’گندم جنت سے تو نکلوا سکتی ہے، حکومت سے نہیں!‘

وسعت اللہ خان

ایسا ملک، جہاں عالمی ادارہِ خوراک کے آنکڑوں کے مطابق 35 فیصد آبادی مسلسل غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور اس میں سے بھی 18 فیصد کو روزانہ سوچنا پڑتا ہے کہ شام کو روٹی ملے گی بھی یا نہیں۔ ایسے ماحول میں کسی سال یہ خبر ملے کہ اس بار گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے تو کسانوں کو خوشی کے مارے سڑک پر ناچنا چاہیے۔

کسان آج سڑکوں پر ناچ تو رہے ہیں مگر وہ پولیس کے ڈنڈوں سے خود کو بچانے کے لیے تا تا تھئیا کر رہے ہیں، کیونکہ پچھلی نگراں حکومت کسانوں کے ساتھ جو ہاتھ کر گئی، اس سے جنم لینے والے بحران سے دو دو ہاتھ کرنے کی موجودہ حکومت میں ہمت نہیں۔۔ بلکہ شاید اسے بحران کی سنگینی کا اب تک مکمل ادراک ہی نہیں۔

حکومت کو گندم کے بحران سے زیادہ یہ فکر ہے کہ شاہی خاندان کے اندر کس کا بابا اوپر رہے۔ چھوٹا بھائی ازخود فیصلے کرے یا بڑے بھیا کو بھی ہر فیصلے میں ساتھ لے کر چلے۔ انہیں خوش دیکھنے کے لیے تقریباً موروثی وزارتِ خزانہ اسحاق ڈار سے چِھننے کے دکھ کو کم کرنے کے لیے اتوار کی چھٹی کے باوجود بیرونِ ملک ہوتے ہوئے بھی انہیں نائب وزیرِ اعظم بنانے کا نوٹیفکیشن نکالے؟

یا پھر بڑے بھیا کے جانثاروں کے طنز و طعنوں سے گلو خلاصی کے لیے رانا ثناءاللہ کو انتہائی طاقتور پیراشوٹی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کے توڑ کے لیے اپنا مشیر بنانے پر مجبور ہو اور نوٹیفکیشن میں یہ جملہ بھی خصوصاً شامل ہو کہ ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔

اب کوئی دن جاتا ہے کہ حکمران پارٹی کی صدارت میاں نواز شریف کو واپس ملنے والی ہے، جو ان سے پانامہ کیس کے دوران سپریم کورٹ نے چھین لی تھی اور شہباز شریف کو با دلِ نخواستہ تھمانی پڑ گئی تھی۔

عمران خان اور فوجی قیادت تو شروع کے ڈیڑھ برس تک ایک پیج پر رہی، مگر پنجاب اور مرکز میں شریف خاندان کی مقتدر بحالی کے باوجود درونِ خانہ جو میچ پڑا ہوا ہے، اس کے سبب لگتا ہے کہ دان کردہ حکومت اور ان داتاؤں کے مابین جس پیج پر مشروط ہم آہنگی طے پائی تھی، وہ پیج بجٹ کے بعد مرحلہ وار پھٹ سکتا ہے۔

ان حالات میں ان لاکھوں کسانوں کو کون پوچھتا ہے، جنہیں تاریخ میں پہلی بار گندم بھرنے کے لیے مصدقہ سرکاری بوریوں کے اجرا کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔

شرط یہ عائد کی گئی ہے کہ صرف ان کسانوں کو فی ایکڑ چھ بوریاں جاری ہوں گی، جن کی زمین چھ ایکڑ یا اس سے کم ہے۔۔ اور وہ بھی تب جاری ہوں گی، جب کسان ماضی کی طرح تحریری درخواست دینے کے بجائے حکومتِ پنجاب کے جاری کردہ ایپ کے ذریعے رابطہ کریں۔ چار لاکھ سے زائد کسان اس ایپ پر بھی درخواست دینے کے باوجود بوریوں کے منتظر ہیں جو سالانہ روایت کے مطابق انہیں اپریل کے وسط تک جاری ہو جاتی تھیں۔

