’دودوچنیسر‘ کی عظیم رزمیہ داستان کو لوک شاعر ’بھاگو بھان‘ نے لوک گاتھاؤں میں تخلیق کیا جو جنوبی سندھ کے کسی گاؤں میں رہتا تھا۔ اُن دنوں یعنی سومرا دور میں جو مشہور بستیاں تھیں جیسے تھری، شاہ کپور، روپاماڑی اور وگھہ کوٹ، ان بستیوں کا بھاگو بھان نے اپنی داستان میں بار بار ذکر کیا ہے۔
اگر ہم اس رزمیہ داستان اور ان بستیوں، جن کے آثار ابھی تک ہیں انہیں، ایک طرف رکھ دیں تو ہم اُن دنوں کی یعنی آج سے تقریباً 700 برس پہلے کے جغرافیائی حالات جیسے اُس قدیم زمانے کے پانی کے مختلف بہاؤ، راستے اور معاشی حالات کو اچھے انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔
اس رزمیہ داستان میں علاالدین کا نام آتا ہے جس کو علاالدین خلجی سمجھا جاتا ہے لیکن دراصل اُن دنوں ہمیں علاالدین خلجی لشکر کے اہم سپہ سالار الغ خان (یا الغ بیگ جس کا اصل نام ’الماس بیگ‘ تھا، یہ علاالدین خلجی کے بڑے بھائی تھے۔ جب علاالدین دہلی کے تخت پر بیٹھا تو اس نے اپنے بھائی کو ’الغ خان‘ کا خطاب دیا، تاریخ میں اسے اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے) اور نصر ملک کَچھ، کاٹھیاواڑ اور گُجرات کی جانب جنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور چونکہ مادھو رائے (کرن واگھیلو کا وزیر) ’چنیسر‘ کا دوست تھا تو اس لیے داستان کہنے والے یا پھر بعد میں جن گائکوں نے اس قصے کو گایا تو جس حملہ آور کے ساتھ دودو کی جنگ ہوئی اسے علاؤالدین خلجی سمجھ کر گایا۔
چونکہ یہ جنگ افغان سے آنے والے ایک دوسرے علاالدین سے ہوئی تھی جسے تاریخ کے صفحات میں ’ترم شیرین‘ کے نام سے تحریر کیا گیا ہے تو اس کے لشکر نے ویرا واہ (ننگرپارکر) کی طرف سے حملہ کیا تھا اس لیے پہلی جنگ جو دودو سومرو اور علاالدین ترم شیرین کے درمیان ہوئی وہ ویرا واہ کے پاس ہوئی۔
بھاگو بھان گاتھائیں تخلیق کرنے والا ایک زبردست شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سومرا خاندان کے قریب بھی تھا اور اس پر سومرو سردار بہت اعتماد کرتے تھے۔ 700 سال قبل جب یہ جنگ ہوئی تو وہ سندھ سے سومرا سرداروں کے خاندان کی عورتوں کو تحفظ دینے کے لیے اُن کو لےکر کَچھ، ابڑو جام کے پاس گیا اور پھر وہیں بس گیا جس کے بعد اس نے اندازاً 1310ء میں وفات پائی۔
انسائیکلوپیڈیا سندھیانا میں اس جنگی داستان کے حوالے سے تحریر ہے کہ ’دودو اور علاالدین (تُرم شیرین) کی لڑائی سومرا دور کے بالکل آخر میں ہوئی جب دودو (چہارم) تخت نشین ہوا، اس جنگ میں نہ صرف دودو بلکہ کئی سردار اور عوام جو اس کی حمایت میں میدان جنگ میں تھے وہ بھی مارے گئے۔ دودو اور علاالدین کی یہ جنگ آدرشی حوالے سے مہابھارت کی جنگ جتنا درجہ رکھتی ہے کیونکہ واقعاتی لحاظ سے یہ جنگ اپنے ملک کے معاملات میں دوسروں کی دراندازی کے خلاف کی گئی تھی جس میں وطن دوستی، سچائی اور قربانی کا جذبہ پنہاں تھا۔‘
