نو مئی واقعات کے بعد پولیس کے کریک ڈاؤن میں گرفتار کیے گئے 14 سالہ بچے ارسلان نسیم اور اس کے خاندان پر پنجاب پولیس نے ظلم کی انتہا کردی
14 اگست سے سوشل میڈیا پر ایک واقعے کی تفصیلات گردش کر رہی ہیں، جس میں کئی صحافیوں کا کہنا ہے کہ لاہور میں ایک چودہ سالہ بچے ارسلان نسیم کو ضمانت کے باوجود پولیس نے دوبارہ 9 مئی کے واقعے کے تناظر میں گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے
رپورٹس کے مطابق لاہور میں پولیس جب 14 سالہ پی ٹی آئی سپورٹر کو رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرنے آئی۔ گھر سے بچہ برآمد نہ ہونے پر پولیس نے اس کے والد محمد نسیم کو حراست میں لیا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ تشدد کی وجہ سے ہارٹ اٹیک سے ان کی موت واقع ہو گئی تاہم پولیس ان خبروں کی تردید کر رہی ہے
ذرائع کے مطابق 14 سالہ بچے ارسلان نسیم کو 9 مئی واقعات کے بعد 3 ماہ قبل گرفتار کیا گیا تھا جو رہائی ملنے پر اپنے گھر پہنچا تھا۔ پولیس اہلکار 14 سالہ بچے ارسلان نسیم کو دوبارہ سے گرفتار کرنے کے لئے اس کے گھر آ گئی، جس پر ارسلان نسیم کے والد نے مزاحمت شروع کر دی
پولیس اہلکاروں نے ارسلان نسیم کے گھر رات 3 بجے ریڈ کیا، ارسلان نسیم کے والد بیٹے کی دوباری گرفتاری کے لیے مارے جانے والے چھاپے کے دوران ہارٹ اٹیک سے جاں بحق ہو گئے، جن کی لاش کو اس کے گھر والوں کو واپس دیتے ہوئے کہا کہ بچے کو ہمارے حوالے کرو۔ پولیس نے ارسلان نسیم کے والد کا جنازہ پڑھانے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کے خاندان کو فوری طور پر دفنانے کا حکم دے دیا
سوشل ایکٹیوسٹ اور وکیل خدیجہ صدیقی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ”لاہور میں 14 سال کےارسلان کو پرسوں تین ماہ بعد رہائی ملی ابھی گھر پہنچا تھا، پولیس آ گئی پھر لینے، یہ دیکھ کر والد کو ہارٹ اٹیک ہوا، وہ فوت ہوگیا۔ وفات پانے والا پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے (ارسلان) کا واحد کفیل تھا“
ارسلان نسیم گلبرگ ٹو میں واقع اتحاد کالونی میں رہتے ہیں۔ ان کے والد محمد نسیم سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتے تھے، جبکہ ارسلان خود پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں
پولیس اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق ارسلان نسیم جن کی عمر 13 سال ہے، ان کو پولیس نے 21 جون کو لاہور کے علاقے گلبرگ سے حراست میں لیا۔ اس کے بعد ان کو عسکری ٹاور حملہ کیس میں نامزد بھی کر دیا۔ پہلے شناخت پریڈ اور بعد ازاں جسمانی ریمانڈ پورا کرنے کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا
عدالت میں پراسیکیوشن کی طرف سے دیے گئے بیان کے مطابق ارسلان نسیم کے موبائل فون سے ایسا مواد نکلا ہے، جس سے ’اس بات کو تقویت ملتی ہے‘ کہ وہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے۔
دوسری طرف ارسلان نسیم کی ضمانت کے لیے لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا انتظار نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ان کا دفاع کیا
رانا انتظار کا کہنا ہے ”میں نے یہ مقدمہ مفت لڑا کیونکہ میرے علم میں بات آئی تھی کہ یہ بچہ ان معاملات میں ملوث نہیں ہے۔ ہم نے عدالت میں یہ بات بھی ثابت کی کہ ارسلان کی عمر بہت کم ہے اور اس کا ٹرائل بھی بچوں کے لیے بنائی گئی عدالت میں کیا جائے۔ کم عمری ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 اگست کو ان کی ضمانت منظور کر کے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا“
