ماہرین اگر موجودہ دور کی جدید گاڑیوں کو ’پہیوں پر چلنے والے کمپیوٹر‘ کہتے ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں کہتے، کیونکہ ان گاڑیوں میں سو سے زیادہ کمپیوٹر اور سافٹ ویئر کوڈ کی لاکھوں لائنیں ہو سکتی ہیں۔ ان کمپیوٹروں کو ایک نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جاتا ہے، جو کسی بھی گاڑی کے قریب تمام پہلوؤں کو کنٹرول کر سکتے ہیں
لیکن ایک طرف جہاں گاڑیوں کی صنعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا ہے، وہیں کار چوروں نے بھی خود کو ’اپ ٹو ڈیٹ‘ کیا ہے، اس لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ گاڑیوں کی چوری بھی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہونے لگی ہے
واضح رہے کہ گاڑیوں میں نصب کمپیوٹروں کی چار اقسام ہیں۔ کئی کمپیوٹر گاڑی چلانے کے پہلو یا ڈرائیو ٹرین تک محدود رہتے ہیں، جیسے اس کے ایندھن یا بیٹری کو کفایت شعاری سے استعمال کرنا، اخراج کی نگرانی کرنا اور ہائی وے پر کروز کنٹرول کی آپشن کا استعمال کرنا
کمپیوٹر کی دوسری قسم گاڑی کے حفاظتی پہلو کو دیکھتی ہے۔ یہ گاڑی کے اندر اور باہر کے ماحول کی معلومات جمع کرتے ہیں اور ان میں لین کی درستگی، آٹومیٹک بریک اور بیک اپ مانیٹرنگ جیسے فیچر آتے ہیں
کمپیوٹر کی تیسری قسم انفوٹینمنٹ سسٹم چلاتی ہے، جیسے وڈیو دکھانا یا موسیقی سنانا۔ یہ سسٹم بلیو ٹوتھ کی مدد سے آپ کے سمارٹ فون کے ساتھ منسلک ہو سکتا ہے اور وائرلیس کمیونیکیشن کو ممکن بناتا ہے۔ کئی گاڑیوں میں موبائل فون کی سروسز استعمال کرنے کی سہولت ہوتی ہے اور اس میں وائی فائی بھی چلایا جاسکتا ہے۔
جبکہ چوتھی اور آخری قسم کے گاڑی کے کمپیوٹر نیویگیشن سسٹم کے لیے نصب ہوتے ہیں۔ ان کمپیوٹروں کی مدد سے کار میں جی پی ایس کا نظام چلتا ہے جو ہمیں راستوں کے حوالے سے آگاہ رکھتا ہے
ایک قسم کے کمپیوٹر کو اکثر دوسرے کمپیوٹر کے ساتھ منسلک رکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً سیفٹی سسٹم حفاظتی خدشات کے باعث ڈرائیو ٹرین اور انفوٹینمنٹ سسٹم کا کنٹرول اپنے پاس رکھتے ہیں
لیکن گاڑی کے نیٹ ورک اور کسی عام کمپیوٹر نیٹ ورک میں یہ فرق ہے کہ کار میں تمام ڈیوائسز ایک دوسرے پر اعتماد کرتی ہیں، اس لیے اگر ایک ہیکر کسی ایک کمپیوٹر پر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ کار کے کسی دوسرے کمپیوٹر تک بھی رسائی حاصل کر لیتا ہے
کچھ چوروں کے لیے گاڑیوں میں نئی ٹیکنالوجی کام کو مشکل بنا دیتی ہے جبکہ بعض کے لیے یہ کام آسان ہو جاتا ہے۔ اب گاڑیوں کی چوری کے نئے نئے طریقے سامنے آ رہے ہیں
وائر لیس چابیوں اور ’کی لیس‘ انٹری کا توڑ
کچھ نئی گاڑیوں میں کی لیس انٹری اور ریمورٹ اسٹارٹ کا جدید فیچر ہوتا ہے۔ یہ کاروں میں عام ہوگیا ہے اور اس سے آسانی پیدا ہوئی ہے