چونکہ حکمران خود تاجر و صنعت کار ہیں، لہٰذا انہیں یہ بھی نہیں سمجھایا جا سکتا کہ جس کسان کی زمین ہی چھ ایکڑ ہے، اس سے بس اتنی گندم پیدا ہوتی ہے جو گھریلو ضروریات کے لیے کافی ہو یا پھر وہ اسے بازار میں بیچ کے اپنا کھاد بیج ڈیزل کا خرچہ اور قرضہ کچھ ہلکا کر سکے۔ اس کے پاس سرکار کو دینے کے لیے گندم ہی کہاں ہوتی ہے جو وہ محکمہ خوراک کی بوریوں میں بھرے۔۔ اور اب اسے اگلی فصل کی کاشت کا خوف لاحق ہے۔

مگر اس اسکینڈل کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اکتوبر میں جس نگراں حکومت کے دور میں بیرونِ ملک سے 10 لاکھ ٹن کے بجائے 30 لاکھ ٹن سے زائد گندم منگوانے کا فیصلہ ہوا، یہ فیصلہ اس حکومت نے چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر جان بوجھ کر کیا۔۔ یا پھر اسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ گندم کی نئی فصل توقع سے بڑھ کے ہونے والی ہے۔ لہٰذا بیرونی گندم منگوانے سے مقامی کسان رُل جائے گا۔

اگرچہ گندم کی نئی فصل کا سرکاری ریٹ تو پیشگی بتا دیا گیا (3900 روپے من)۔ مگر کسان کو یہ نہیں بتایا گیا کہ سرکار گذشتہ برس کی طرح ان سے چار ملین ٹن گندم نہیں خریدے گی بلکہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی ملین ٹن گندم خریدے گی۔ کیونکہ اپریل میں نئی فصل آنے کے باوجود سرکاری گوداموں میں دو ملین ٹن سے زائد گندم موجود ہوگی۔

چنانچہ کسانوں نے بے خبری میں اپنے کاشتکاری تخمینوں پر نظرِ ثانی کرنے کے بجائے اس امید پر اتنی ہی گندم پیدا کر کے دکھا دی کہ سرکار پہلے کی طرح ان کی بیشتر فصل خرید لے گی۔

اب حکومت اس اسکینڈل کی شفاف چھان پھٹک کے لیے کوئی با اختیار کمیشن بنانے کے بجائے کسانوں کو لالی پاپ دے رہی ہے کہ ہم آپ کو نہ خریدی جانے والی گندم پر چار سو سے چھ سو روپے فی من سبسڈی تو دے سکتے ہیں مگر پہلے کی طرح پوری مقدار میں گندم نہیں لے سکتے۔

چنانچہ گندم کی افراط کسان کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔ جہاندیدہ آڑھتی 3900 کے بجائے تین ہزار یا اکتیس سو روپے فی من سے زیادہ دینے پر آمادہ نہیں۔ یہی گندم یہی آڑھتی چند ماہ بعد چار ہزار روپے فی من تک فلور ملز کو بیچیں گے اور فلور مل فی من پانچ سو سے ہزار روپے منافع رکھنے کے بعد جو آٹا تندور تک پہنچائے گی، اس سے بننے والی سو گرام روٹی آپ اور میں بیس سے پچیس روپے میں خریدیں گے۔

اور اسی روٹی کی قیمت سولہ روپے تک لانے کے لیے حکومتِ پنجاب نے ایک سو تیس ارب روپے مختص کر کے ویسی ہی دیوالیہ سستی روٹی اسکیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو دو ہزار آٹھ سے دس تک جاری رکھنے کے لیے محکمہ خوراک کو کمرشل بینکوں سے قرضے لینے پڑ گئے تھے اور پھر یہ سستی روٹی اسکیم دو ہزار دس کے سیلاب میں قرض سمیت ڈوب گئی۔

مگر فکر کی کوئی بات نہیں۔۔ گندم کا بحران نہ ہوتا تو چینی، کپاس، گیس اور بجلی کی قیمتوں کا اسکینڈل ہوتا۔ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی سال بغیر کسی میگا بحران کے گذر جائے اور اربوں روپے کروڑوں جیبوں سے چند جیبوں میں منتقل نہ ہوں۔

(ایسا سماج، جس پر چوروں اور جرائم پیشہ افراد کا راج ہو اسے انگریزی میں ’کلیپٹو کریسی‘ کہتے ہیں۔ کلیپٹو کریسی کا اردو مفہوم ہے ’چوروں کو پڑ گئے چور‘)۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close