رانا انتظار بتاتے ہیں ”جس دن ارسلان کی رہائی ہوئی تو وہ اپنے گھر جانے کے بجائے کہیں اور چلے گئے، جس کے بعد اسی شام پولیس نے ان کے گھر چھاپا مارا۔ ارسلان کے گھر پر نہ ہونے کے سبب انہوں نے اہل خانہ کو کہا کہ اسے ہر صورت پیش کیا جائے۔ اگلے روز دس اگست کو دوبارہ ان کے گھر ریڈ کی گئی اور توڑ پھوڑ کی ان کے والد کی طبیعت بگڑ گئی، جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے“
سوشل میڈیا پر خبر آنے کے بعد لاہور پولیس نے ’پولیس ذرائع‘ کا حوالہ دے کر اس بارے میں ایک بیان جاری کیا ہے۔ پولیس کے بقول ”پولیس ذرائع نے سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم کے بارے وائرل ہونے والی ایک پوسٹ جس میں یہ ’غلط تاثر دیا گیا ہے‘ کہ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والد ہلاک ہوگئے ہوئے، کو پروپیگنڈا، من گھڑت کہانی، حقائق کے منافی اور بے بنیاد قرار دیا ہے ’پولیس ذرائع‘ کے مطابق ’تشدد والی بات‘ بالکل جھوٹ ہے“
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پولیس کی طرف سے جاری بیان کے علاوہ لاہور کا کوئی افسر اس واقعہ پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ خود پولیس کے اس بیان میں کسی افسر کے بجائے ’پولیس اپنے ذرائع کے ذریعے‘ سے بیان جاری کر رہی ہے جو مزید شکوک و شبہات کا باعث ہے
پولیس نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی صرف تشدد کی حد تک تردید کی ہے کہ ’ارسلان کے والد کی تشدد سے ہلاکت نہیں ہوئی‘ البتہ دیگر الزامات پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی
رانا انتظار کا کہنا ہے کہ پولیس نے خاندان کے افراد کو بلا وجہ ہراساں کیا ہے، خواتین کے ساتھ بھی بدسلوکی کی ہے۔ ”ہمارا سوال ہے کہ جب اس بچے کی ضمانت ہو گئی تھی تو پولیس اس کو دوسرے کسی مقدمے میں کیوں گرفتار کرنا چاہتی تھی؟ اگر وہ طاقت کا بے دریغ استعمال نہ کرتے تو صورت حال مختلف تھی“
اتحاد کالونی کے عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے گھر پر دو روز میں چار ریڈز کیے اور گھر والوں کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آئے۔ تشدد کے الزامات کی تصدیق البتہ اہل علاقہ بھی نہیں کر رہے
ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”پولیس کی ریڈ کے بعد یہ لوگ گھر چھوڑ گئے تھے۔ رات کو جب دوبارہ پولیس چار گاڑیوں میں آئی تو گھر کا دروازہ توڑ کر اہلکار اندر گئے اور توڑ پھوڑ کی“
انہوں نے بتایا ”جب نسیم صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں وہ دم توڑ گئے، اس کے بعد پولیس نے تدفین کا عمل فوری کرنے کا حکم دیا۔ اور تین گھنٹے کے اندر اندر انہیں دفنا دیا گیا“
ارسلان نسیم خود کہاں ہیں، ابھی اس بارے کسی کو علم نہیں جبکہ ان کی والدہ اور بہنیں بھی روپوش ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی ایک بہن سے منسوب آڈیو بیان چلایا جا رہا ہے، جس میں وہ اس رات پیش آنے والے واقعات کی تفصیل بتا رہی ہیں
