آج کل انسانی دماغوں پر اطلاعات اور معلومات کی جو بارش ہو رہی ہے، وہ پہلے نہ تھی اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ معلومات اور اطلاعات کی اس بارش میں ایک نمایاں عنصر پروپیگنڈے کا ہے۔ اکثر لوگ پروپیگنڈے کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں کسی ایسے پیغام کو جس کا ماخذ معلوم ہو ابلاغ کے مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تکرار کے ساتھ اور زور دے کر بیان کیا جاتا ہے
آپ جب فلم دیکھتے ہیں تو ڈیڑھ دو گھنٹے کی فلم میں آپ اپنے آپ کو اس فلم کے کرداروں کے ساتھ جذباتی طور پر بھی منسلک کر لیتے ہیں۔ آپ اس فلم کے ہیرو کے بارے میں وہ نہیں سوچ رہے ہوتے، جو آپ اس فلم کے ولن کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ہیروئن، اس کے (عمومی) مجبور باپ اور مظلوم ماں کے بارے میں آپ کی رائے، اس رائے سے الگ ہوتی ہے جو آپ اک متکبر اور دولت کے نشے میں ڈوبے ہیرو کے باپ، اور ماں کے بارے میں رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ٹریجڈی فلم میں آپ کے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ کامیڈی فلم میں آپ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے ہیں، بھلے ان دونوں مختلف فلموں کی کاسٹ یکسر ایک جیسی ہی کیوں نہ ہو۔
شاہ رخ خان، دیو داس ہو تو پارو کے دروازے پر خون تھوکتے ہوئے آپ کو رُلا دے گا۔ یہی شاہ رخ خان، ڈان میں اک انٹرنیشنل مجرم ہو، تو آپ اس کے ایکشن سے لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔
آڈیو اور ویڈیو رابطے پر ملکیت رکھنے والا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ڈیڑھ سے ڈھائی گھنٹوں میں گویا آپ کے خود کے سوچنے کی اہلیت سے محروم کرتے ہوئے، آپ کے ذہن کو اپنی مٹھی میں بند رکھے ہوئے، جس طرف چاہے موڑ رہا ہوتا ہے۔ تو سوچیے، کہ ماکیاویلی طرز کی ریال۔ پالیتیک مزاج رکھنے والی ریاست کہ جس کے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہوتے ہیں، وہ آپ کے ذہن کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر سکتی؟
محض اپنے حقوق پر مسلسل مُصر، اور فرائض سے روگردانی کرتی ریاستیں، پروپیگنڈہ کو اک ہنکارے کے طور پر استعمال کرنا جانتی ہیں۔ اور جو اس ہنکارے میں اس پروپیگنڈے کے سنگ سنگ چلتے چلے جاتے ہیں، تو وہ کسی جانور سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے
ایک اہم مثال کے ذریعے پروپیگنڈا کی تعریف
آرگنائزیشن فار پروپیگنڈا اسٹڈیز کے ماہر سیاسیات پیئرس روبنسن کا کہنا ہے کہ پروپیگنڈا کسی کو کسی خاص طریقے سے کام کرنے یا برتاؤ پر آمادہ کر سکتا ہے۔ اس کی مثال انہوں نے 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ کی طرف سے ملکی عوام پر اثر انداز ہونے کے لیے پروپیگنڈا مشینری کے استعمال کی دی۔
روبنسن کہتے ہیں ”واشنگٹن حکومت نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کا سبب بننے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں بہت بڑھا چڑھا کر انٹیلیجنس کو اطلاعات دیں اور اسے بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔“ مگر ہوا یہ کہ عراق سے کبھی بھی وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بننے والے ہتھیار نہ ملے۔ سی آئی اے نے ان ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے اور اس بارے میں پروپیگنڈا کرتے ہوئے غلط معلومات فراہم کیں اور تصاویر کے ذریعے انہیں سچ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی
نیو کاسل یونیورسٹی کے اسکول آف آرٹس اینڈ کلچر سے منسلک سینیئر لکچرار فلوریان سولمان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اکثر جھوٹے دعووں اور پروپیگنڈا کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ یورپی پارلیمان کے ایک مطالعے سے بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ پروپیگنڈا قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور شہری حقوق کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
اس کی مثالوں میں اکثر نازی جرمنی اور کمیونسٹ سوویت یونین کے دور میں کئے جانے والے پروپیگنڈے کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اکثر لوگ پروپیگنڈے کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں کسی ایسے پیغام کو جس کا ماخذ معلوم ہو، ابلاغ کے مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تکرار کے ساتھ اور زور دے کر بیان کیا جاتا ہے
