ونسنٹ وین گو کے اپنے بھائی تھیو کے نام محبت نامے

ڈاکٹر خالد سہیل

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ونسنٹ وین گو ایک فنکار ہی نہیں ایک ادیب اور دانشور بھی تھے۔ ان کے اپنے بھائی تھیو کو لکھے ہوئے سینکڑوں خطوط اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں۔ وین گو کے ان خطوط کی کیا اہمیت و افادیت ہے، اس کے بارے میں مارک روزویل فرماتے ہیں کہ وہ خطوط ہم پر وین گو کی زندگی کے بہت سے راز منکشف کرتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وین گو کس طرح سوچتے تھے، کس طرح زندگی گزارتے تھے، کن لوگوں سے جذباتی و رومانی رشتے استوار کرنے کی خواہش رکھتے تھے، وہ کن فنکاروں اور دانشوروں سے متاثر تھے اور کن چیزوں سے فنی تحریک حاصل کرتے تھے

وین گو اپنے بھائی سے ٹوٹ کر پیار کرتے تھے۔ اس کی جدائی سے اداس ہو جاتے تھے اور کچھ عرصہ بعد ملتے تھے تو نہال ہو جاتے تھے۔ ایک خط میں رقم طراز ہیں:

”پیارے تھیو!

تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ہم کافی عرصے کے بعد ملے تھے۔ مجھے تم سے دوستی بہت عزیز ہے۔ جب ہم مل کر سیر کے لیے گئے تو مجھے احساس ہوا کہ زندگی کتنی قیمتی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں اس سے پہلے اتنا زیادہ خوش ہوا ہوں“

وین گو اپنے بھائی سے بہت بے تکلف تھے۔ وہ انہیں اپنے دل کے فنی اور جذباتی رازوں کے ساتھ ساتھ رومانوی راز بھی بتا دیتے تھے۔ لکھتے ہیں:

”جب میری کرسٹین سے ملاقات ہوئی تو وہ حاملہ بھی تھی اور بیمار بھی۔ شروع میں میرا اس سے شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں صرف اس کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن جوں جوں میں اس کے قریب ہوتا گیا مجھے احساس ہوا کہ اگر مجھے اس کی سنجیدگی سے مدد کرنی ہے تو مجھے اس سے شادی کر لینی چاہیے“

وین گو کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کن شخصیتوں ’کن ادیبوں‘ کن کتابوں سے متاثر ہوئے اور کن فنکاروں اور دانشوروں نے انہیں نئے خطوط پر سوچنے کی تحریک دی، لکھتے ہیں:

”فنکار ڈیمیر کی ڈرائنگ میں پیرس کی شاہراہ شانزے لیزے پر ایک درخت کے نیچے ایک بوڑھا مرد بیٹھا ہے۔ میں اس پینٹنگ کو کافی دیر تک دیکھتا رہا اور غور کرتا رہا۔ میں اس پینٹنگ سے اتنا ہی متاثر ہوا جتنا میں فرانسیسی لکھاریوں بولزیک اور زولا سے متاثر ہوا تھا

”میں آج کل ڈکنز کی کتابیں کرسمس بکس کو دوبارہ پڑھ رہا ہوں یہ ایسی کتابیں ہیں جنہیں بار بار پڑھ کر محظوظ و مسحور ہونے کو جی چاہتا ہے“

وین گو اپنے خطوط میں اپنے بھائی تھیو کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہیں کس قسم کے قدرتی مناظر متاثر کرتے ہیں:

”میں ایک دن جنگل کی سیر کے لیے گیا اور بہت سے قدرتی مناظر کو غور سے دیکھتا رہا۔ میں ایک درخت کے پاس بیٹھا پینٹنگ بنا رہا تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور میں کچھ عرصے کے لیے چھپ گیا۔ بارش رکی تو میں نے دوبارہ پینٹنگ بنانی شروع کر دی“

وین گو ایک محنتی فنکار تھے۔ وہ اپنے فن کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ وہ اپنا کڑا احتساب بھی کرتے تھے فرماتے ہیں،

”مجھے ہمیشہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ایک سنجیدہ فنکار ہونے کے ناتے میں اتنی محنت نہیں کرتا جتنی کہ مجھے کرنی چاہیے۔ میں اکثر اوقات اپنے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مجھے زیادہ مستعدی سے کام کرنا چاہیے

میری کئی پینٹنگز نامکمل ہیں۔ مجھے اپنی مصروف زندگی میں اتنا وقت اور یکسوئی میسر نہیں آتے کہ میں ان پینٹنگز کو مکمل کر سکوں۔“

