واٹر گیٹ اسکینڈل میں جب نکسن کو بہ حالتِ خجالت وائٹ ہاؤس چھوڑنا پڑا تو لگتا تھا کہ کچھ تو ایسے صحافی ہیں جو جان، روزگار اور مستقبل خطرے میں ڈال کے کرہِ ارض کے طاقتور ترین ڈھانچے کو بھی کچھ دیر کے لیے سہی ہلا سکتے ہیں
بہت برسوں بعد جب جولیان اسانچ اور ایڈورڈ سنوڈن نے درپردہ اور بند کمروں کی دنیا کا بھانڈا پھوڑا اور ’وسل بلوئر‘ کی اصطلاح مقبولِ عام ہوئی تو یوں لگا گویا کوئی تو ہے جو اپنی سلامتی کی قیمت پر سیاست و سفارت کاری کے چہرے سے نقاب نوچنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
اور جب پانامہ لیکس اور اس کے فوراً بعد اس نوعیت کی متعدد لیکس کے ذریعے لاکھوں خفتہ و خفیہ دستاویزات کا انبار سوشل میڈیا پر لاد دیا گیا تو ہم جیسے لال بھجکڑوں کو امید ہو چلی کہ کس نے کیا کہاں سے کس جائز و ناجائز طریقے سے کمایا، رفتہ رفتہ سب سامنے آ جائے گا۔ اب جمع کرنے والے بھی مزید محتاط ہو جائیں گے اور جن سادہ لوح کروڑوں کو طرح طرح سے لوٹا جا رہا ہے، وہ بھی نسبتاً اور باشعور ہو جائیں گے۔
لیکن دن گزرتے گئے اور آہستہ آہستہ اقبال کا یہ شعر کھلتا چلا گیا،
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے،
عشق بے چارا نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم۔۔
دنیا کم و بیش ویسی کی ویسی ہی رہی۔۔ جن جن کا بھانڈا پھوٹا، وہ پہلے سے اور شیر ہو گئے۔ پانامہ لیکس کے بعد بھی بس چند ایسے ممالک میں زرا دیر کے لیے ہنگامہ خیزی اور اکھاڑ پچھاڑ ہوئی، جہاں پہلے ہی سے احتسابی نظام میسر ہے۔ معدودے چند معاشروں کو چھوڑ کے باقی دنیا کا پرنالہ وہیں بہتا رہا، جہاں طاقت ہی ہمیشہ سے جج بھی ہے اور جلاد بھی۔
پتہ یہ چلا کہ ایسے بھانڈے پھوٹنے کی گونج چند روز سنائی دیتی ہے۔ جیسے برف کا بلاک تھوڑی دیر کے لیے ٹوٹتا ہے مگر کچھ ہی دیر بعد دوبارہ جڑ جاتا ہے۔ ایسے انکشافات سے جنم لینے والی بحث اور بے چینی کو اس چابکدستی سے موڑا جاتا ہے کہ بس قصہ اور قصے کی تلچھٹ باقی رہ جاتی ہے۔ جنتا جناردھن کی توجہ کا رخ موڑنے کے لیے اچانک سے ایک نیا بحران تخلیق ہو جاتا ہے، کوئی اور پنچنگ بیگ سامنے کر دیا جاتا ہے اور کہیں سے نیا شاخسانہ نمودار ہو جاتا ہے۔
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر،
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا (علیم)
جو جو مذکورہ لیکس کے ساتھ ہوا، وہی سوشل میڈیا کے ساتھ بھی ہوا۔ یہ ٹھیک ہے کہ شروع شروع میں لگتا تھا کہ جن کی آواز کوئی نہیں سنتا، ان کی بےآوازی کو ایک عالمگیر پلیٹ فارم مل گیا ہے۔ جب ریاست کو اس کی اہمیت کا احساس ہوا تو پھر اس پلیٹ فارم کو بے لگامی سے بچانے کے نام پر ریگولیشنز بننے شروع ہوئے۔ چند ممالک میں یہ قواعد و ضوابط اس احتیاط سے وسیع عوامی مشاورت کے ساتھ بنائے گئے کہ بے راہ روی سے بھی بچا جا سکے لیکن آزادیِ اظہار کی حرمت بھی برقرار رہے۔
مگر جہاں جہاں آمریت، فسطائیت اور نرگسیت پر مبنی نظام کی جڑیں دھرتی کے سینے میں اندر تک اتری ہوئی ہیں، وہاں وہاں سوشل میڈیا کے زریعے دماغوں پر کنٹرول کے بھی نت نئے گر برق رفتاری سے سیکھ لیے گئے۔
