سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع حب ڈیم کی کہانی، جس کی جھیل دلکش تفریح گاہ بھی ہے

ویب ڈیسک

پاکستان میں کئی بڑے ڈیم ہیں جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں حب ڈیم بھی شامل ہے، جو حب ندی پر بنایا گیا ہے اور متعدد مقاصد کو پورا کرتا ہے۔

حب دریا پر واقع حب ڈیم پانی کا اہم ذخیرہ ہے۔ یہ ڈیم سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر 24300 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ کراچی سے تقریباً 56 کلومیٹر دور لسبیلہ اور کراچی کے اضلاع تک اس کی حدود پھیلی ہوئی ہیں۔ اپنی 857000 ایکڑ فٹ کی مجموعی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ، یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی شہر کے لوگوں کے لیے پینے کے پانی کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس ڈیم کو پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا ڈیم سمجھا جاتا ہے۔

1960ء میں حکومت نے واپڈا کو ڈیم کی منصوبہ بندی ترتیب کرنے کے احکامات جاری کئے اور 1963ء میں باقاعدہ طور پر حب ڈیم کی تعمیر کی منظوری دی گئی، اُس وقت حب ڈیم کی تعمیرات کے اخراجات کی لاگت کا جو اندازہ لگایا گیا تھا، وہ آٹھ کروڑ اڑسٹھ لاکھ روپے تھا

ڈیم کی تعمیر ستمبر 1963 میں شروع ہوئی اور 18 سال کی مسلسل کوششوں کے بعد جولائی 1981 میں مکمل ہوئی ۔ ڈیم کا بنیادی مقصد دریائے حب کے پانی کے بہاؤ کو منظم کرنا، سیلاب کو روکنا، کراچی کے قریب صنعتوں کو پانی فراہم کرنا، لسبیلہ اور کراچی کو آبپاشی کا پانی فراہم کرنا اور دریا میں ذخیرہ کرنے والے ذخائر کے طور پر کام کرنا تھا۔

اس کے ذریعے پہلی بار لسبیلہ کو 1991ء میں آبپاشی اور صنعتوں کو پینے کا پانی فراہم کیا گیا۔ حب ڈیم کی لمبائی 21360 فٹ اور مٹی کی بھرائی کی مقدار 34 کروڑ مکعب فٹ اور اس کی بلندی 151 فٹ ہے، جبکہ اِس کا بند سطح زمین سے 352 فٹ کی بلندی پر ہے اور پانی کی سطح 339 فٹ مقرر ہے۔

واپڈا کی ویب سائٹ کے مطابق ”حب ڈیم ایک بین الصوبائی منصوبہ ہے کیونکہ اس سے فائدہ اٹھانے والے دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں واقع ہیں۔ عام طور پر، آبی ذخائر کی ضبطی مون سون کے موسم میں ہوتی ہے۔ اس منصوبے کو بلدیاتی اور صنعتی مقاصد کے لیے کراچی (سندھ) کو 100 ایم جی ڈی (ملین گیلن یومیہ) پانی فراہم کرنے کے لیے اور 15 ایم جی ڈی بلوچستان کی صنعتوں کو فراہم کرنے کے علاوہ 21,000 ایکڑ اراضی (سی سی اے) یعنی 44 ایم جی ڈی، بلوچستان اور سندھ میں 1000 ایکڑ یعنی 2 ایم جی ڈی۔ اس طرح، 216,406 AF کے ذخائر کی رہائی میں سندھ کا 63.3% اور بلوچستان کا 36.7% حصہ ہے۔ یہ فراہمی 75 سال کی مدت کے لیے یقینی ہے۔“

ڈیم کے آس پاس کے علاقے کو سندھ حکومت نے 1974 میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دے دیا تھا۔ یہ کراچی کے لوگوں کے لیے ایک مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے، کیونکہ وہ ویک اینڈ پر فیملی یا دوستوں کے ساتھ پکنک اور مچھلی سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس جگہ پر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاحوں کے لیے واپڈا کا ایک ریسٹ ہاؤس بھی یہاں موجود ہے۔

