”تم بڑے آدمی بن گئے ہو۔“ یہ جملہ روائتی سا جملہ ہے، جو کسی پہ طنز کرنا ہو تو بولا جاتا ہے۔ مجھے بھی اتفاق سے یہ سننے کو ملا تو تب سے سوچ رہا ہوں یہ طنز ہے کہ تعریف، یا گالی؟
خیر کسی کی نیت کو جج کیئے بغیر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بڑا آدمی کون ہوتا ہے؟ ہمارے دیسی معاشروں میں بڑا آدمی وہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس بڑی گاڑی ہو، محل ہو، بینک اکاؤنٹ ہو، بڑے بزنس ہوں، جس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ لوگ اپنی ضرورت یا مدد جیسے کہ بیماری، پولیس یا کسی فیصلے کے لیئے ان سے رجوع کر سکیں۔ دانشوروں، سیاسی اور سماجی ماہروں کی نظروں میں بڑا آدمی وہ ہے، جس کے پاس علم ہو یا اپنے فیلڈ میں جس نے بڑے بڑے معرکے سر کیئے ہوں، ادبی سیاسی میدان میں جس کے پاس بہت تجربے ہوں، کتابوں کا مصنف ہو، یا کہ جس نے عمل سے معاشرے تبدیل کیئے ہوں، جس کے پاس کہنے، لکھنے، کرنے کو بہت کچھ ہو، جس سے لوگ متاثر ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ میں کیا ہوں، آیا میں ان میں سے کسی بھی تعریف پر پورا اترتا ہوں کہ نہیں؟ بلکل نہیں! میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، میں ابھی زندگی کے سفر میں عمل کے میدان میں ہوں، ابھی تجربے کی کسوٹی میں جل رہا ہوں، کہیں غلط ہوں کہیں صحیح، یہ اب تاریخ کو طے کرنا ہے کہ میں کیا ہوں، اور یہ میرے جانے کے بعد طے ہوگا۔ ویسے اپنا تجزیہ کرنے کا مجھے حق تو حاصل ہے۔
میں کیا ہوں اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ مجھے اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں ابھی تک کی زندگی میں ایک ناکام انسان ہوں، میں وہ انسان ہوں جو نہ پیسہ کمانا جانتا ہے نہ ہی انسان، میرے اپنے لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں، نکما کہتے ہیں، بےوقوف سمجھتے ہیں۔ جس نے جو بھی کاروبار کیا، ناکام رہا ہے۔ جو بھی کام کیا، ادھورا کیا۔۔ کوششیں ہمیشہ رائیگاں گئی، ابھی حال میں ایک کاروبار میں ناکام ہو کر بےروزگار ہو کر خود کو بہلا رہا ہوں، پھر سے کوشش کر رہا ہوں کہیں کوئی کام ملے، اب ایسا انسان اگر بڑا انسان ہے تو کیا کہنے۔
کہنے کو ایک سیاسی کارکن ہوں مگر جس کے دامن میں ابھی تک کوئی ایسی کامیابی نہیں، جسے وہ لوگوں کو سامنے رکھ کر کہہ سکے کہ ہاں یہ میری کامیابی ہے۔ ویسے اپنی خوش فہمی کے لیئے میں بہت ساری کامیابیاں گنوا سکتا ہوں مگر میں اندر سے جانتا ہوں وہ میری کامیابیاں نہیں ہیں یا تنہا میں خود کریڈٹ نہیں لے سکتا۔ ہاں خود کو زمین سے جُڑا مانتا ہوں، اور زمین سے جڑے لوگوں سے خود کو جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں، انہی کے لیئے سیاست کر رہا ہوں، انہی کی بقا کی تحریک کے ساتھ جڑا ہوں، ایک سیاسی تنظیم کا رکن ہوں، اس حیثیت سے مجھ پہ تنقید بنتی ہے، ہوتی ہے اور ہوگی۔