آپ اگر آج بھی بدین سے 40 کلومیٹر جنوب مشرق میں ’روپاماڑی‘ (سومرا دور کی قدیم بستی) کے آثاروں پر جائیں تو وہاں آپ کو دودو سومرو کا شاندار مقبرہ نظر آئے گا۔ (آج سے تقریباً 30 برس پہلے یہاں دودو کی آخری آرام گاہ پر مقبرہ نہیں تھا بلکہ ایک چوبی کٹہرا بنا ہوا تھا)۔ اس مقبرے کے بالکل قریب مغرب میں اُس بستی کے قدیم آثار موجود ہیں۔ اس مقبرے اور آثاروں سے ایک کلومیٹر جنوب میں ’چنیسر‘ کی قبر ہے جس پر نہ کوئی کٹہرا ہے اور نہ کسی گنبد کی چھاؤں۔
یہاں پہنچ کر آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ زندگی میں کیے گئے مثبت اور منفی اعمال کی سزا اور جزا تاریخ کی گزرگاہوں میں کتنی طویل ہوتی ہے، اتنی کہ چنیسر نے اپنے سرداروں کے فیصلے کو نہ مانتے ہوئے اور تخت حاصل کرنے کے لیے دوسرے ملک کے بادشاہ کی مدد کی جس میں نہ جانے کتنا خون بہا اور جس کا درد آج 7 صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی نازبُو کے پودے کی طرح ہرا بھرا ہے جو اکثر قبروں پر اُگتا ہے کیونکہ درد اور تکلیفوں پر کبھی زوال کی شام نہیں آتی۔
سومرا حکمرانوں کے زمانے سے لے کر آج تک اگر ہم 700 برس کی ایک پگڈنڈی بنائیں تو ہمیں سندھی زبان کا انتہائی شاندار لوک ادب سُننے اور پڑھنے کو ملے گا اور دودو چنیسر کی رزمیہ داستان اس سفر کی انتہائی شاندار تخلیق ہے۔ اس رزمیہ داستان پر آج تک بہت کام ہوا ہے۔ کئی کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سندھی کے نامور شاعر شیخ ایاز نے اس تاریخی واقعے پر ایک اوپیرا ’دودے سومرے جو موت‘ بھی تحریر کیا جس کو ادبی تقاریب میں اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے اور اس جنگی داستان کو انتہائی محترم اور شاندار جملوں میں بیان کیا جاتا ہے۔
تاریخ کے صفحات میں اس جنگی داستان کے بعد جو جنگیں ہوئیں انہیں نظم کی صورت میں تحریر کرنے کا ایک رواج بن گیا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے بہت کام کیا، وہ اپنی کتاب ’جنگ نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ جنگ ناموں کا مواد سندھ کی تاریخ کے لیے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ان جنگ ناموں کو تحریر کی صورت میں محفوظ نہیں کیا گیا، یہ سینہ بہ سینہ چلتے چلے آرہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں انسان اپنی کیفیتوں کا اضافہ بھی کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے ان میں افسانوی رنگ اور زیادہ نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔
جنگ کی وجوہات، صلح کی شرائط، مخالفین کے وعدوں، جنگ کے مرکزی کرداروں کی ثنا، خوف سے جنگ کے میدانوں سے بھاگنے والوں پر طنز اور دشمنوں کی تلخ باتیں ان قصوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ساتھ ہی جنگ کی تیاریوں، ہتھیاروں، میدانوں میں صف بندیوں، حملوں، جنگ کے میدانوں میں ایک دوسرے کو للکارنا اور اپنے ساتھیوں کی ہمت بڑھانے کے لیے زوردار آوازیں بلند کرنا، یہ سب ان جنگ ناموں میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ادب میں جنگ ناموں کی اس وجہ سے بھی اہمیت ہے کہ ان میں رزمیہ شاعری اور ساتھ میں اس موضوع کی لغت بھی ان قصوں کا قیمتی سرمایہ ہے۔
