تین دنوں کے بعد جب کرفیو اٹھایا گیا تو یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ کوئی بھی گھر سے باہر نکلنے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔ نامعلوم وجوہات کی بِنا پر لوگوں نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ اکیلے یا اپنے خاندانوں کے ہمراہ اندر ہی رہیں اور شاید بات سیدھی تھی کہ وہ ہر شے سے الگ رہنے پر خوش تھے۔ اتنا لمبا عرصہ اندر گزارنے کے بعد ہر کوئی اب عادی ہو چکا تھا کہ کام پر نہ جائے، شاپنگ مالز میں نہ جائے، کافی پینے کے لیے دوستوں سے نہ ملے اور یہ کہ کسی ایسے کے ساتھ، جس کے ہمراہ بندہ کبھی یوگا کی کلاس میں رہا ہو، سڑک پر غیر متوقع اور اَن چاہی مڈبھیڑ ہو جانے پر اسے گلے لگانا نہ پڑے۔
حکومت نے اگلے چند روز اور موقع دیا کہ لوگ خود ہی کرفیو ہٹائے جانے سے مطابقت پیدا کر لیں لیکن جب انہیں نظر آیا کہ ایسا نہیں ہو رہا تو اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا۔ پولیس اور مسلح افواج نے لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر دستک دینا شروع کر دی اور لوگوں کو باہر نکلنے کا حکم دینے لگے۔
ایک سو بیس دن الگ تھلگ رہنے کے بعد، عام طور پر یہ آسان نہیں ہوتا کہ آپ کو یہ یاد رہے کہ آپ گھر بار چلانے کے لیے کیا کرتے تھے۔۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ اس کے لیے کوشش بھی نہیں کر رہے۔ یقیناً اس بات کا تعلق بہت سے ناراض لوگوں کے ساتھ تھا، جنہیں کسی نہ کسی ’اتھارٹی‘ سے گلہ تھا۔۔ شاید اسکول، یا پھر کسی قید خانے کی؟ آپ کو اس دبلے پتلے لڑکے، جس کی مسیں ابھی بھیگ رہی تھیں، ہلکی سی یاد آتی ہے، جس نے آپ پر پتھر پھینکا تھا۔ کہیں آپ کسی سماجی گروپ کے ہاں سماجی کارکن تو نہیں تھے؟
آپ اپنی والی عمارت کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ فوجی جنہوں نے آپ کو گھر سے باہر نکالا تھا، آپ کو چلتے رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ آپ چلنا تو شروع کر دیتے ہیں لیکن آپ کو صحیح طور پر یہ پتہ نہیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔ آپ اپنے فون میں کچھ ایسا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو چیزوں کو درست کرنے میں شاید آپ کی مدد کر سکے۔ پچھلی طے شدہ ملاقاتوں کے اوقات، ایسی فون کالز جنہیں آپ نے سنا ہی نہیں تھا، اِس کی ڈائری میں لکھے لوگوں کے پتے۔۔۔
لوگ آپ کے پاس سے تیزی سے گزرتے جاتے ہیں اور ان میں سے تو کئی واقعی میں بوکھلائے ہوئے ہیں۔ وہ بھی یہ یاد نہیں کر پا رہے کہ انہوں نے جانا کہاں ہے، اور اگر انہیں یہ یاد بھی ہے تو انہیں یہ معلوم نہیں، کہ وہ وہاں کیسے پہنچیں اور وہ راستے میں کیا کرتے جائیں۔
آپ کو سگریٹ کی شدت سے طلب ہو رہی ہے، لیکن آپ یہ گھر بھول آئے ہیں۔ جب فوجی آپ کے گھر میں گھسے تھے اور آپ پر چِلائے تھے تو آپ کے پاس مشکل سے اتنا ہی وقت تھا کہ آپ اپنی چابیاں اور بٹوہ ہی اٹھا سکیں، یہاں تک کہ آپ کو اپنی دھوپ والی عینک تک اٹھانا یاد نہیں رہا تھا۔ آپ واپس اندر جانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں لیکن فوجی ابھی آس پاس ہی ہیں اور آپ کے ہمسائے کا دروازہ بےصبری اور غصے سے پیٹ رہے ہیں۔ آپ، اس لیے، نکڑ والی دکان پر چلے جاتے ہیں، لیکن آپ کے بٹوے میں فقط پانچ شیکل کا ایک ہی سکہ ہے۔ کیش کاﺅنٹر پر کھڑا لمبا نوجوان، جس سے پسینے کی بو آ رہی ہے، سگریٹوں کے اس پیکٹ کو آپ سے واپس چھین لیتا ہے، جو اسی نے آپ کو تھمایا تھا؛ ”میں اسے آپ کے لیے الگ رکھ لیتا ہوں۔“ اور جب آپ اسے یہ کہتے ہیں کہ آپ اس کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے کر سکتے ہیں تو وہ ایسے دانت نکالتا ہے جیسے آپ نے اسے کوئی لطیفہ سنا یا ہو۔ جب وہ آپ سے پیکٹ واپس لیتا ہے تو اس کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھو جاتا ہے اور اس پر اتنے بال ہیں، جتنے چوہے کے جسم پر ہوتے ہیں۔ ایک سو بیس دن ہو چکے ہیں کہ کسی نے آپ کو چھوا تک نہیں۔
آپ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ آپ کے پھیپھڑوں میں ہوا سیٹیاں بجانے لگتی ہے اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ بچ نہیں پائیں گے۔ اے ٹی ایم مشین کے پاس ہی، ایک بندہ میلے کچیلے کپڑے پہنے بیٹھا ہے اور اس کے پاس ہی ٹین کا کپ پڑا ہے۔ آپ کو فوراً یہ یاد آ جاتا ہے کہ آپ نے اس صورت حال میں کیا کرنا ہے۔ آپ تیزی سے اس کے پاس سے گزرتے ہیں اور جب وہ اپنی بھونڈی اور پھٹی ہوئی آواز میں یہ بتاتا ہے کہ اس نے پچھلے دو روز سے کچھ نہیں کھایا تو آپ منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں تاکہ اس سے آنکھیں چار نہ ہو سکیں، ایسے جیسے اناڑی اداکار آنکھیں چار کرنے سے گریزاں ہوتا ہے۔۔
ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے: آپ کے جسم کو سب یاد آ جاتا ہے۔۔ اور آپ کا دل، جو تنہائی کے ایام کاٹتے ہوئے نرم ہو گیا تھا، پھر سے بلاتاخیر سخت ہو جاتا ہے۔
Original Title: Outside
By. Etgar Keret