(یہ کہانی اس وقت کی ہے، جب انیسویں صدی بیسویں صدی سے گلے مل رہی تھی۔ امریکہ روس کا ایک علاقہ، جو رقبے میں مغربی یورپ سے بڑا تھا، صرف سات ملین ڈالر میں خرید چکا تھا۔ برفیلے الاسکا میں سونا نیا نیا دریافت ہوا تھا۔ راتوں رات دولتمند ہونے کے لالچ میں امریکہ اور یورپ سے ہزاروں لوگ اس دوڑ میں شامل ہو گئے تھے۔ یہ ایسے ہی چند مہم جو لوگوں کی کہانی ہے۔)
”کاش میں مرد ہوتی۔۔“ میگی نے خیمے میں بیٹھے دو مردوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز سے حقارت ٹپک رہی تھی۔ نوجوان ٹامی اس تضحیک سے بھنا اٹھا۔ وہ کوئی تلخ سا جوا ب دینے ہی والا تھا لیکن رچرڈ نے، جو عمر میں اس سے خاصہ بڑا تھا، اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
رچرڈ اور ٹامی نے تین دن پہلے میگی کو برف کے شدید طوفان میں اپنے خیمے میں پناہ دی تھی۔
”اگر میں مرد ہوتی تو معلوم ہے کیا کرتی؟“ میگی کی آنکھیں دہکتے انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ان میں احساس برتری تھا، ایک چیلنج تھا۔ ایک مقابلے کی دعوت تھی
”کیا؟“
”میں ابھی ڈاسن سٹی جا کر سونے کی تلاش کا کلیم درج کرا دیتی۔ تم بزدلوں کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے طوفان کے خاتمے کے انتظار میں بیٹھی نہ رہتی۔“
”یہ عورتیں عقل استعمال کیوں نہیں کرتیں؟“ ٹامی نے جھنجھلا کر کہا۔
”اور یہ مرد اپنی مردانگی استعمال کیوں نہیں کرتے؟ موسم کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے؟ انہیں معلوم ہے کہ چند دنوں میں دریا برف سے منجمد ہو جائے گا اور پھر مہینوں تک کشتی سے ڈاسن سٹی جانا ممکن نہیں ہوگا۔“ میگی نے تنتنا کر جواب دیا۔
اتنے میں طوفانی ہوا نے خیمے کو ایک زوردار تھپڑ لگایا۔ ترپال کی دیواریں تقریباً فرش سے جا لگیں۔ ٹامی نے مشکل سے خیمے کی دیواروں کو سیدھا کیا۔ میگی کے گیلے کپڑے چولھے کے ارد گرد بچھائے اور چائے بنانے میں مصروف ہو گیا۔
رچرڈ میگی کو ساتھ لے کر خیمے سے باہر نکلا۔ سامنے دریا تھا۔ دوسرے کنارے کے پار بہت دور برف سے لدا گلیشئر چاند کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ پیچھے خیموں کا ایک شہر آباد تھا۔ پہلی لائن میں اسٹوریج ڈپو والا خیمہ تھا، جہاں میگی کا باقی سامان رکھا تھا۔
”دیکھ میگی، ہم سب ڈاسن سٹی جانا چاہتے ہیں، لیکن زندہ۔۔ اس طوفان میں تو صرف موت ہی ایک یقینی انجام ہے۔ تُو اگر جانا چاہتی ہے تو چلی جا۔ لیکن سونا انہی کو ملتا ہے، جو اپنی زندگی بچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔“
دونوں واپس خیمے میں آئے۔ میگی کو کچھ سکون آ گیا تھا۔ اس نے ڈفل بیگ سے گیلے کپڑے نکال کر فرش پر پھیلائے اور اسٹوریج سے باقی سامان اور کپڑے لینے کے لئے اسی طوفان میں ڈپو کی طرف چل پڑی۔
”کیا خودسر عورت ہے یہ میگی“ رچرڈ نے اپنے آپ سے کہا۔
”ایسی خود سر عورتیں میرے مطلب کی نہیں“ ٹامی نے غصے سے گرہ لگائی۔