ڈاکٹر بلوچ صاحب کی اس کتاب میں 70 سے زائد جنگوں کے قصے شامل ہیں جن کا عرصہ سومرا دور سے برٹش راج تک کا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قصہ گوئی کے لیے سندھ کی زمین صدیوں سے بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے جبکہ اس کی سرحدیں رزمیہ داستانوں پر آکر ختم نہیں ہوتیں بلکہ دیگر اور بھی لوک داستانوں کی ایک دنیا یہاں بستی ہے۔ اس زمین پر جہاں عشق بھی ہے اور کیکر کی جھاڑیوں کی طرح بچھڑنے کا درد بھی دل و دماغ میں اُگ کر روح کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ جہاں خوشی کے گلستان ہیں وہاں غم کی فصل بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے کیونکہ یہی زندگی کا چلن ہے۔
سومرا سرداروں کے زمانے میں جہاں جنگوں کے میدان سجے وہاں عشقیہ داستانوں نے بھی جنم لیا۔ یہ دور سندھی ادب کے لیے یقیناً ایک زبردست، شاندار اور بنیادی دور تھا۔ عوامی سطح پر لوک گیت، لوک ناچ، لوک کہانیاں جن میں زندگی کی کیفیتوں کے رنگ بھرے ہوئے تھے وہ تخلیق ہوئے اور انہیں اُس زمانے کے بَھٹوں، بھانُوں اور چارَن فقیروں نے تخلیق کرکے موسیقی کے زیور سے آراستہ کیا اور لوگوں کی تفریح کے لیے پیش کیا۔ اس دور میں جو داستانیں تخلیق ہوئیں، ان میں عمر ماروی، لیلا چنیسر، سسئی پنہوں، مورڑو مانگر مچھ، عمر گنگا اور مومل رانو اہم ہیں۔
اس کے بعد جو سمہ سرداروں (1351ء سے 1542ء) کا دور حکومت آیا تو اس زمانے میں بھی لوک ادب کا یہ تسلسل جاری رہا۔ تخلیقات اپنے عروج پر رہیں اور اس زمانے میں ’سمگ چارن‘ کا نام ہمیں سمہ سرداروں کی تعریفیں تخلیق کرتے ہوئے ملتا ہے اور معاشرے میں ان فنکاروں کو بڑی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان فنکار کو جب اور جہاں جہاں ہمت افزائی کی چھاؤں ملی ہے وہاں تخلیق کے دریا بہہ نکلے اور تاریخ کے صفحات ان کی گواہی دیتے ہیں۔
اُن دونوں کے لوک ادب کی تخلیق کے حوالے سے بلوچ صاحب لکھتے ہیں کہ سندھی سُر (آلاپ) کی موسیقی اور گائکی کے زمانے کا اگر ہم اندازہ کرنا چاہیں تو یہ سومرا دور سے شروع ہوگا۔ یہ سندھ کی تاریخ کا رومانوی دور تھا جس میں عشقیہ داستان اور بہادروں کی بہادری کے کارنامے لوک اجتماعات اور سردیوں میں الاؤ پر ہوتی ہوئی کچہریوں میں گائے جانے لگے۔ اُس زمانے کے بھانوں اور مگنھار فقیروں نے ان عشقیہ داستانوں اور جنگی داستانوں میں سے ہر ایک کو الگ انداز کے ساتھ بیان کیا اور گایا۔ گانے والی کیفیت میں ’قصے‘ کو ’گانا‘ ایک دوسرے کا اہم جُز بنے اور اس طرح ’سُر‘ کی بنیاد پڑی۔
سندھی گائیکی کے ’7 سُروں‘ سے مراد ہے، 7 جدا جدا قصے یا داستان، جن کو گا کر بیان کیا جا سکے جبکہ ہندوستانی راگ کی اصلاح میں ’سات سُر‘ سرگم کے ہیں۔ آئیے ہم یہاں اوائلی سُروں سے آپ کا مختصر تعارف کرواتے ہیں۔