ایسے میں گاڑی کی چابی میں ایک فوب یا ڈیوائس نصب ہوتی ہے۔ مخصوص کوڈ، جو فوب اور کار کے علم میں ہوتا ہے، سے آپ اپنی گاڑی میں داخل ہوسکتے ہیں اور اسے اسٹارٹ کر سکتے ہیں، مگر یہ کوڈ آپ کو دوسری گاڑیوں کو اسٹارٹ کرنے سے روکتا ہے
کی لیس انٹری اور گاڑیوں کا لاک کھولنے والے ریمورٹ میں فرق یہ ہے کہ کی لیس انٹری فوب ہمیشہ سگنل منتقل کرتے رہتے ہیں
جب آپ کار کے قریب ہوں یا اسے چھوئیں تو کار کا لاک کھل جاتا ہے۔ پرانے ریمورٹ میں گاڑی کا لاک کھولنے کے لیے بٹن دبانا پڑتا تھا اور اس کے بعد ہی آپ چابی لگا کر گاڑی کو اسٹارٹ کر سکتے تھے، لیکن اب کی لیس فوب پہلے گاڑی کو ڈجیٹل کوڈ کا سگنل منتقل کرتا ہے اور اس کے بعد گاڑی کا لاک کھلتا ہے
چوروں نے اس کا توڑ بھی نکال لیا ہے، اب وہ یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ وہ اس ریڈیو سگنل کو سن کر ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ وہ پھر اس سگنل کی ریکارڈنگ ’ری پلے‘ کر کے کار کا لاک کھول سکتے ہیں
سکیورٹی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اب نئے کی لیس فوب گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے ون ٹائم کوڈ (یعنی ہر بار مختلف کوڈ) کا استعمال کرتے ہیں
کار چوری کے ایک دوسرے طریقے میں دو ڈیوائسز استعمال کی جاتی ہیں، جس سے فوب اور کار کے درمیان الیکٹرانک پُل بن جاتا ہے۔ ایک چور کار کے قریب جا کر ایک ڈیوائس استعمال کرتا ہے جس سے گاڑی مالک کی تصدیق کے لیے ڈجیٹل کوڈ مانگنے کا سگنل بھیجتی ہے
چور اپنے ساتھی کو یہ سگنل دیتا ہے جو کار کے مالک کے گھر کے قریب موجود ہے۔ یہ شخص گاڑی کے سگنل کی کاپی آگے منتقل کرتا ہے۔ جب کی لیس فوب کا جوابی سگنل آتا ہے تو دوسری ڈیوائس اس کو ریکارڈ کر کے اسے کار کے قریب موجود پہلی ڈیوائس تک منتقل کر دیتی ہے۔ اس سے کار کا لاک کھل جاتا ہے
چور یہ کار لے کر فرار ہو جاتے ہیں مگر جب بھی وہ اس کا انجن بند کرتے ہیں تو اسے دوبارہ نہیں چلا پاتے
گاڑیوں کی کمپنیاں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ایسے میں یہ لازم بنایا جا رہا ہے کہ گاڑی کو چلانے کے لیے کی لیس فوب اس کے اندر موجود ہو
نیٹ ورک ہیکنگ
کار میں نصب تمام کمپیوٹر جس نیٹ ورک کے ذریعے آپس میں رابطہ قائم کرتے ہیں اسے کنٹرولر ایریا نیٹ ورک (کین) بس کہتے ہیں۔ اسے کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس سے تمام کمپیوٹر ایک دوسرے کو کمانڈ یا معلومات بھیج سکتے ہیں
کین بس کو سکیورٹی کی ضروریات مدنظر رکھ کر ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ یہ سمجھا گیا کہ تمام ڈیوائسز اپنے کاموں تک محدود رہتی ہیں۔ مگر اس کی وجہ سے کین بس ہیکرز کی زد میں آنے لگی
