ہم بحیثیت قوم الحمداللہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہیں مگر ان بچوں اور بچپن کے تحفظ کا کام دیگر بنیادی ذمہ داریوں کی طرح اللہ پر چھوڑ رکھا ہے۔
ہماری ترجیحات میں نہ تو حال میں زندہ بے حال آبادی شامل ہے اور نہ مستقبل کی پود کی معصوم پنیری۔ ہم بچوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھلاتے پلاتے ہیں۔ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے تعلیم دلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہم نے بچوں کے جسمانی و ذہنی تحفظ کے لیے بہترین قانون سازی بھی کر رکھی ہے۔ اس بابت کچھ ادارے کام بھی کر رہے ہیں۔ پھر بھی ہمارے بچے نہ گھر میں محفوظ ہیں، نہ گلی میں۔
روزانہ اس بابت دکھ بھری خبروں کی ترسیل میں سال بہ سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے سننے کے بعد میری نگاہوں کے آگے نیٹ فلیکس کی دستاویزی فلم ’ہماری کائنات‘ گھوم جاتی ہے۔ اس کے ایک ارتقائی منظر میں ہزاروں مادہ کچھوے سفید ریت میں انڈے دبا کے دور دراز سفر پر پھر سے روانہ ہو جاتے ہیں۔کچھ دنوں بعد سورج کی حدت سے ان انڈوں میں سے ہزاروں بچے نکل کے سمندر کی طرف دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ تاک میں اڑتے پرندے اور بڑی مچھلیاں ان بچوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ فی ہزار بمشکل دس بیس بچے ہی سمندر میں زندہ اتر پاتے ہیں۔یہ تسلسل ہمیشہ سے یونہی جاری و ساری ہے۔
مجھے اپنے اردگرد گھومتے کھلکھلاتے معصوم بھی کچھوؤں کے نوزائیدہ بچے لگنے لگے ہیں، جنہیں ان کے والدین پیدا کر کے آس پاس منڈلاتے سفاک پرندوں اور بے رحم شارکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور بعد از واردات کڑی خود احتسابی کے بجائے آس پاس کے درندوں اور ریاست پر الزام کا بوجھ ڈال دیتے ہیں مگر خود کو بہت کم بدلتے ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال پہلے سے زیادہ تعداد میں بچے ہمارے ہاتھوں غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں اور ہم سوائے مذمت اور سینہ کوبی کچھ نہیں کر پا رہے۔ نہ ریاستی ترجیحات کی تحفظاتی فہرست میں نئی پود اوپر ہے اور نہ سماج کی فہرست میں۔
پاکستان میں بچوں کی سلامتی کے بارے میں اعداد و شمار جمع کر کے جھنجھوڑنے کی اپنی سی کوشش کرنے والا ایک ہی سرکردہ ادارہ ہے ساحل۔ انیس سو چھیانوے سے اب تک ساحل ایک ششماہی اور ایک سالانہ رپورٹ شائع کرتا ہے۔
تازہ ترین ششماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس سال جنوری تا جون بچوں پر جنسی تشدد اور زیادتیوں کے دو ہزار دو سو ستائیس واقعات منظرِ عام پر آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ روزانہ اوسطاً بارہ بچے شکار بن رہے ہیں۔ یہ رپورٹ چونکہ میڈیا میں شائع خبروں اور پولیس ریکارڈ کی بنیاد پر مرتب کی جاتی ہے۔ لہٰذا ہم نہیں جانتے کہ جو واقعات کہیں رپورٹ نہیں ہو پاتے، ان کی تعداد کتنی ہے؟ یعنی اصل وارداتوں کی کل تعداد ہم شاید کبھی نہ جان پائیں۔
متاثرہ بچوں کی عمر چھ سے پندرہ برس کے درمیان ہے۔ ان میں چون فیصد بچیاں ہیں۔ لڑکوں کی تعداد اگرچہ چھیالیس فیصد ہے مگر سالِ گزشتہ کی نسبت ان کی تعداد میں اس برس اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ چوالیس فیصد بچوں اور بچیوں کو اغوا کر کے نشانہ بنایا گیا۔