”تجھے عورتوں کا کیا پتہ ٹامی؟“
”ایسی بات نہیں رچرڈ۔ تم تو جانتے ہو سواش عورتوں کو، جن کے باپ سفید فام اور مائیں قبائلی انڈین ہوتے ہیں۔ جنہیں حقارت سے دوغلی اور دونسلی کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک سواش عورت سات سال میری بیوی رہی“
”تو نے کبھی بتایا نہیں؟“
”کیا بتاتا؟“ ٹامی اداس آنکھوں سے خیمے کی چھت کو دیکھ رہا تھا، ”ایسی عورت کسی ماں نے نہیں جنی ہوگی۔ کوئی سفید عورت اس کی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن وہ دوغلی سواش تھی۔“
”تو کیا وہ تجھے چھوڑ کر بھاگ گئی“
”نہیں۔ پہلے ہی بچے کی پیدائش میں اس کی جان چلی گئی“
رچرڈ خاموشی سے ٹامی کی گفتگو جاری رہنے کا منتظر رہا۔
”اس کا نام ٹلکی تھا۔ وہ میگی کی طرح مغرور اور خود سر نہیں تھی۔ اپنے مرد کے لئے ہر قربانی دینے پر تیار تھی۔ محنت کرنے میں وہ مردوں سے دس ہاتھ آگے تھی۔ ہسکی کتوں سے کھینچنے والی سلیج گاڑی چلانے میں اسکیمو مرد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔“
”میں نیا نیا آئرلینڈ سے آیا تھا۔ جہاں میں نے سنا تھا کہ الاسکا میں سونا دریافت ہوا ہے اور جو کوئی بھی چاہے اپنا کلیم داخل کر کے سونے سے مالا مال ہو سکتا ہے۔۔
امریکہ پہنچ کر میں اسکیمو مچھیروں کی ایک کشتی میں سٹکا کے شہر آیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہاں چلکوٹ قبیلے کے لوگوں کا سالانہ جشن ہوا۔ میں نے بھی اس میں شرکت کی۔ میری توجہ کا مرکز ایک بہت خوبصورت لڑکی تھی جو چہرے سے سواش لگتی تھی۔ سفید فام باپ اور انڈین قبیلے کی ماں کے ملن کا نتیجہ۔ میں نے اسے ڈانس کے لئے کہا۔ ہم ایک کے بعد دوسرا ڈانس کر تے رہے اور ہر لمحہ ہمارے دلوں کی چاہت بڑھتی رہی۔
چیف جارج جو اس قبیلے کا سردار تھا، مجھے ایسے گھور کر دیکھ رہا تھا جیسے کچا چبا جائے گا۔ اس کے ہاتھوں میں چھوٹی کشتی کا چپو تھا، جس کو وہ ہتھیار کے طور پر ساتھ رکھتا تھا۔ ابھی لوگ ناچ گانے میں مصروف تھے کہ میں اور ٹلکی نظر بچا کر یوکون دریا کے منجمد کنارے پر گئے اور وہاں چاند کی روشنی میں پہلی دفعہ میں نے اس کے ہونٹوں کو چوما۔ وہ میری باہوں میں کانپ رہی تھی۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ اب مجھ سے جدا نہیں ہوگی اور میں پہلا ہی نہیں، اس کا آخری پیار بھی ہوں گا
اگلے ہفتے مجھے جیونو پہنچنا تھا۔ سونا تو مجھے ابھی تک نہیں ملا تھا لیکن میں وسکی اسمگل کر کے مقامی انڈینز کو فر کی کھالوں کے عوض بیچ دیتا تھا، جن سے میرا گزارہ ہو جاتا۔
ٹلکی کے ماں باپ مر چکے تھے۔ وہ اپنے عمر رسیدہ بیمار چچا کے ساتھ رہتی تھی۔ میں شادی کا پیغام لے کر اس سے ملنے گیا لیکن اس بوڑھے نے مجھے ڈانٹ کر گھر سے نکال دیا۔ وہ پہلے ہی ٹلکی کی شادی کا سودا چیف جارج سے کر چکا تھا۔ اس نے دھمکی دی کہ اگر میں دوبارہ وہاں آیا تو وہ چیف جارج سے کہ کر مجھے جان سے مروا دے گا۔