سُر سسئی: یہ داستان سومرا دور کے ابتدائی برسوں میں تخلیق ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ لس بیلو، کوہستان، کراچی، ٹھٹہ اور دوسرے علاقوں میں مختلف لے میں گائی جانے لگی جو آگے چل کر مستقل سُر بنے۔ شاہ جو رسالو میں جو سسئی کے پانچ سُر ہیں اُن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ قدیم لے (سُروں) کی یادگار ہے۔ سومرا دور کے دنوں میں یہاں سندھ میں غالباً ’آبھیری‘ راگ گایا جاتا تھا اس لیے ’سُر آبری‘ اِسی کی یادگار ہے۔ دوسرے علاقوں میں اسے دیسی لے میں گایا گیا تو ’سُر دیسی‘ اُس کی یادگار ہے۔
اِسی زمانے میں عرب، ایرانی سلسلے کا ’راگ حسینی‘ سندھ میں مروج تھا تو کچھ گانے والوں نے ان کو حُسینی لے میں گایا، رسالے میں ’سُر حسینی‘ اسی کی یادگار ہے۔ راگ حسینی دسویں صدی ہجری کی ابتدا تک صوفیوں اور درویشوں کی سماع کی مجلسوں میں مقبول تھا اور سندھ کے ذاکروں نے اسے پنجاب تک مشہور کیا۔ لس بیلو کی طرف اگر اسے مقامی لے معذور میں گایا گیا تو ’سُر معذوری‘ جبکہ کوہستان میں اسے مقامی لے کوہیاری میں گایا گیا تو ’سُر کوہیاری‘ اُس کی یادگار ہے۔
سُر سُھنی: ’سوہنی میہار‘ کا قصہ سندھ میں غالباً بارہویں یا تیرہویں صدی میں متعارف ہوا۔ یہ قصہ سومرا دور کی بالکل ابتدا میں یا اس سے بھی پہلے تخلیق ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ، سندھ کی سرحدوں سے باہر پنجاب تک مشہور ہوا جہاں اسے شاہ جہاں بادشاہ (1628ء۔ 1658ء) اور محمد شاہ بادشاہ ( 1719۔1748ء) کے مغل دور کا قصہ سمجھ کر گایا گیا ہے جبکہ سندھ میں سُھنی کی داستان کا قدیم ثبوت ہمیں ’شاہ کریم‘ (1525ء۔1623ء) کی ملفوظات میں ملتا ہے۔ یہ قصہ الگ لہے میں گایا جانے لگا اس لیے اس کا نام داستان کے حوالے سے سُر سُھنی مشہور ہوا۔
سُر مورڑو یا گھاتو: یہ بہادری کی داستان بھی سومرا دور کے اوائلی زمانے میں تخلیق ہوئی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس شجاعت بھری داستان کو ’سُر گھاتو‘ میں بیان کیا ہے مگر اس سے پہلے یہ داستان ’سُر مور‘ یا ’سُر مورڑو‘ میں گائی جاتی تھی۔
سُر سورٹھ: ’سورٹھ رائے ڈیاچ‘ کی کہانی پر مبنی سر سورٹھ بھی سومرا دور کی مشہور داستانوں میں شامل ہے جسے اپنی ایک مخصوص لہے میں گایا جاتا ہے جس کو سمہ سرداروں کے زمانے (1350ء سے 1520ء) میں بھٹ، بھانوں اور چارن فقیروں نے گا کر بہت مشہور کیا۔
سُر لیلا: یہ قصہ بھی سومرا دور میں بنایا گیا مگر یہ مشہور ارغون ترخانوں کے زمانے (1520ء سے 1590ء) میں مشہور ہوا اور اتنا مشہور ہوا کہ شاہ کریم کی شاعری میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسی زمانے 1601ء میں ننگر ٹھٹہ کے شاعر ادراکی بیگلاری نے اس کو فارسی مَثنوی میں منظوم کیا، یہ قصہ اپنی پرانی لے ’سرود لیلا‘ میں گایا جاتا ہے۔