ان جرائم کے ملزموں کی تعداد دو ہزار پانچ سو اکتیس ہے۔ ان میں اجنبی محض چار سو اٹھانوے ہیں۔ باقی سب ملزم بچوں کو پہلے سے جانتے تھے۔ ان میں رشتے دار، پڑوسی اور واقف کار شامل ہیں۔ زیادہ تر ملزموں پر یہ معصوم اعتماد کرتے تھے۔ لہٰذا انہیں بہلا پھسلا کر طے شدہ ٹھکانوں تک لے جانا نسبتاً آسان تھا۔
جنسی تشدد کی پچپن فیصد وارداتیں شہری اور پینتالیس فیصد دیہی علاقوں میں ریکارڈ کی گئیں۔ چوہتر فیصد واقعات پنجاب، چودہ فیصد سندھ اور سات فیصد خیبر پختونخوا میں منظرِ عام پر آئے۔
یہ اعداد و شمار حتمی نہیں کیونکہ دور دراز علاقوں اور سماجی طور پر بند برادریوں میں ایسے واقعات کو غیرت، بدنامی اور آپس کی دشمنی کے خوف سے دبانے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ اگر قومی سطح کے مجموعی واقعات کا صرف تین فیصد اسلام آباد جیسے نبستاً چھوٹے شہر سے رپورٹ ہوا ہے تو اس کے مقابلے میں بلوچستان، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات سے محض دو فیصد واقعات کی مجموعی رپورٹنگ ہو پائی ہے۔
ساحل کی ششماہی رپورٹ سے ایک اور حقیقت بھی سامنے آتی ہے۔ جن بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان میں سے سات سو ساٹھ بچے ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے دو سو اڑسٹھ بچوں کی موت کا سبب پانی میں ڈوبنا بتایا گیا۔ ایک سو اڑتالیس قتل ہوئے، ایک سو چوالیس کی موت حادثاتی ظاہر کی گئی اور اکسٹھ بچوں کی موت کا سبب خود کشی قرار دیا جا رہا ہے۔
اگرچہ جنسی تشدد کے شکار بچوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب سے تعلق رکھتی ہے مگر موت سے ہمکنار بچوں کی سب سے زیادہ تعداد (چار سو تراسی) سندھ سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ پنجاب میں دو سو تینتیس بچوں کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کے اسباب اور ان کا تدارک ایک الگ تحقیقی موضوع ہے۔
حالیہ برسوں میں پورنوگرافی کی صنعت میں بچوں کو جھونکنے کا رجحان پہلے سے کہیں زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے نے اس برس کے پہلے چھ ماہ میں ڈارک ویب پر پورنوگرافی کی تریپن وڈیوز کا سراغ لگایا۔ ان وڈیوز میں کم سن بچوں کا تناسب بَہتّر فیصد اور متاثرہ بچیوں کی شرح اٹھائیس فیصد ہے
قوانین کی کاغذی سختی کے باوجود تیز رفتاری سے وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ افسوسناک امید یہ ہے کہ دو ہزار تیئیس کی سالانہ رپورٹ سالِ گزشتہ کے مقابلے میں ریاست اور سماج کے ماتھے پر زیادہ بڑا کلنک کا ٹیکہ ثابت ہو گیاور ہم ان حقائق پر ایک روایتی آہ بھرتے ہوئے سماج میں آگہی پھیلانے اور سختی برتنے اور مجرموں کو بد دعائیں دیتے دیتے عملی ذمہ داریوں سے پہلے کی طرح اس بار بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
میں نے اب تک سنا ہی ہے کہ شتر مرغ خطرے کا سامنا کر کے اس سے نپٹنے کے بجائے ریت میں سر چھپا لیتا ہے۔کبھی ایسے شتر مرغ کو بچشم نہیں دیکھا۔ البتہ میں اپنی ریاست اور سماج کو روز اسی حالت میں دیکھتا ہوں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)