آج یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ پلیٹ فارمز اصل مدعوں کی تہہ تک پہنچنے اور ناپسندیدہ انکشافات کو عام کرنے کے لیے زیادہ برتے جا رہے ہیں یا پھر ضوابط کی آڑ میں سچائی کا گلا گھونٹنے یا اسے مشکوک بنانے یا آدھے سچ میں پورا جھوٹ ملا کے ایک من پسند آمیزہ دماغوں میں اتارنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
اس پس منظر میں اگر میں صرف اپنے ہی ملک کو دیکھوں تو اکیسویں صدی کے شروع سے دو ہزار اٹھارہ تک بات کہنے اور سننے کی جو تھوڑی بہت آزادی محسوس ہوتی تھی، گزشتہ پانچ برس میں اسے بھی دیدہ و نادیدہ زنجیریں پہنا دی گئی ہیں۔ یہ کام ان سیاستدانوں کے ہاتھوں رضاکارانہ یا بالجبر بخیر و خوبی انجام پایا کہ جو خود ہر دور میں ہر طرح کی ماریں کھا چکے ہیں۔
اگر بات کو میں مزید محدود کر کے صرف اس پارلیمنٹ پر مرکوز کر دوں کہ جس کی طبعی عمر ابھی ابھی پوری ہوئی ہے تو سوائے اس کے اور کوئی خوبی نظر نہیں آتی کہ اس نے بھی دو ہزار دو کے بعد وجود میں آنے والی گزشتہ تین پارلیمانوں کی طرح اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔
مگر بیس برس میں ان چاروں پارلیمانوں نے نو وزیرِ اعظم دیکھے۔ سب نے ناہموار جاری نظام کی حتی المقدور خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ پھر بھی کوئی ایک خدا کا بندہ بھی بادشاہ گروں کا اتنا اعتماد حاصل نہ کر سکا کہ پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ خود بھی پانچ برس اپنی گدی پر ٹکا رہ سکتا۔ حتیٰ کہ وہ بھی نہیں جم سکے جو خود کو بادشاہ گروں کا سب سے زیادہ چہیتا سمجھتے تھے اور وہ بھی نہیں کہ جن کی شکلوں سے بیزار ہو کے سیاسی مارکیٹ میں ایک نئی پیشکش متعارف کروائی گئی۔
یہ ری سائیکلنگ آج سے نہیں پچھتر برس سے جاری ہے۔ پھر بھی شاہ گروں کو لاحق ایک مسلسل انہونا ڈر ضوابط در ضوابط پنجرہ بنانے کے باوجود نہیں جاتا۔
ایسی وفادار پارلیمنٹ کبھی نہیں آئی، جس نے صرف چالیس دن میں کورم کا تکلف برطرف کرتے ہوئے بنا پڑھے قانون سازی کی سنچری بنا ڈالی اور اپنا سر پلیٹ میں رکھ کے پیش کر دیا۔ اگر کوئی فائدہ ہوا تو بس اتنا کہ فیض یابی سے باریاب لوگوں نے اپنے اپنے مالیاتی گناہوں کی صفائی کروا لی۔ اور اب ان کے احتساب کی باری ہے، جنہیں باقی سب کے احتساب کے لیے لایا گیا تھا۔
سنتے ہیں کہ یو پی کے پرانے جاگیر دار اپنے حریفوں پر دبدبہ برقرار رکھنے کے لیے انہیں کھلے عام چماروں سے پٹواتے تھے۔ اب سیاست کاروں کو سیاست کاروں سے جوتے لگوانے کا دور ہے اور پھر یہ بارِ دگر کپڑے جھاڑ کے اسی کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں، جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہی ذبح بھی کرے، وہی لے ثواب الٹا۔انگریزی میں اس مرض کو اسٹاک ہوم سنڈروم کہا جاتا ہے۔ اردو میں جانے کیا کہتے ہیں؟
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)