ٹلکی نے وعدہ کیا کہ وہ میرا انتظار کرے گی۔ مجھے جیونو آئے ہوئے ایک مہینہ ہوا تھا کہ اس کے قبیلے کا ایک آدمی مجھے ڈھونڈتا ہوا وہاں پہنچا اور ٹلکی کا پیغام دیا کہ فوراً اُسے آ کر لے جاؤں ورنہ پھر موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس نے بتایا کہ اگلے ہفتے چیف جارج ٹلکی سے شادی رچا رہا ہے
میں نے فوراً کشتی تیار کی اور ایک مقامی انڈین کو ساتھ لے کر اگلے دن ٹلکی کے قبیلے طرف چل پڑا۔ الاسکا میں سردی آسمان سے ایک پتھر کی طرح گرتی ہے۔ آہستہ آہستہ نہیں آتی۔ ابھی کشتی میں پچاس میل کا سفر پورا کیا تھا کہ تیز ہوا کے طوفان میں میرا مددگار انڈین بادبان سنبھالتے ہوئے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور دریا میں گر گیا۔ میں نے اسے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کا جسم چند ہی منٹوں میں سردی سے جم کر سیسے کی طرح سخت ہو گیا تھا
اب میں اکیلا رہ گیا تھا۔ طوفانی ہواؤں میں لمحہ بہ لمحہ مزید شدت آ تی جا رہی تھی۔ میں نے کشتی کو سنبھال تو لیا لیکن پچیس میل کے بعد دریا کو جما ہوا پایا۔ میں نے کشتی کو وہیں چھوڑا اور اپنے موٹے کپڑوں پر ایک دبیز کمبل اوڑھ کر پیدل ہی ٹلکی کے قبیلے کی طرف روانہ ہو گیا
کیمپ کی روشنیاں دور سے نظر آ رہی تھیں۔ میں اپنا منہ کمبل سے چھپائے کیمپ تک پہنچ گیا۔ کسی نے میری موجودگی کو محسوس نہیں کیا۔ ان سینکڑوں لوگوں میں مجھے ایک بھی سفید فام چہرہ نظر نہیں آیا
پارٹی زوروں پر تھی۔ چیف جارج ٹلکی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے بائیں طرف قبیلے کا روحانی پیشوا شامن اور ان تینوں کے پیچھے دوسرے قبیلوں سے آئے ہوئے سردار رنگ برنگے لباس اور پروں اور کھالوں کے ہیٹ پہنے کھڑے تھے
شامن تقریب شروع کرنے والا تھا۔ اس نے تمباکو کا ایک بیڑا سلگایا اور قبیلے کے اجداد کی روحوں کو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر شرکت کی دعوت دی۔ بچوں کی ایک ٹولی نے ڈھول کی تال پر رقص کرنا شروع کیا۔ بعد میں مرد اور عورتیں بھی رقص میں شامل ہو گئے
میں نے کمبل کا ایک کونا اٹھا کر اپنا چہرہ ٹلکی کو دکھایا۔ اس نے حیرت کا بالکل اظہار نہ کیا۔ ایسے دیکھا جیسے کہ رہی ہو کہ ’مجھے بھروسا تھا ٹامی، تو ضرور آئے گا‘
میں نے پھر سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر سرگوشی میں اس سے پوچھا ’کیا تم تیار ہو؟‘ اس نے آنکھوں کے اشارے سے سوال کیا، ’کہاں، کب؟‘
’برف کے ٹیلے کے پیچھے۔‘
کیمپ میں درجنوں کی تعداد میں سلیج کھینچنے والے ہسکی کتے تھے۔ ایک ہسکی بالکل میرے موکیشن کے ساتھ لگا بیٹھا تھا۔ دوسرا بھی میری ٹانگ کے قریب تھا۔ میں نے اپنے پارکے سے چاقو نکالا اور ساتھ والے ہسکی کی پسلیوں میں گھونپ دیا۔ جیسے ہی وہ چیخا، دوسرا کتا منہ پھاڑے میری طرف لپکا، لیکن میں نے جلدی سے زخمی کتے کو اس کے منہ پر دے مارا۔ ان دونوں ہسکیوں نے ایک دوسرے کو بھنبوڑنا شروع کر دیا۔ باقی کتے بھی لڑائی میں شامل ہو گئے۔ اب ایسی دھما چوکڑی مچی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ میں نے کن اکھیوں سے صرف اتنا دیکھا کہ ٹلکی تیزی سے برف کے ٹیلے کی طرف بھاگ رہی تھی لیکن کتوں کی لڑائی کی افراتفری میں کسی نے اس پر توجہ نہیں دی
