بلوچستان: وڈھ میں قبائلی لڑائی، ”دو ماہ سے اپنی زمینوں پر نہیں جا سکے“

ویب ڈیسک

بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں کئی روز سے دو گروہوں کے درمیان جاری تنازع کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے اور اس میں مزید شدت آ رہی ہے۔ تصادم کے دوران مزید دو ہلاکتوں کے بعد بیشتر مقامی لوگ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے

وڈھ میں کافی عرصے سے اختر مینگل اور شفیق مینگل گروپ میں جاری تنازع میں کچھ کمی آئی تھی لیکن گزشتہ تیرہ روز سے ایک بار پھر دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں اور وقفے وقفے سے ایک دوسرے پر فائرنگ اور گولہ باری کر رہے ہیں جس کے باعث اب تک دو افراد کی جان جا چکی ہے اور کم از کم نو زخمی ہوئے ہیں

وڈھ شہر میں گزشتہ تیرہ روز سے جاری جھڑپوں کے باعث بازار بند ہیں اور علاقے میں غذائی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ متعدد خاندان خوف سے علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی گزشتہ ماہ 19 جولائی کو علاقے میں دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن تھے۔ اس دوران فائرنگ سے علاقے میں مقامی کالج کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا اور ایک شخص زخمی بھی ہوا تھا

بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلٰی نواب اسلم رئیسانی نے دونوں قبائل کے درمیان مصالحت کرانے کی بھی کوشش کی اور فریقین نے لڑائی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن 15 اگست کے بعد سے علاقے میں صورتِ حال پھر کشیدہ ہے

وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے جو کوئٹہ شہر سے تقریباً 368 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جہاں دونوں گروہوں کے درمیان زمین کا تنازع چل رہا ہے، جس نے علاقہ مکینوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے

مقامی صحافی جبار بلوچ کا کہنا ہے کہ علاقے میں گزشتہ دو ماہ سے معمولات زندگی متاثر رہے ہیں مگر گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کشیدگی کے باعث مقامی بازار بند ہیں

اُنہوں نے بتایا کہ وڈھ کے مختلف علاقوں میں غذائی قلت پیدا ہو گئی ہے اور لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال ہو گیا ہے۔

جبار بلوچ کے مطابق وڈھ میں جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ”پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے صرف قومی شاہراہ پر روڈ بند کرنے اور کھلوانے کی حد تک میدان میں نظر آتے ہیں، تاہم جن علاقوں میں لوگ مورچہ زن ہیں، وہاں کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی“

انہوں نے بتایا کہ وڈھ میں گزشتہ دو ماہ سے سرکاری دفاتر، اسکول، کالجز اور دیگر تعلیمی ادارے بند ہیں، جس کی وجہ سے مقامی شہری اور طلبہ مشکلات کا شکار ہیں

ان کے بقول وڈھ کے مختلف علاقوں کلی سردار حبیب، کلی حاجی پیر محمد، سردار شہر، کلی عرض محمد، کلی عبدالحکیم سرمستانی، ہندو محلہ، بلوچ پاڑہ، سمیت دیگر علاقوں سے درجنوں خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں

وڈھ سے خضدار نقل مکانی کرنے والے ایک ہندو تاجر چندر کمار کا کہنا تھا ”علاقے میں جاری کشیدگی کے باعث میرے اہلِ خانہ خوف کا شکار تھے۔ علاقے میں ہر وقت فائرنگ اور گولہ باری کی آوازیں آتی تھیں ایسے لگتا تھا کہ اب گولہ گھر میں گرنے والا ہے۔“

چندر کمار نے بتایا کہ وڈھ بازار کی بندش کے باعث مقامی تاجروں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ مسئلے کا فوری حل نکالے تاکہ لوگوں کے معمولاتِ زندگی بحال ہو سکیں

واضح رہے کہ وڈھ کے لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر لوگوں کی زرعی زمینیں ہیں، جہاں پر دونوں گروپ مورچہ زن ہیں۔ اس صورتِ حال سے مقامی زمینداروں کو بھی لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے

مقامی زمیندار حاجی امام بخش مینگل کے مطابق، وہ گزشتہ دو ماہ سے اپنی زمینوں کی طرف نہیں جا سکے۔

اُنہوں نے بتایا ”علاقے میں فائرنگ سے بجلی لائنوں اور ٹرانسفارمرز کو نقصان پہنچا ہے، جس کی وجہ سے بجلی بند ہے اور فصلوں کو پانی نہیں مل رہا ہے۔“

کشیدہ حالات کے باعث کئی زمینداروں کی فصلیں پانی اور دیکھ بھال نہ ہونے کہ وجہ سے خراب ہو رہی ہیں اور لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے

دوسری جانب بلوچستان اور سندھ کو ملانے والی قومی شاہراہ کو روزانہ متعدد بار بند کرانا پڑ رہا ہے تاکہ وہاں سے گزرنے والے مسافروں اور مال بردار گاڑیوں کو نقصان سے بچایا جا سکے

اس حوالے سے حکام کی جانب سے کسی قسم کی کوئی وضاحت بھی سامنے نہیں آ رہی اور نہ ہی دونوں گروہوں کو اس لڑائی سے باز رکھنے کے لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے

یاد رہے کہ نگراں وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے گزشتہ دنوں کوئٹہ میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا تھا ”یہ قبائلی مسئلہ ہے اور ہم چیف آف ساراون نواب اسلم رئیسانی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو قبائلی طور پر حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close