حب ڈیم کی خوبصورت جھیل، اس کی نیلگوں سطحِ آب پر اڑتے اور اٹھکیلیاں کرتے حسین پرندے خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں

حب ڈیم دریائے حب پر تعمیر کیا گیا جو کہ کراچی کے قریبی بلوچستان کے صنعتی شہر حب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے حب ڈیم کہلایا۔ حب کے ملحق لسبیلہ اور دوسرے گاؤں دیہات موجود ہیں۔ حب ڈیم کے قیام کا مقصد تو بنیادی طور پر قرب و جوار کی ہزاروں ایکڑ کی زمین کو سر سبز و شاداب اور کراچی شہر کی پانی کی ضرورت کو پورا کرنا تھا۔

1984 میں پہلی مرتبہ حب ڈیم جھیل اپنی پوری گنجائش کے ساتھ بھرنے کے عمل سے گذری، جبکہ جھیل کا پانی ڈیم کی بلند ترین سطح سے صرف 9 فٹ نیچے رہ گیا تھا، ڈیم کی تکمیل کے وقت حب ندی کے بہتے پانی کو روک کر بند بنائے گئے، جس میں چار کروڑ مکعب فٹ مٹی کی بھرائی کی گئی تھی۔

حب ڈیم کا کام تقریباً سات ماہ میں 29 مئی 1979ء میں مکمل کیا گیا تھا جو کہ قابلِ حیرت تھا۔ ڈیم کو مضبوط رکھنے کے لئے پتھروں کی موٹی دیوار اور دوسری جانب روڑی اور بجری کی حفاظتی تہہ چڑھائی گئی ہے، ڈیم کا کام اس وقت کے ادارے ایم پی او نے سر انجام دیا تھا۔ حب ڈیم میں مجموعی طور پر 897000 ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ رکھنے کی گنجائش ہے جس میں 96 ہزار ایکڑ فٹ کی گنجائش حب ندی کے پانی میں بہہ کر آنے والی مٹی کے لئے ہے، گویا ساٹھ لاکھ ایکڑ فٹ آبی ذخیرہ ایسے پانی کے لئے ہے، جو استعمال میں لیا جا سکتا ہے۔

حب ڈیم میں متواتر طور پر پانی آتا رہے تو ڈیم کی گنجائش کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً تین سال کا پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، لیکن کبھی کبھار بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم میں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ حب ڈیم جھیل کی گہرائی 138 فٹ ہے، تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد گنجائش کے اعتبار سے حب ڈیم کو پاکستان کی تیسری بڑی مصنوعی جھیل کہناغلط نہیں ہوگا۔

حب ڈیم میں دیگر ڈیموں کی طرح ماہی پروری کی تمام خصوصیات موجود ہیں، یہ ڈیم صرف پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کارآمد نہیں بلکہ کراچی اور لسبیلہ کی ماہی گیری کے حوالے سے تمام ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس میں بڑی تعداد میں مختلف اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، جن میں قابل ذکر مہا شیر، رؤ، سوول، دئیا وغیرہ شامل ہیں۔

حب ڈیم سے تقریباً 14 میل کے فاصلے پر حب واٹر سپلائی کینال بھی موجود ہے، جس سے 1981ء میں پہلی بار جزوی طور پر سپلائی شروع کی گئی تھی اور ستمبر 1982ء باقاعدہ طور پر کراچی کو 89 ملین گیلن یومیہ پانی سپلائی جاری کردی گئی تھی۔ مین کینال سے نکلنے والی دوسری نہر لسبیلہ کینال کہلاتی ہے، جس کی مجموعی لمبائی سولہ میل ہے۔ اِن دو نہروں کے علاوہ ایک اور آٹھ میل لمبی چھوٹی نہر بند مراد مائینز کے نام سے جانی جاتی ہے، 1986ء کے بعد جھیل کا نظام حکومت بلوچستان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