کار چور اکثر کین بس کو ہیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے ذریعے گاڑی کے انجن کو کنٹرول کرنے والے کمپیوٹر تک پہنچ جاتے ہیں۔ گاڑی کے انجن کنٹرول یونٹ میں کی لیس کوڈ کی کاپی محفوظ ہوتی ہے۔ چور اس کی نقل تیار کر سکتے ہیں اور اسے ایک خالی کی لیس فوب میں ڈال کر وہ گاڑی چُرا سکتے ہیں
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ گاڑی کے ان بورڈ ڈائیگناسٹکس تک رسائی حاصل کی جائے۔ یہ ایک تار لگانے والی جگہ یا وائر لیس کنیکشن ہوتا ہے جہاں سے مکینک کار کی مرمت کرتے ہیں۔ اس تک رسائی حاصل کر کے چور کین بس استعمال کر سکتے ہیں
نیٹ ورک ہیکنگ کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہیڈلائٹ توڑ کر گاڑی کے اندر داخل ہونا اور کین بس تک رسائی حاصل کر لینا جہاں اس کے لیے تار کا ڈائریکٹ کنیکشن موجود ہوتا ہے
یو ایس بی ہیک
جدید دور کے کار چور ’یو ایس بی ہیک‘ کا طریقہ بھی استعمال کرتے ہیں، جس میں ہنڈائی اور کِیا کی گاڑیوں کے ڈیزائن کی خامی کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے
اس میں چور آپ کی کار میں داخل ہوتا ہے اور پھر اسٹیئرنگ وہیل کے پاس ایک مخصوص جگہ تلاش کرتا ہے جہاں ایک یو ایس بی کنیکٹر لگا کر کار کو سٹارٹ کیا جا سکتا ہے اور اسی لیے اس طریقے کو ’یو ایس بی ہیک‘ کہتے ہیں۔ تو کسی کو صرف کار کا شیشہ توڑ کر اندر جانا ہوتا ہے اور کار اسٹارٹ کرنے کے لیے یو ایس بی کیبل لگانی ہوتی ہے
ٹک ٹاک پر ’کیا بوائز‘ نامی چوروں کے ایک گروہ کو مقبولیت ملی ہے جو امریکی شہر ملواکی میں اسی طریقے سے گاڑیوں کی چوری کرتے تھے۔ لہذا کار چوری کے اس طریقے کے بارے میں کافی حد تک لوگوں کو علم ہوچکا ہے
ہنڈائی اور کِیا نے اس خامی کو دور کرنے کے لیے یہ ضروری بنا دیا ہے کہ کی لیس فوب کار میں ہی موجود رہے ورنہ اس کے بغیر گاڑی کا انجن اسٹارٹ نہیں ہوتا
گاڑیوں کی چوری کیسے روکی جا سکتی ہے؟
گاڑیوں کے کئی مختلف ماڈلز موجود ہیں اور ان میں پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں لیکن اس کے باوجود کار چور ممکنہ طور پر نئے نئے طریقوں سے ہماری گاڑیاں چُراتے رہیں گے۔۔ تو ایسے میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟
کچھ چیزیں ہمیشہ وہی رہتی ہیں: اپنی گاڑی کو ہمیشہ لاک رکھیں اور اس کی چابی یا کی لیس فوب کو اندر نہ چھوڑیں۔
نئی بات یہ ہے کہ اپنی گاڑی کا سافٹ ویئر ہمیشہ اپ ڈیٹ رکھیں، جیسا کہ آپ اپنے فون اور کمپیوٹر کے ساتھ کرتے ہیں۔
– ڈگ جیکبسن آئیووا سٹیٹ یونیورسٹی میں الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ یہ تحریر اس سے قبل دی کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی۔