ایک دور تھا، جب پاکستان کے شمالی علاقوں میں سوات، کالام، ناران، چترال، دیر اور دیگر علاقے دنیا بھر سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ جن میں اکثریت ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیاں سر کرنے کی شوقین ہوتی تھی
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ امن امان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے کئی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کم ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی سیاحت کے شعبے پر منفی اثرات مرتب کیے اور سیاحتی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں
اس کے بعد رہی سہی کثر کرونا وبا نے پوری کر دی۔ پچھلے چند سالوں میں یہاں سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس گراوٹ سے سب سے زیادہ مقامی افراد متاثر ہوئے، جن کا روزگار سیاحت سے وابستہ ہے
ان سارے عوامل کے ساتھ سیاحت کے شعبے کے حوالے سے حکومتی عدم توجہی بھی سیاحت کی تباہی کا ایک کلیدی عنصر رہا۔ خیبرپختونخوا میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو یہ پہلا موقع تھا، جب سیاحت کے شعبے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی گئی اور ایکو ٹورزم اور کیمپ ولیجز منصوبوں کے ذریعے اسے بحال کرنے کی کوشش کی گئی
اس سلسلے میں خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے یونائیٹڈ نیشن ڈیویلپمنٹ فنڈز (یواین ڈی پی) کے تعاون سے سن 2017 میں صوبے کے دس دلفریب مقامات پر ٹورسٹ کیمپ ولیجز کے قیام کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے علاوہ سیاحوں کی مدد اور رہنمائی کے لیے ٹورازم پولیس بھی متعارف کرائی گئی
ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور یہاں سیاحوں کی آمد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2023 میں شمالی علاقہ جات میں ایک مرتبہ پھر سیاحتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے تین ماہ میں تقریباً سات لاکھ سیاحوں نے ان علاقوں کا رخ کیا ہے، جن میں بیرون ملک سے آنے والے افراد کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شامل ہے
سیاحتی سرگرمیوں میں تیزی کی ایک بڑی وجہ یو این ڈ ی پی کے تعاون سے خیبر پختونخواہ میں دس مقامات پر ”ٹورزم کیمپ ولیجز‘‘کا قیام ہے۔ جدید سہولیات سے آراستہ یہ کیمپنگ پوڈز پاکستان میں ایکو ٹورزم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ایکو ٹورزم کے بارے میں انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اسٹڈیز ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور سے وابستہ محقق محمد اسرار کا کہنا ہے کہ ایکو ٹورزم کی اصطلاح دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہے، جس کا مطلب سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے ساتھ دلفریب مقامات کا تحفظ یقینی بنانا ہے
وہ کہتے ہیں کہ انسانی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں سے فطرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، لہٰذا دنیا بھر میں حکومتیں ایسے سیاحتی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں، جن سے ایکوسسٹم کی حفاظت میں بھی مدد مل رہی ہے
محمد اسرار کے مطابق پاکستان میں حکومتی سطح پر سیاحت کے شعبے میں اصلاحات اور درست پالیسیوں کا فقدان ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں نجی شعبے کی معاونت سے کینیا، بھارت اور پیرو کی طرز کے سیاحتی ماڈل بنانے کی ضرورت ہے، جو ان ممالک کی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ مقامی افراد کو ذاتی کاروبار سیٹ کرنے میں مدد بھی فراہم کرتے ہیں
خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے یونائیٹڈ نیشن ڈیویلپمنٹ فنڈز ( یواین ڈی پی) کے تعاون سے سن 2017 میں صوبے کے دس دلفریب مقامات پر ٹورسٹ کیمپ ولیجز کے قیام کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ یو این ڈی پی کے ایک ترجمان کے مطابق یورپیئن طرز کے ٹورسٹ پوڈز کا قیام پاکستان میں ایک نیا آئیڈیا تھا، جس سے یہاں ماند پڑتی سیاحتی سرگرمیاں بحال ہوئی ہیں
یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ تین سو ملین روپے کے سرمائے سے شروع کیے جانے والے اس منصوبے کا ایک اور مقصد مقامی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی تھا، جس میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی۔ اب تک سوات، چترال، بونیر، بٹگرام، اپر اور لوئر دیر میں دس مقامات پر ٹورسٹ ولیجز قائم کئے گئے ہیں۔ ہر کیمپ میں دس ٹورسٹ پوڈز بنائے گئے ہیں جو اٹیجڈ واش روم، کچن اور دیگر جدید سہولیات سے آراستہ ہیں
ان کیمپ ولیجز کے قیام کے بعد دنیا بھر سے نجی شعبے نے بھی ان علاقوں میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا ہے۔ متعدد این جی اوز سیاحوں کو کھانے، سفر اور قیام کی دیگر بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے مقامی افراد کے کاروبار میں بھی مالی معاونت کر رہی ہیں، جس سے صوبے کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں
خواجہ اشتیاق احمد سفر کے شوقین ہیں اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا چپہ چپہ چھان چکے ہیں۔ وہ چند دن پہلے ہی وادی نیلم میں پتلیاں جھیل کے قریب قائم بیس کیمپ میں قیام کر کے لوٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں ٹینٹ ولیج سیاحوں کو بہترین سروسز فراہم کر رہا ہے جن میں ہر طرح کی ورائٹی کے خوش ذائقہ پاکستانی کھانوں نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا
خواجہ اشتیاق کے مطابق لوات ہالہ سے پتلیاں جھیل تک سڑک کو جدید مشینری کے ذریعے ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے حالیہ سیزن میں مکمل بحال کر دیا گیا ہے۔ اشتیاق مزید بتاتے ہیں کہ بہتر سہولیات سے یہاں سیاحتی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پختہ روڈ اور بجلی کی دستیابی سے مقامی افراد کی حالت بھی پہلے سے بہتر ہو رہی ہے
صوفیہ کاشف معروف سفر نامہ نگار اور بلاگر ہیں۔ وہ کئی سال ابوظہبی اور دبئی میں گزار کر وطن لوٹی ہیں۔ صوفیہ کہتی ہیں ”سوات، ناران اور کاغان اپنی خوبصورتی اور موسم کی وجہ سے کسی دوسری دنیا کا نظارہ معلوم ہوتے ہیں، مگر جتنی یہاں خوبصورتی ہے اتنے ہی یہ علاقے اور مقامی افراد بے توجہی کا شکار ہیں۔ سوات میں لالہ زار اور سیف الملوک جھیل کے راستے تباہ حال ہیں، جنہیں محفوظ اور ہموار کرنے کی ضرورت ہے“
صوفیہ مزید کہتی ہیں کہ جدید طرز کے ہوٹلوں اور کیمپ ولیجز کی وجہ سے باہر کا سرمایہ دار تو ان علاقوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے مگر مقامی لوگوں کے پاس بجلی تک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی غیر ذمہ دارانہ سیاحتی سرگرمیوں کے باعث ان علاقوں میں زمینی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی روک تھام کے لیے اقدامات اور سیاحوں میں ایکو ٹورزم کے حوالے سے آگاہی پھیلانا انتہائی ضروری ہے
اس حوالے سے یو این ڈی پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کیمپ ولیجز کے قیام کا منصوبہ توقع سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے اور اب تک اس کے تین فیز مکمل کئے جا چکے ہیں۔ اس سے ان علاقوں میں ماحول، ایکو سسٹم، مقامی کلچر اور علاقے کی قدیم تاریخ کے تحفظ میں بھی مدد مل رہی ہے
ان علاقوں میں تعلیم کی کمی کی باعث ایکو ٹورزم کے حوالے سے شعور و آگاہی کی کمی ہے۔ ان کے مطابق اس مقصد کے لئے یہاں نوجوانوں کے ٹریننگ سیشنز منعقد کئے جا رہے ہیں، جن میں انہیں ایکو ٹورزم سے متعلقہ کاروبار کے قیام اور سیاحوں کو بہتر ایکو فرینڈلی سروسز فراہم کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں مقامی افراد میں تحفظ ماحول سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لئے بھی سیشنز کا آغاز کیا گیا ہے۔