وین گو کی اپنے ڈاکٹر سے دوستی بھی تھی اور بے تکلفی بھی۔ وہ اپنے بھائی کو اپنے ڈاکٹر کے بارے میں لکھتے ہیں:

”میری ڈاکٹر گیجٹ سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ہم نے مل کر فیصلہ کیا کہ میں ہر ہفتے منگل کے دن ان کے گھر جا کر پینٹ کیا کروں گا۔ پینٹنگ بنانے کے بعد ہم اکٹھے کھانا کھائیں گے اور پھر وہ میرے گھر میری پینٹنگز دیکھنے آئیں گے

ویسے تو ڈاکٹر گیجٹ ایک سنجیدہ انسان ہیں لیکن اپنے پیشے سے ویسے ہی دلبرداشتہ ہیں جتنا کہ میں اپنے پیشے سے دلبرداشتہ ہوں۔ ایک دن میں نے ان سے از راہ تفنن کہا، ہم اپنے پیشے بدل لیتے ہیں آپ پینٹر بن جائیں اور میں ڈاکٹر“

ایک فنکار ہونے کے ناتے وین گو کا خواب تھا کہ فرانس کے شہر پیرس کے جنوب میں ایک فنکاروں کی بستی بسائی جائے جہاں مختلف شہروں اور ملکوں سے فنکار آ کر بس جائیں اور بڑی یکسوئی سے اپنے محبوب فن کی زلفیں سنواریں۔

وین گو نے اپنے بھائی تھیو کو اپنی زندگی میں سینکڑوں خطوط لکھے۔ پہلا خط 1872 میں لکھا تھا اور آخری خط 1890 میں، خودکشی سے کچھ عرصہ پیشتر۔

ان ہی خطوط میں 1880 میں وین گو نے تھیو کو لکھا تھا کہ میں ایک فنکار بننا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد تھیو نے وین گو کی مالی مدد کرنی شروع کر دی تھی تا کہ وہ مالی مشکلات سے بے نیاز ہو کر اپنی ساری توجہ اپنے فن پر مرکوز کر سکیں۔

وین گو باقاعدگی سے ہر ہفتے ایک یا دو خط تھیو کو لکھتے تھے۔ سوائے ان دو سالوں کے جب وہ پیرس میں اکٹھے رہے۔

وین گو جذباتی طور پر تھیو کے اتنے قریب تھے کہ جب انہیں پتہ چلا کہ تھیو شادی کر رہا ہے تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ ان کا رشتہ جذباتی بھی تھا اور تخلیقی بھی۔ وہ دو بھائی ہی نہ تھے دو دوست بھی تھے۔

وین گو کو جب پتہ چلا کہ تھیو سخت بیمار ہیں تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے تھیو کو لکھا کہ میں تمہارے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا اور پھر چند ماہ بعد خود کشی کر لی۔ وین گو کی وفات کے چند ماہ بعد تھیو بھی فوت ہو گئے۔

وین گو نے موت کے بارے میں تھیو کو لکھا تھا، ”جب انسان مرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے موسم خزاں میں درخت سے ایک پتہ گر گیا ہو“

وین گو ساری عمر خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہے۔ وہ ایک بہتر فنکار بننے کی سعی کرتے رہے۔ وین گو نے تھیو کو ایک محبت نامے میں لکھا تھا، ”میں زندگی اور فن سے محبت کرتا ہوں“

لیکن اس محبت نامے کے چند ماہ بعد انہوں نے خود کشی کر لی۔

عظیم فنکار وین گو کو اس جہاں فانی سے کوچ کیے ہوئے ایک صدی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے لیکن فنکاروں اور ماہرین نفسیات کے لیے آج بھی وین گو کی زندگی بھی ایک راز ہے اور موت بھی ایک راز ہے۔

نوٹ: وین گو کی وفات کے کئی برس بعد تھیو کی بیوی اور وین گو کی بھابی نے وین گو کے اپنے بھائی تھیو کو لکھے ہوئے چھ سو ستر خطوط 1914 میں چھپوائے اور پھر ان خطوط کا انگریزی میں ترجمہ مارک روسکل نے 1927 میں پہلی بار چھپوایا۔

یہ خطوط ونسنٹ وین گو کے مجھ جیسے پرستاروں کے لیے ایک قیمتی ادبی تحفہ ہیں۔

بشکریہ: ہم سب (نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close