ڈیم کو بڑے سیلابی ریلوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ڈیم کی دوسری جانب ایک راستہ (اسپل وے) بنایا گیا ہے، جس سے ڈیم کو نقصان سے بچانے کے لئے پانی کو چھوٹے ندی نالوں میں چھوڑ دیا جائے، تاکہ ڈیم کو کسی طرح کا بھی خطرہ لاحق نہ ہو سکے۔

حب ڈیم پاکستان کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے، جو ہر سال ہزاروں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ ڈیم کراچی سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اور صبح 8:00 بجے سے شام 5:00 بجے تک کھلا رہتا ہے۔

کراچی و دیگر شہروں سے لوگ فیملیز کے ساتھ یہاں وقت گزارنے آتے ہیں۔ مسحور کن ہواؤں کی آغوش میں گنگناتی حب ڈیم کی خوبصورت جھیل اور اس کی نیلگوں سطح آب پر اڑتے اور اٹھیکیاں کرتے حسین پرندے حب ڈیم کے مستقبل اور بارانِ رحمت سے مایوس لوگوں کے لئے زندگی کی نوید ہی نہیں بلکہ پروردگار کی عطا کردہ بیشمار نعمتوں کی جیتی جاگتی تصویر بھی ہے۔

ڈیم کا دورہ کرنے کا بہترین وقت مختلف عوامل پر منحصر ہے، جیسے موسم اور پانی کی سطح۔ سردیوں کا موسم (نومبر سے فروری تک)، اس صورت میں، آنے کا بہترین وقت ہوگا جب کہ موسم خوشگوار اور آرام دہ ہو۔

درجہ حرارت 15 سے 25 ڈگری سیلسیس تک ہے، جو اسے بیرونی سرگرمیوں کے لیے بہترین بناتا ہے۔ صاف آسمان اور ہلکا موسم بھی پرندوں کو دیکھنے میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرتا ہے، جو اسے پرندوں کے شوقینوں کے لیے ایک مقبول مقام بناتا ہے۔ اس وقت کے دوران، نقل مکانی کرنے والے پرندے جیسے پیلیکن، فلیمنگو اور بطخوں کو قریب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔

دورہ کرنے کا ایک اور بہترین وقت مانسون کے موسم میں، جولائی سے ستمبر تک ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ڈیم اپنی پوری صلاحیت پر ہوتا ہے، اور پانی کے بہاؤ سے پیدا ہونے والی آبشاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آس پاس کی پہاڑیاں اور مناظر سرسبز و شاداب ہیں اور موسم بھی ٹھنڈا ہے۔ تاہم، یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ شدید بارش کے دوران جانے سے گریز کیا جائے کیونکہ ڈیم کی طرف جانے والی سڑکیں خراب ہو سکتی ہیں۔

اگر آپ ہجوم سے بچنے کو ترجیح دیتے ہیں تو، آپ آف سیزن کے دوران مارچ سے جون تک جا سکتے ہیں۔ یہ ماہی گیری اور کشتی رانی کی سرگرمیوں کے لیے ایک مثالی وقت ہے کیونکہ آس پاس لوگ کم ہیں، اور آپ امن کے ساتھ علاقے کی قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

حب ڈیم کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں:

⦿ پاکستان کا تیسرا بڑا ڈیم:
حب ڈیم پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا ڈیم ہے، جو اسے مقامی لوگوں اور سیاحوں میں ایک مقبول کشش بناتا ہے۔

⦿ دلکش خوبصورتی:
ڈیم پہاڑوں اور ہریالی سے گھرا ہوا ہے، جو اسے فوٹو گرافی کے لیے بہترین جگہ بناتا ہے۔