میں نے ایک جھٹکے سے کمبل کو چہرے سے ہٹایا۔ قبیلے کے اکثر لوگ مجھے جانتے تھے اور حیران ہو رہے تھے کہ میں اچانک کہاں سے ٹپک پڑا۔ میں سیدھا چیف جارج کی طرف بڑھا اور پوچھا، ’یہ کیا ہنگامہ ہے چیف؟‘
چیف کی بجائے روحانی پیشوا شامن نے جواب دیا، ’آج ٹلکی کی شادی چیف جارج سے ہو رہی ہے۔‘
’لیکن اس کی تو پہلے ہی تین بیویاں ہیں۔‘ میں نے کہا
’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
’لیکن مجھے تو آسمانی روحوں نے بتایا ہے کہ وہ ٹلکی کو چیف کی باندی نہیں بننے دیں گی۔‘
میں نے شامن کے ذہن میں وہم کا بیج بو دیا تھا۔ چیف کا ہاتھ پیٹی میں بندھے خنجر کی طرف بڑھا لیکن شامن نے اشارے سے اسے منع کر دیا
جیسے ہی میں نے بلند آواز میں آسمانی روحوں کا ذکر کیا، مجموعے پر ایک سناٹا چھا گیا۔ رچرڈ، تم تو جانتے ہو یہ قبائلی کس قدر وہمی ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں گورے لوگوں میں شیطان کا خون ہوتا ہے اور ان کے قابو میں شیطانی قوتیں ہوتی ہیں، جن سے وہ جو چاہے کام لے سکتے ہیں
میں نے اپنا پائپ سلگایا اور اس کا دھواں اڑاتے ہوئے ایسے دیکھا جیسے آسمان پر مجھے کوئی شبیہ نظر آ رہی ہے۔ میرے دونوں ہاتھ بادلوں کی طرف تھے اور میں ٹلکی کو ایسے پکار رہا تھا، جیسے وہ پرندہ بن کر بادلوں کے پار میری آواز سن رہی ہو۔ ٹلکی ی ی۔۔۔۔ میں نے جنگلی جانوروں کی طرح چنگھاڑتے ہوئے آواز دی، ٹلکی ی ی ی ی ی۔۔۔۔۔ اب ماؤں نے ڈر سے بچوں کو گودوں میں چمٹا لیا تھا۔ سب خوف زدہ ہو کر انتظار کر رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے
میں اسی طرح دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے، آنکھیں نیم بند کیے آہستہ آہستہ ٹیلے کی طرف چلنے لگا۔ چیف جارج نے دوبارہ خنجر نکال کر مجھ پر حملہ کرنا چاہا لیکن شامن نے پھر اسے منع کر دیا۔ خوف سے کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا
برف کے ٹیلے کے پیچھے ٹلکی میری منتظر تھی۔ ہم کشتی کی طرف بھاگے۔ ٹلکی نے کشتی پر مردوں سے زیادہ محنت سے کام کیا۔ جیونو پہنچ کر میں پھر سونے کی تلاش میں مصروف ہو گیا۔ وہاں ہم نے سات سال اکٹھے گزارے۔ نہایت غربت کے سات سال۔ لیکن اس کے ہونٹوں سے کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔۔ اور پھر سات سال کے بعد پہلی زچگی میں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
