اعظم کی تقریر میں کانٹ چھانٹ کی تھی۔ اس نوعیت کی باتیں پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ بڑے بوڑھے کچھ نہیں جانتے۔ آپ کو حیران پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ راز کی بات ہے۔ میرے علاوہ گنتی کے بوڑھے کھوسٹ جو رختِ سفر باندھ کر بیٹھے ہیں، اس راز سے واقف ہیں۔

میں اس راز سے پردہ اٹھاتا ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بچے جب بچے ہوتے ہیں، تب وہ جانتے ہیں کہ کٹھ پتلی سیاستدانوں کی گردن سے بندھی ہوئی ڈور کا دوسرا سرا کس کے ہاتھ میں ہے، اور وہ ہاتھ کس کا ہاتھ ہے۔ اب میں راز کی بات سے پردہ اٹھاتا ہوں۔ بات کچھ اس طرح ہے کہ بچے جب بچے نہیں رہتے، اور جوان ہو جاتے ہیں، تب وہ بھول جاتے ہیں یا دانستہ بھلا دیتے ہیں کہ کٹھ پتلی سیاستدانوں کی گردن میں پڑی ہوئی ڈور کا دوسرا حصہ کس کے ہاتھ میں ہے۔ یاد رہے کہ گردن میں پڑی ہوئی ڈور پھانسی کے پھندے سے کم نہیں ہوتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پھانسی کا پھندا جب گلے میں پڑ جاتا ہے، تب آپ لکڑی چبوترے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ کو کالا ٹوپ پہنایا جاتا ہے تاکہ پھانسی گھاٹ میں موجود مجسٹریٹ، ڈاکٹر، اعلیٰ پولیس حکام، اور جیل کے بے تاج بادشاہ سپرنٹنڈنٹ جیل کو آپ کا نورانی چہرہ پھانسی پر لٹک جانے کے بعد دکھائی نہ دے۔ بڑا ہی بھیانک منظر ہوتا ہے وہ۔۔ نرم دل اور رحم دل جیل حکام، ڈاکٹر اور مجسٹریٹ صاحب دل خراش منظر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے۔ دھاڑیں مار کر رو پڑتے ہیں اور بیہوش ہو جاتے ہیں۔۔

مگر جب سیاست کی سرحد نامی ڈرامہ میں آپ کے گلے میں ڈور باندھی جاتی ہے تب آپ کسی پھانسی گھاٹ کے چبوترے پر کھڑے ہوئے نہیں ہوتے۔ آپ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں۔ نیچے سے اقتدار کی کرسی نکل جانے کے بعد آپ زندگی سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھتے۔ آپ اقتدار سے محروم ہو جاتے ہیں۔

بچوں کو یہ تمام باتیں بہت پہلے سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ وہ جوان ہونے سے بہت پہلے عقل کے ناخن لے لیتے ہیں اور بچپن میں سنی سنائی باتیں بھول جاتے ہیں۔ جو بچے زیادہ معصوم ہوتے ہیں اور بچپن کی باتیں بچپن میں چھوڑ کر آنے کی بجائے اپنے ساتھ جوانی کی دہلیز تک لے آتے ہیں، وہ بچے غائب ہو جاتے ہیں، وہ کس طرح اور کیسے غائب ہو جاتے ہیں، کوئی کچھ نہیں جانتا۔۔

ایک مرتبہ موت کا فرشتہ ایک نوجوان کی روح قبض کرنے اور اس کو ابدی نیند سلانے کے لیے زمین پر آیا تھا۔ تب تک نوجوان غائب ہو چکا تھا۔ فرشتے نے نوجوان کو بہت تلاش کرنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے۔۔ مگر بے سود، موت کے فرشتہ کو نوجوان نہیں ملا۔ وہ مایوس لوٹ گیا۔۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ بچے جب جوان ہونے لگتے ہیں، تب عقل کے ناخن کیوں لیتے ہیں اور کیوں سب کچھ بھلا بیٹھتے ہیں۔

میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ جب بھی آپ سیر و سیاحت کے لیے کراچی تشریف لائیں تب آپ کورے کاغذ کی طرح آئیں۔ کراچی کو کراچی میں آنے والوں نے جس طرح اکھاڑا اور پچھاڑا ہے، اسی کیفیت میں کراچی کو دیکھیں۔۔ یہ وہ کراچی نہیں ہے، جس کراچی کو انیس سو سینتالیس میں انگریز نے چھوڑا تھا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close