سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اور جب بھی پلاسٹک بنا ہے چاہے وہ کتنا ہی عرصے پہلا کیوں نہ بنا ہو وہ اب بھی ختم نہیں ہوا بلکہ اسی حالت میں موجود ہے
پلاسٹک جس میں ہم روزمرہ کی چیزیں خرید کر لاتے ہیں اور بغیر پرواہ کیے پھینک دیتے ہیں، پلاسٹک جس سے بنی بوتلوں میں پانی اور کولڈ ڈرنکس پیتے ہیں اور بغیر ہچکچائے ہم گاڑی کا شیشہ اتارتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں اور اگر پچھلی گاڑی والا اس حرکت پر ہارن بجا کر سرزنش کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں اس کو کیا مسئلہ ہے۔
سوشل میڈیا کے اس زمانے میں بھی اگر ہم کو پلاسٹک کے نقصانات سے آگاہی نہ ہو تو ہم سوشل میڈیا پر کچھ اور دیکھ رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والے سمندر میں ایک جال میں پھنسی چار بڑی مچھلیوں کو چھڑاتے ہیں۔
یہ جال معلوم نہیں کب سے تھا اور یہ مچھلیاں ان میں کب سے پھنسی ہوئی تھیں۔ ایک اور ویڈیو میں پلاسٹک کی تھیلی میں ایک چھوٹی مچھلی پھنسی تھی اور اس کو ان لوگوں نے اس پلاسٹک بیگ سے نکالا۔
یہ تو کسی اور ملک کی بات ہے نا۔ پاکستان میں اس قسم کی کبھی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بحیرہ عرب میں ہم مہذب شہریوں کی طرح اپنی غلاظت نہیں پھینکتے۔
بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان نے اس قسم کی اب تک سٹڈی ہی نہیں کی کہ ہماری آلودگی کی وجہ سے آبی حیات کس حال میں جی رہی ہے۔
بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ کچرے میں 25 کروڑ ٹن کچرا پلاسٹک کا ہوتا ہے جن میں پلاسٹک بیگ، بوتلیں اور کھانے کی پیکنگز وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اس 25 کروڑ ٹن میں سے 16 کروڑ 30 لاکھ ٹن یعنی 65 فیصد ساحل سمندر تک پہنچتا ہے۔
بین الاقوامی تنظیم کے مطابق آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا ہر سال سمندروں میں جاتا ہے۔ اور اگر اسی مقدار میں پلاسٹک ہمارے سمندروں میں جاتا رہا تو 2050 تک سمندروں میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک کا کچرا زیادہ ہو گا۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک پلاسٹک بیگ کو ختم ہونے میں 500 سال لگتے ہیں جبکہ وہ پلاسٹک کی بوتل جو ہم شیشے سے باہر پھینکتے ہیں اس کو ڈی کمپوز ہونے میں 300 سال لگتے ہیں۔
چلیں میں آپ کو ایک اور طریقے سے پلاسٹک کے کچرے کی سنگینی کے بارے میں بتاتا ہوں۔ پاکستان میں متوقع عمر 66 سال سے کچھ زیادہ ہے۔ یعنی اگر ہم ساڑھے سات بار پیدا ہوں اور 66 کی عمر میں مریں تو تب کہیں جا کر ایک پلاسٹک بیگ ڈی کمپوز ہو گا۔ اور ایک پلاسٹک بوتل کو ڈی کمپوز ہونے کے لیے ساڑھے چار بار پیدا ہو کر مرنا ہو گا۔
پاکستان میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک بیگ استعمال ہوتے ہیں اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ان کے استعمال میں سالانہ 15 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال پاکستان میں 33 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا بنتا ہے اور اس میں سے زیادہ تر لینڈ فلز یا جگہ جگہ زمین اور پانی میں پھیلا ہوتا ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر اس 33 لاکھ پلاسٹک کچرے کا انبار لگایا جائے تو اس کی اونچائی 16500 میٹر بنے گی۔ یعنی اس پلاسٹک کے کچرے کے پہاڑ کی اونچائی دنیا کی دوسرے بلند ترین چوٹی کے ٹو سے تقریباً دگنی ہوگی۔
پاکستان میں پانی کا ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک کے کچرے اور دیگر کچرے کا زیرِ زمین پانی میں مل جانے سے ایک بڑا خطرہ ہمیں لاحق ہے۔
کچرے کے ڈھیر تو ہم سب نے دیکھے ہی ہوئے ہیں اور اب ذرا سوچیے کہ یہ کچرا زیر زمین پانی میں مل جائے تو کیا ہوگا۔ ہم جو پانی استعمال کرتے ہیں، اس میں کچرے کے چھوٹے چھوٹے ذرات ملے ہوں گے۔
پاکستان میں 2020 میں 39 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا تھا جبکہ اس میں 70 فیصد یعنی 26 لاکھ پلاسٹک کے کچرے کو صحیح طور پر ضائع نہیں کیا گیا۔
ہمیں بھی افریقی ملک روانڈا کی طرز پر پلاسٹک کے استعمال کے خلاف مہم چلانی ہوگی۔
روانڈا نے 2008 میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد کی تھی اور کامیابی سے اس پر عملدرآمد کروایا ہے۔
روانڈا میں پلاسٹک بیگ کے استعمال پر جیل ہو سکتی ہے اور جو غیر ملکی بھی روانڈا پہنچتا ہے تو امیگریشن ہی پر اسے تمام پلاسٹک بیگز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
پلاسٹک آلودگی کے حوالے سے پاکستان میں سیاسی سنجیدگی میں ابھی وقت لگے گا لیکن کیا اس حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے پاس اتنا وقت ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔
اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ مزید سنجیدہ ہو ملک بھر میں عوام کو آگاہی دینے کی فی الفور ضرورت ہے، ایک مربوط پالیسی درکار ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور ایک بار کی مہم کافی نہیں ہوتی بلکہ پلاسٹک آلودگی کے بارے میں مہم کو وقفے وقفے اور جدید طریقوں سے چلائے جانے کا وقت آ گیا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)