اس کی مثالوں میں اکثر نازی جرمنی (45ء-1933ء)، فاشسٹ اٹلی (43ء-1922ء)، کمیونسٹ سوویت یونین (خاص طور پر 1924ء سے 1953ء کے درمیان)، کمیونسٹ چین (1966ء سے 1976ء کے درمیان ثقافتی انقلاب کے دوران) اور تھیوکریٹک ایران (1980ء کی دہائی میں) میں ریاست اور حکومت کی جانب سے کیا جانے والا پروپیگنڈا شامل ہے۔ اسی طرح کا پروپیگنڈا غیر آمرانہ حکومتوں میں بھی کیا گیا اور ایسا خاص طور پر دوسری جنگ عظیم (1945ء-1939ء) کے دوران ہوا۔
پروپیگنڈا کی اقسام اور ان کا استعمال
سیاسیات کے ماہرین پروپیگنڈے کو عموماً 3 اقسام یعنی سفید پروپیگنڈا (وائٹ پروپیگنڈا)، سرمئی پروپیگنڈا (گرے پروپیگنڈا) اور سیاہ پروپیگنڈا (بلیک پروپیگنڈا) میں تقسیم کرتے ہیں۔ ’سفید‘ پروپیگنڈے کے ماخذ اور اس کے ایجنڈے کا کھل کر اظہار کیا جاتا ہے۔ اس میں نازی جرمنی کی حکومت کی جانب سے یہودیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والے پمفلٹ بھی شامل ہوسکتے ہیں اور اس میں وہ مہذب پروپیگنڈا بھی شامل ہوسکتا ہے جس میں کوئی تجارتی کمپنی خود کو ملنے والی کسی ایوارڈ کا اعلان کرے حالانکہ اکثر اوقات ان ایوارڈز کے لیے کمپنی نے خود ادائیگی کی ہوتی ہے۔
سرمئی پروپیگنڈے کی شناخت کرنا کچھ مشکل ہوسکتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا اصل منبع یا ماخذ ظاہر نہیں ہوتا۔ اس پروپیگنڈے میں اپنے پیغام کو پہنچانے کے لیے بلواسطہ ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اخبارات میں وہ مضامین ’پلانٹ‘ کرنا ہے جو ’غیرجانبدار‘ نظر آنے والے خواتین و حضرات نے لکھے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ لوگ پروپیگنڈے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
سرمئی پروپیگنڈے میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے پروپیگنڈے کے فروغ کے لیے بطور ذریعہ استعمال کیا جارہا ہوتا ہے وہ بھی اس سے بے خبر ہوتا ہے۔
کمرشل ادارے بھی سرمئی پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ وہ خاموشی سے ایک معروف ماہر کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اسے اپنے ادارے یا کمپنی کے نہیں بلکہ اپنی مصنوعات کے ’فوائد‘ کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس پروپیگنڈے کا انحصار ایک ’غیر جانبدار‘ پیغام رساں پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر 1920ء کی دہائی کے آخر میں ڈبہ بند بیکن بنانے والی ایک امریکی کمپنی نے ایک معروف ڈاکٹر کی خدمات حاصل کیں۔ اسے یہ دعویٰ کرنے کے لیے ادائیگی کی گئی تھی کہ صبح کے وقت بیکن کھانا ایک صحت مند ترین ناشتہ ہے۔
یہ طریقہ کار اکثر ان کمپنیوں کی جانب سے اختیار کیا جاتا ہے جن پر مضر صحت اشیا بنانے اور فروخت کرنے کے حوالے سے تنقید ہوتی ہے۔ 1940ء سے 1960ء کے درمیان امریکا کی سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے ایسی ’تحقیقات‘ پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جن میں اس بات کو ’ثابت‘ کرنا تھا کہ سگریٹ نوشی اتنی خطرناک نہیں ہے، جتنا کچھ آزاد تحقیقات میں بتایا گیا ہے
تجارتی کمپنیاں دیگر کمپنیوں اور خاص طور پر اپنے حریفوں کے خلاف بھی سرمئی پروپیگنڈا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پیک دودھ بنانے والی کمپنی حریفوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں بظاہر ’غیر جانبدار‘ لوگوں کے ذریعے پلانٹڈ ’تحقیق‘ کروا سکتی ہے اور سوشل میڈیا پوسٹس لگوا سکتی ہے۔ یہاں سرمئی اور سیاہ پروپیگنڈے کے درمیان فرق ختم ہونے لگتا ہے
سرمئی پروپیگنڈے کی طرح، ’سیاہ‘ پروپیگنڈا بھی اپنا منبع و ماخذ ظاہر نہیں کرتا۔ لیکن سرمئی پروپیگنڈے کے برعکس سیاہ پروپیگنڈا ان لوگوں سے غلط معلومات منسوب کرتا ہے جو اس کا ہدف ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی حکومت ایک ایسا پیغام یا بیانیہ گھڑ سکتی ہے جو اس کے یا ملک کے مفادات کے خلاف ہو اور پھر اسے اپنے اندرونی اور بیرونی مخالفین سے منسوب کر سکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے ڈنمارک کے اوپر پمفلٹ گرائے تھے جبکہ ڈنمارک پر اس وقت جرمن افواج کا ہی قبضہ تھا۔ ان پمفلٹ میں ڈنمارک کے شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ نازیوں سے جان چھڑانے کے لیے روسی حملے کو قبول کرلیں۔ ان پمفلٹ کو ڈنمارک کی آزادی کے لیے لڑنے والے ایک گروہ سے منسوب کیا گیا جبکہ یہ حقیقت نہیں تھی۔ اس کے پیچھے اس گروہ کو بے دین کمیونسٹ کے طور پر دکھانا مقصود تھا۔