سُر ماروی: یہ مشہور داستان سومرا دور کی تخلیق ہے۔ ڈاکٹر بلوچ کے مطابق ’عمر سومرو بادشاہ کے زمانے کے دو قصے مشہور ہوئے۔ ایک ’عمر گنگا‘ اور دوسرا ’عمرماروی‘۔ یہ قصہ سولہویں صدی میں سندھ میں گایا جاتا تھا۔ 1591ء میں اکبر بادشاہ کے سپہ سالار خان خاناں نے سندھ پر قبضہ کیا اور سندھ کے حکمران مرزا جانی بیگ کو اپنے ساتھ لے کر اکبر بادشاہ کی دربار میں پیش کیا۔ اکبر نے جانی بیگ کو اپنی دربار میں ہی رکھا۔ مرزا جانی بیگ موسیقی اور قصے کہانیاں سننے کا شوقین تھا تو یہاں ٹھٹہ سے اپنے ساتھ فنکاروں کی ٹولی ساتھ لے گیا تھا۔ ایک دن اکبر بادشاہ کے آگے سندھ کے منگنھاروں نے عمرماروی کی داستان پیش کی، یوں اس داستان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ داستان اپنی مخصوص لے ’سُرماروی‘ میں گائی جاتی ہے۔
سُر رانو: یہ لوک داستان بادشاہ ہمیر سومرو کے دور میں تخلیق ہوئی جس میں ہمیر سومرو بادشاہ کا اِس قصے میں ذکر ہے وہ سومرا گھرانے کا آخری بادشاہ تھا جس کی حکومت کا خاتمہ عمرکوٹ کے قریب 1365ء میں ہوا۔ یہ قصہ 1315ء-1330ء کے دوران مشہور ہوا تو اِس کی شہرت پندرہویں صدی تک اپنے عروج پر رہی۔ سندھ کے منگنھار فقیروں نے اسے اس کی مخصوص لے میں گایا۔ یہ ’سر رانو‘ (یہ مومل رانو کے مشہور عشقیہ داستان پر مبنی ہے) کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ سندھی قصہ گوئی کا ایک مختصر جائزہ ہے۔ پوری دنیا میں جہاں لوگ بستے ہیں وہاں لوک ادب تخلیق ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ادب مختلف منظرناموں، نفسیاتی کیفیتوں اور معروضی حالتوں میں تخلیق ہوتا ہے اس لیے ہر خطے کی اپنی خوشبو اُس میں سمائی ہوتی ہے۔ اِسی وجہ سے لوک ادب اپنی زمین پر طویل حیات پاتا ہے کیونکہ چاہے آپ کتنی بھی ترقی کیوں نہ کرلیں، گھاس پھوس کی جھونپڑیوں سے نکل کر بڑے بڑے محلوں میں رہنے لگیں مگر آپ نے جس جھونپڑی سے اُڑان بھری ہے، اُس جھونپڑی کا تسلسل ہزاروں برسوں کے شب و روز پر پھیلا ہوا ہے جس کو پار کرکے آپ کے آبا و اجداد یہاں اس جھونپڑی تک پہنچے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ 100 یا 200 برس آپ سے آپ کا ماضی چھین لیں۔
دوسری اہم بات یہ بھی کہ آج بھی ہم شہروں میں کم اور اپنے گاؤں میں زیادہ رہتے ہیں۔ دیہاتوں کی آبادی شہروں سے زیادہ ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں زمانے کے ساتھ ترقی ہورہی ہے۔ بجلی آئی تو ٹیلی ویژن آگیا اور یونہی موبائل آگیا۔ ہم نئی چیزوں کی طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں لیکن جلد ہی بیزار بھی ہوجاتے ہیں، ہم ابتدا میں تو ان نئی چیزوں کو چمٹ جاتے ہیں مگر دھیرے دھیرے وہ چیزیں فقط چیزیں بن کر رہ جاتی ہیں جن سے ہمارا کوئی جذباتی لگاؤ نہیں بنتا۔ مثلاً ٹیلی ویژن، موبائل یا دوسری چیزوں کا استعمال کوئی گناہ تو نہیں ہے۔ ٹیلی ویژن بالکل دیکھنا چاہیے اور موبائل بھی استعمال کرنا چاہیے مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ ہم اپنے اوطاقوں اور لگنے والے میلوں اور سردیوں میں جلتے الاؤ پر بیان کرتے فنکاروں کے اُن قصوں سے منہ موڑ لیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم خود کو اکیلا کر رہے ہیں جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسی انتہائی مایوسی والی کیفیت بھی نہیں ہے۔ اب بھی چند ایسے گاؤں ہیں جہاں ایسی داستانیں سنانے والے فنکار موجود ہیں۔ سردیوں میں اب بھی جہاں چھوٹے چھوٹے میلے لگتے ہیں، الاؤ جلتے ہیں وہاں آپ کو داستان گو مل جائیں گے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ داستان کہنے والوں کے پاس وہ زمانے نہیں رہے جب اُن کے پیٹ کی آگ فقط ان داستانوں کو سنانے سے بُجھ جاتی تھی۔
زمانے بدلتے ہیں، معروضی حالات تبدیل ہوتے ہیں مگر آپ اور آپ کے بچوں کے پیٹ کی بھوک کبھی نہیں بدلتی اور بھوک کی اس آگ کو بجھانے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے اور روز پڑتی ہے دن میں تین بار نہ سہی دو بار تو لازمی پڑتی ہے۔ تو داستان سنانے کے لیے سال بھر لگنے والے میلوں کا انتظار کرنا مشکل ہے۔ مجبوری ہے کہ کوئی اور کام بھی کیا جائے اور یوں ایک فنکار مزدور بن جاتا ہے۔ پھر طویل دن کی مزدوری کے بعد سُر و تال مشکل لگنے لگتے ہیں۔ ہم گزرے زمانوں کی طرح ان فنکاروں کی ٹولیوں کو حیات نہیں دے سکتے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہم اس قصہ گوئی یا دوسرے فُنون لطیفہ کو بچانے کے لیے کچھ اقدامات ضرور لیں جس سے یہ فن زندہ رہ سکیں۔
جہاں جہاں ہمارے ثقافتی ادارے ہیں جیسے اسلام آباد میں لوک ورثہ، ہر صوبے میں جہاں جہاں میوزیم ہیں یا جہاں حکومت کی جانب سے ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں وہاں ان قصہ گو فنکاروں کو ہر تیسرے مہینے یا کم سے کم سال میں دو بار بلا کر اُن کی قصہ گوئی سننے کے لیے پروگرامز منعقد ہونے چاہئیں اور ان مواقع پر ان کی اچھی مالی معاونت بھی کی جانی چاہیے تاکہ وہ غرور کے ساتھ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں اور اپنی بچیوں کی شادیاں کرسکیں۔
یہ بیچارے فنکار ہم لوگوں سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے۔ یہ جتنے بڑے فنکار ہیں ان کی تمناؤں کی زمین اتنی ہی چھوٹی ہے۔ لہٰذا ایسے فنکاروں کی ہمت افزائی کرکے ہم مٹھاس کی ڈلی کی طرح گھُلتے لوک داستانوں کے فن کو بچا سکتے ہیں اور اسے تحفظ دے سکتے ہیں۔
حوالہ جات
’دودو چنیسر‘۔ اقبال جتوئی۔ 1975ء۔ لوک ورثہ، اسلام آباد
’جنگناما‘۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ۔ 2007ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد۔
’سندھی موسیقی جی تاریخ‘۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ۔ 1978ء۔ بھٹ شاہ ثقافتی مرکز، بھٹ شاہ حیدرآباد۔
’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا۔ سندھی لینگویج اتھارٹی۔ حیدرآباد
بشکریہ: ڈان نیوز و مصنف
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)