آخری سانس تک اس نے میرا ہاتھ اپنے ٹھنڈے برفیلے ہاتھ میں تھامے رکھا تھا۔ اس رات بھی بہت سی راتوں کی طرح برف کا ایک شدید طوفان آیا تھا۔ خیمے کے پٹ مسلسل پھڑ پھڑا رہے تھے۔ فرش پر برف کی ڈھیریاں بن گئی تھیں۔ جب ہوا کا شور کم ہوتا ایک خوفناک سی خاموشی چھا جاتی، جس میں بھیڑیوں کے ہوکنے کی آواز دل کو دہلا دیتی
جب اس کا سانس اکھڑنے لگا تو اس نے کچھ کہنا چاہا۔ میں کان اس کے ہونٹوں کے قریب لایا تو وہ بہت کمزور آواز میں بولی، ’ٹامی میں تیری وفادار رہی ہوں۔ میں نے تجھے اتنا چاہا کہ کوئی عورت کسی مرد کو نہیں چاہ سکتی۔ میں تجھ سے بس ایک بات منوانا چاہتی ہوں۔ تو جب بھی شادی کرے تو سفید فام عورت سے کرنا۔ میری وجہ سے تجھے بھی لوگوں نے دوغلا کہنا شروع کر دیا ہے۔ سب تجھے حقارت سے اس لئے دیکھتے ہیں کہ تو ایک سواش، دوغلی اور کم نسل عورت کا میاں ہے۔ آج میں تجھے اس عذاب سے آزاد کر رہی ہوں۔ وعدہ کر تو جب بھی شادی کرے گا تو سفید عورت ہی سے کرے گا۔ کر نا وعدہ۔ اس سے پہلے کہ میں چلی جاؤں۔‘
میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔ منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو رہے تھے۔ روتے روتے میں نے ہاں میں سر ہلایا
ٹامی میرے ہونٹوں پر پیار کر کے اس وعدے کو پکا کر دے تاکہ میں سکون سے اپنے ماں باپ کی دنیا میں چلی جاؤں۔ جیسے ہی میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگے، اس نے آخری سانس لی اور اس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ڈھلک کر گر پڑا
۔۔۔تو رچرڈ، مجھے بھی تھوڑا بہت عورتوں کے بارے میں پتہ ہے۔“
رچرڈ پر ایک سکتہ طاری تھا۔ اس نے سوچ میں گم اپنے پائپ کو دوبارہ سلگایا۔ ٹامی نے چائے ٹین کے مگ میں ڈال کر میگی کے لئے پچھلے چولھے پر رکھ دی۔
خیمے کے پٹ ایک جھٹکے سے کھلے۔ میگی سر پر کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھر اٹھائے اندر داخل ہوئی اور نڈھال ہو کر فرش پر گر گئی۔ اس کے بالوں اور کوٹ پر برف کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ رچرڈ نے ایک مگ میں بوتل سے وسکی انڈیل کر میگی کو دی۔ جب وسکی نے اثر دکھایا تو رچرڈ نے ٹامی کو باہر آنے کا اشارہ کیا اور میگی سے کہا کہ ”ٹامی نے تمہارے کپڑے سکھا دیے ہیں۔ جب بدل لو ہمیں آواز دے دینا۔ ہم اتنی دیر باہر خیمے کی مضبوطی کے لئے ایک اور کھونٹا لگا رہے ہیں۔“
باہر نکل کر ٹامی نے کہا،
”رچرڈ اب باقی سفر کے لئے میگی کی سب دلیری نکل جائے گی۔“
”نہیں ٹامی ہماری عورتوں کی یہی دلیری تو ہے، جس نے ہمیں یہ سب کچھ کرنے کی ہمت دی۔ میگی کی خود سری اسی دلیری کی علامت ہے۔ ایسی ہی عورتیں اگلی نسلوں کو ہمت اور مردانگی دیتی ہیں۔ اس دلیری، اس خود سری کی قدر کر ٹامی۔ عورت کی قدر کر“
جب وہ خیمے میں داخل ہوئے تو میگی کپڑے تبدیل کر چکی تھی۔ اب وہ ہاتھوں میں گرم چائے کا مگ لئے چولھے کے پاس بیٹھی مسکرا رہی تھی، اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی اور وہ ٹامی کو نئی معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