اسی جنگ کے دوران برطانیہ نے بھی کچھ جرمن ریڈیو اسٹیشن قائم کیے تھے۔ نازی جرمنی میں اکثر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ واقعی حقیقی جرمن ریڈیو اسٹیشن ہیں۔ ان ریڈیو اسٹیشن سے غیر محسوس انداز میں نازی مخالف جذبات کا پرچار کیا جاتا تھا۔ اس سے جرمن سامعین الجھاؤ کا شکار ہوتے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ یہ ریڈیو اسٹیشن نازی ہی چلا رہے ہیں
دی گارڈین کے مئی 2022ء کے ایک فیچر کے مطابق ’برطانوی حکومت نے سرد جنگ کے اپنے دشمنوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہائیوں تک سیاہ پروپیگنڈا کیا جس میں جعلی ذرائع سے خبروں اور پمفلٹس کا استعمال کیا گیا‘۔
اس فیچر میں کہا گیا کہ ’اس مہم میں مذہبی قدامت پسندی اور بنیاد پرست نظریات کو فروغ دے کر مسلمانوں کو بھی کمیونزم کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی گئی‘۔ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی دستاویزات جنہیں بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے مسلمان گروہوں اور سوویت یونین سے منسوب کیا گیا تھا ان میں اسرائیل کی مخالفت بھی کی گئی تھی تاکہ وہ حقیقی نظر آئیں
1990ء کی دہائی میں سابق پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اکثر اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی نظر آئیں کہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اکثر دائیں بازو کے رسائل و جرائد کو ان کے جعلی بیانات شائع کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ اس پروپیگنڈے کو ہوا دی جائے کہ وہ ملک کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں
1992ء میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے ایم کیو ایم کے دفتر سے ایک نقشہ برآمد کیا۔ نقشے میں کراچی اور حیدرآباد کو ایک الگ ملک کے طور پر دکھایا گیا تھا۔اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسے ایم کیو ایم نے شائع کیا تھا۔ لیکن ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے اعتراف کیا کہ وہ نقشہ جعلی تھا
بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف سرمئی اور سیاہ پروپیگنڈے کے لیے بدنام ہے۔ اپریل 2023ء میں ایک عام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ نے پاکستان میں تالا بند قبر کی تصویر پوسٹ کی۔ پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قبر ایک خاتون کی تھی اور اس پر تالہ لگایا گیا تھا تاکہ میت کو ان لوگوں سے محفوظ رکھا جاسکے جو نیکروفیلیا میں ملوث ہیں۔
اس خبر کو مین اسٹریم کے مختلف ہندوستانی خبر رساں اداروں نے تیزی سے پھیلایا۔ تاہم حقائق کی جانچ کرنے والی ایک آزاد ویب سائٹ نے اس کہانی کا پردہ فاش کیا اور بتایا کہ یہ تصویر دراصل پاکستان کی نہیں بلکہ ہندوستان کی ہے۔ اس طرح سیاسی پروپیگنڈا کا مقصد دوسرے ممالک اور ان کی ثقافتوں یا اقدار کو بدنام کرنا بھی ہوتا ہے
روسی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ فار یو ایس اینڈ کینیڈین اسٹڈیز کے سینیئر ریسرچ فیلو پاویل کوشکن کے مطابق سیاسی پروپیگنڈا سیاست دانوں اور حکومتوں کو مثبت روشنی کے پیرائے میں ڈھالنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے
پروپیگنڈا امور کے ماہر روبنسن کہتے ہیں ”پروپیگنڈا کا استعمال پوری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں جمہوریتوں میں ہمیں جس مسئلے کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پروپیگنڈا بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن ہم اس کی شناخت نہیں کر پاتے۔‘‘
فلوریان سولمان نے بھی اس امر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ”پروپیگنڈا آمریتوں اور جمہوری ریاستوں دونوں کی طرف سے بروئے کار لایا جاتا ہے، تاہم آزادانہ طور پر متبادل ذرائع ابلاغ اور معلومات تک رسائی جمہوریتوں میں سیدھے سادے طریقے سے اپنا وجود رکھتے ہیں
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے کرسٹیان میہر کہتے ہیں ”میڈیا تنظیمیں پروپیگنڈا پیغامات کو پھیلانے اور بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔“
آج کے دور میں سیاہ پروپیگنڈا ان لوگوں کے ذہنوں کو اپنا ہدف بناتا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