میں نے ہمیشہ عزت احترام کی سیاست کی ہے، کبھی کسی فرد کسی گروہ کی خوشی کے لیئے سیاست نہیں کی۔ عزت اور احترام دے کر اپنے کاز کے لیئے کام کیا، خود کو تنازعات سے بچا کر سیاسی کام کیا، بنا کسی لالچ کسی چاپلوسی کے جو صحیح سمجھتا تھا، اپنے لوگوں کے لیئے اپنے مقصد کے لیئے وہ کام کیا۔ کوئی مجھ سے جڑ کر میرے مقصد کے لیئے میرے ساتھ چلا، اسے عزت دی۔ جس نے مجھ سے کنارہ کشی کی، میں نے کبھی بھی اس کا گلہ نہیں کیا۔ کبھی کسی کے سیاسی فیصلوں پہ اپنا تجزیہ نہیں دیا، ہاں اگر ضروری سمجھا تو رائے ضرور دیتا ہوں، جو غلط ہو سکتی ہے اور غلط صحیح انسان سے ہوتا ہی ہے، وہی مجھ سے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ میں بھی انسان ہوں سو فیصد صحیح کبھی بھی نہیں ہو سکتا، جہاں غلط ہوتا ہوں۔۔ غلطی ماننے میں دیر نہیں کرتا۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں کوئی بھی انسان غلطیوں سے مبرا نہیں، اس لیئے اگر کوئی اپنی غلطی مان لے تو قبول کرتا ہوں، یہی اصول اپنے لیئے ہیں، دوسروں کے لیئے بھی۔
ہمیشہ اپنا وقت اپنے پیسے لگا کر سیاست کی ہے، کبھی سیاست سے کمانے کی کوشش نہیں کی۔ ابھی بھی بےروزگار ہو کر کچھ کام کیا ہے، وہ بھی قرض لے کر جو مجھے چکانا ہے۔ یہ قرض میں نے اپنی ذات کے لیئے نہیں لیئے بلکہ جس تحریک کے ساتھ جڑا ہوں، اس کے لیئے ہیں۔ کہا نا اگر میں اپنی خوش فہمی کے لیئے اگر برائے نام سہی کامیابیاں گنواؤں تو وہ تنہا میری نہیں ہیں، اس میں ٹیم ورک شامل ہے۔ سلمان، اختر، کاظم، عمران، عبیرا اشفاق اور بہت سارے دوست، جو ہماری ٹیم کا حصہ ہیں، ان کی کامیابیاں ہیں۔
ہم نے ہمیشہ مل کر کام کیا، مل کر بات کرتے ہیں، ہنستے ہیں، لڑتے ہیں، ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں، غلطیاں ہوں تو معذرت کرتے ہیں، چونکہ مل کر کام کرتے ہیں، جہموری طریقے سے فیصلے کرتے ہیں، اس لیئے یہ کریڈٹ ان سب کو جاتا ہے۔ میں قرضدار بھی ان کا ہوں، جو اس مشکل وقت میں میری مدد کرتے ہیں، میرے کاز سے جڑے ہیں، جو مجھے لیڈ کرتے ہیں، ورنہ میں کہاں اور تحریک کہاں۔۔
میں کیسے بڑا آدمی بن گیا؟ میں تو ابھی بھی کاٹھور کے ایک گاؤں کا وہی عام سا دیہاتی ہوں، جسے شاید ڈھنگ سے بولنا نہیں آتا، جس کے پاس کوئی تعلیمی سند نہیں، جس کی کوئی حیثیت نہیں، جس کی کوئی اہمیت نہیں۔ جو کل لالہ یوسف مستی خان کے ساتھ کھڑا ہو کر اتراتا تھا، یہ لالہ کی عظمت تھی، جس نے مجھے مان دیا عزت دی۔۔ جو آج اختر رسول، سلمان بلوچ، ایڈوکیٹ کاظم مہیسر، ایڈوکیٹ عمران بلوچ اور پروفیسر عبیرا اشفاق کے ساتھ کھڑا خود کو معتبر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ ان سب دوستوں کی مہربانی ہے، جو مجھے مان دیتے ہیں عزت دیتے ہیں۔ اپنی اسی ٹیم کی وجہ سے دام درمے قدرے سخنے اپنا ایک سیاسی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آخری بات جو لکھنا ضروری ہے، کہ میں جس معاشرے میں رہتا ہوں، وہاں بڑے آدمی کی جتنی خوبیاں ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی میرے پاس نہیں، نہ گھر نہ گاؤں نہ ہی پورے ملیر میں میری حیثیت ایک بڑے آدمی سی ہے۔۔ جو عزت کمائی ہے، وہی میرے لیئے کافی ہے، اسی کو اپنا اثاثہ سمجھتا ہوں، بس اسی کو برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔
تاریخ میرے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے، میرے آس پاس لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیا طے کرتے ہیں، میرے پڑھنے والے میرے ان الفاظ سے میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم۔۔ مگر یہ الفاظ میں نے اپنے لیئے لکھے ہیں جو میرا سچ ہے، میرے لیئے بس اتنی سی بات تھی ہے اور رہے گی۔