لاہور پولیس کے وضاحتی ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ پولیس حقائق کی بجائے ذرائع پر کب سے انحصار کرنے لگی؟ کوئی کام تو ڈھنگ سے کرلیا کریں۔ سوشل میڈیا صارفین نے مزید کہا کہ کیا ایک 14 سال کے بچے کو جیل میں رکھنا قانونی تھا؟ عدالت سے ضمانت کے باوجود دوبارہ چھاپے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پولیس کے ٹویٹ کے جواب میں معروف سماجی کارکن جبران ناصر لکھتے ہیں ”آپ ادھر ادھر بات نا گھمائیں اور ان سادے سے سوالات کا جواب دیں کہ کیا ارسلان نسیم کہ عمر 14 سال ہے؟ کیا آپ نے اسے 9 مئی کے حوالے سے گرفتار کیا؟ کیا اس 14 سال کے بچے کو رہائی 3 مہینے بعد ملی؟ کیا آپ نے اسے رہا ہونے کے بعد پھر گرفتار کیا؟“
جبران ناصر نے مزید کہا کہ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں ہے، تو ارسلان کے خاندان اور بالخصوص اس کے والد کو اذیت اور صدمے پہنچانے اور ان صحت اس حد تک خراب کرنے کی ذمہ دار پنجاب پولیس اور سی سی پی او لاہور نہیں تو پھر کون ہے؟
اس پر رائے ثاقب کھرل نے ردعمل دیا کہ لاہور پولیس آفیشل اکائونٹ اور آپ ہی پولیس ذرائع سے ٹویٹ کر رہے ہیں؟ کچھ تو ڈھنگ سے کر لیں
وقار ملک نے لکھا کہ پنجاب پولیس اس وقت مجرمانہ سوچ کے ساتھ چلائی جا رہی ہے موجودہ آئی جی پنجاب ایک مجرمانہ سوچ کا مالک مہرہ ہے، جسے گارنٹی دی گئی ہے کہ جتنے مرضی ظلم کرو، تمہیں کوئی چھوئے گا بھی نہیں
سلمان درانی نے ردعمل دیا کہ پولیس ذرائع؟ جناب یہ ایکسپریس نیوز کا ٹویٹر اکاؤنٹ نہیں، پولیس کا اپنا آفیشل اکاؤنٹ ہے
رحیق عباسی کا کہنا تھا ”پنجاب پولیس قاتلوں کو پولیس تھی اور ہے۔ اس ہینڈل کو چلانے والے درندہ نما انسان سے کوئی پوچھے کہ کیا یہ غلط ہے کہ ارسلان 14 سال کا ہے، وہ تین ماہ قید میں رہ کر آیا اور پولیس اس کو دوبارہ گرفتار کرنے پہنچ گئی تھی۔ ظالمو ایک والد کے لئے اس سے ذیادہ اور کیا تشدد ہوگا؟؟“
شاکراعوان نے لکھا کہ اس کا مطلب ہے کہ باقی جو باتیں ہین وہ مکمل درست ہیں
فرحان منہاج نے ردعمل دیا کہ پولیس کے آفیشل اکاؤنٹ سے بھی پولیس ذرائع سے معلومات دی جارہی ہے ـ او بھائی! متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کی ریورٹ کا حوالہ دے کر بتاتے تو مانتے بھی۔ افسوس!“
احمد سید نے لکھا ”تم کعبے کی چھت پہ بھی کھڑے ہو کر کہو کہ تم سچے ہو، تمہارا پھر بھی ہم یقین نہیں کریں گے۔“
ارم زعیم نے لکھا کہ کیسے 14 سال کے بچے کو تین ماہ جیل میں رکھا گیا؟ جب رہا ہوا تو کیوں دوبارہ گرفتار کرنے پہنچ گئے؟ کیوں ارسلان کے والد کو دل کا دورہ پڑا؟اور کتنے بچے جیلوں میں قید ہیں؟ اور کتنے گھر برباد کرنے ہیں؟ کب تک حرام کھانا ہے؟ کب تک چلے کا یہ ظلم؟انسانیت ہے؟حیا ہے؟جنگلی درندے عوام کو نوچ رہے ہیں“
ادریس چاچڑ کا کہنا تھا ”سوال یہ ہے کہ آپ نے ضمانت کے بعد ان کے گھر پر دو بار ریڈ کیوں مارا؟ کیا ان کے والد کا انتقال پولیس چھاپے کے دوران نہیں ہوا؟ بے شرمو! کوئی خوف خدا ہے آپ میں یا نہیں؟“
اسلام الدین ساجد نے لکھا کہ پنجاب پولیس کے ذرائع پر اعتماد کون کرے گا؟
ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا ”تم لوگوں نے تو ظل شاہ کے قتل مقدمہ فوراً ہی کپتان پر درج کر دیا تھا، پھر حادثہ قرار دے دیا مگر ملزم ابھی تک کپتان ہی ہے۔ کپتان پر قاتلہ حملے کو مذہبی جنونیت قرار دے دیا اور ملزم کو آزاد کرا دیا اور مدعی کو جیل بھیج دیا۔ ہزاروں سیاسی ورکرز کو دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد کر دیا“
ایک صارف لکھتے ہیں ”ان لوگوں سے تو یہ بھی بعید نہیں تھا کہ بے چارے ارسلان پہ ہی والد کے قتل کا مقدمہ بنا دیتے۔ اتنا ظلم اور جھوٹ کے ایسے بے دریغ استعمال کی مثال کس اور معاشرے میں نہیں مل سکتی، جتنی اس بد نصیب ریپبلک میں ملتی ہے۔“