⦿ پینے کے پانی کا ذریعہ:
یہ ڈیم کراچی شہر کے لیے پینے کے پانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ لسبیلہ ضلع میں آبپاشی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

⦿ جنگلی حیات کی پناہ گاہ:
حب ڈیم وائلڈ لائف سینکچری ایک محفوظ علاقہ ہے، جیسا کہ سندھ حکومت نے 1974 میں اعلان کیا تھا۔ یہ ایک منفرد ماحولیاتی نظام ہے جو مختلف غیر ملکی جنگلی حیات کی انواع کا گھر ہے، اور سال کے سرد مہینوں میں ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے ایک اہم مسکن کے طور پر کام کرتا ہے۔

⦿ نباتات اور حیوانات کا تنوع:
یہ علاقہ متعدد پودوں کی انواع کا گھر ہے، جن میں Acacia nilotica، Tamarix aphylla، Prosopis juliflora، اور Ziziphus mauritiana شامل ہیں۔ یہ پودے مختلف قسم کے جنگلی حیات کی انواع کے لیے خوراک فراہم کرتے ہیں، جن میں پستان دار جانور، پرندے اور رینگنے والے جانور شامل ہیں۔

⦿ ممالیا:
یہ پناہ گاہ کئی ممالیا جانوروں کا گھر ہے، جن میں ہندوستانی سرمئی منگوز، جنگل کی بلی، صحرائی خرگوش، ہندوستانی پینگولین، کالے ہرن، انڈس آئی بیکس اور ہندوستانی غزال شامل ہیں۔ یہاں گیدڑ، لومڑی، بھیڑیا یا دھاری دار ہائینا بھی پایا جاتا ہے۔

⦿ پرندے:
حب ڈیم وائلڈ لائف سینکچری پرندوں کی 200 سے زیادہ اقسام کا گھر ہے۔ اس میں کالے پنکھوں والا اسٹیلٹ، چھوٹا ایگریٹ، انڈین پانڈ بگلا، کامن کوٹ، شاویلر، اور یوریشین ویگن شامل ہیں۔ سردیوں کے مہینوں کے دوران، پناہ گاہ بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والے پرندوں کی میزبانی کرتی ہے، جیسے عظیم فلیمنگو، کالی دم والے گاڈ وِٹ، اور عام گرین شینک۔

⦿ رینگنے والے جانور:
یہ کئی رینگنے والے جانوروں کا گھر بھی ہے، جن میں انڈین کوبرا، انڈین راک ازگر، آری سکیلڈ وائپر اور اسپائنی ٹیلڈ چھپکلی شامل ہیں۔ مؤخر الذکر ایک منفرد نوع ہے، جو صرف پاکستان اور ہندوستان کے بنجر علاقوں میں پائی جاتی ہے۔

⦿ ماحولیاتی اہمیت اور اثرات:
یہ نہ صرف جنگلی حیات کی پناہ گاہ ہے بلکہ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کاربن سنک کا کام کرتا ہے، آلودگی کو جذب کرتا ہے، اور مٹی کے کٹاؤ کو روکتا ہے۔ تاہم اس ڈیم کی تعمیر سے ڈیم سے آگے حب ندی کے پانی سے زیر زمین پانی کے ذخائر حاصل کرنے والے علاقوں میں زراعت کو نقصان بھی پہنچا۔

⦿ وائلڈ لائف سینکچری:
اگر آپ حب ڈیم کے سفر کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو، جنگلی حیات کی پناہ گاہ کا دورہ آپ کے کرنے کی چیزوں کی فہرست میں ہونا چاہیے۔ آپ وہاں ہائیکنگ ٹریلز لے کر یا کسی مقامی گائیڈ کی خدمات حاصل کر کے اسے تلاش کر سکتے ہیں جو آپ کو آس پاس دکھا سکے۔ تاہم، زائرین کو جنگلی حیات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پناہ گاہ کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close