آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں طبی تاریخ کا حیران کن کیس سامنے آیا ہے، جہاں ڈاکٹروں نے ایک چونسٹھ سالہ خاتون کے دماغ سے آٹھ سینٹی میٹر لمبا کیڑا نکالا ہے، جو دنیا میں کسی بھی انسان کا پیراسائٹ انفیکشن کے حوالے سے پہلا منفرد کیس ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق طبی تاریخ میں پہلی بار آسٹریلیا کی ایک خاتون کے دماغ میں تین انچ کا زندہ کیڑا پایا گیا ہے
سائنسی جریدے ’ایمرجنگ انفیکشیئش ڈیزیزز‘ میں شائع ہونے والے مطالعے کے مطابق آپریشن کے بعد مریضہ کے دماغ سے نکالے جانے کے بعد بھی ’اوفیڈاسکارس روبررٹسی‘ (Ophidascaris robertsi) نامی یہ راؤنڈ ورم زندہ تھا اور رینگ رہا تھا
ڈاکٹروں کے مطابق متاثرہ خاتون میں غیر معمولی نوعیت کی متعدد علامات تھیں، جن میں معدے کا درد، کھانسی، رات کو پسینہ آنے سمیت ڈپریشن شامل تھا۔ اس خاتون کی یادداشت بھی تیزی سے متاثر ہو رہی تھی اور وہ باتیں بھولنے لگی تھیں
خیال کیا جا رہا ہے کہ لال رنگ کا یہ کیڑا دو ماہ سے زیادہ عرصہ سے اس خاتون کے دماغ میں موجود تھا
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) کے ماہرین سمیت دیگر محققین کو شبہہ ہے کہ اس کیڑے کے لاروا جگر اور پھیپھڑوں سمیت خاتون کے دیگر اعضا میں بھی موجود ہو سکتے ہیں
اے این یو میں انفیکشن کے امراض کے ماہر اور مطالعے کے شریک مصنف سنجیا سینانائکے نے اس حوالے سے بتایا ”یہ دنیا میں کسی بھی انسان میں اوفیڈاسکارس نامی طفیلیے (پیراسائٹ) کا پہلا کیس ہے“
سنجیا سینانائکے کینبرا ہسپتال کے اس آپریشن میں شامل تھیں، جس میں متاثرہ خاتون کے دماغ سے کیڑا نکالا گیا۔ وہ بتاتی ہیں ”اس آپریشن تھیٹر میں ہر کسی کو ہی اس وقت شدید حیرانی ہوئی، جب سرجن نے آلے کی مدد سے ایک حرکت کرتی چیز نکالی، جو دراصل آٹھ سینٹی میٹر کا جیتا جاگتا لال کیڑا تھا۔ اگر آپ کراہت کو ایک طرف رکھ دیں تب بھی یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو کسی انسان میں اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی“
ماہرین کے مطابق نئے نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسانوں کے علاوہ یہ کسی میمل کی انواع کے دماغ میں مکمل پرورش پانے والے اوفیڈا اسکارس کیڑے کی موجودگی کا بھی پہلا منفرد کیس ہے۔ یہ کیڑا عموماً آسٹریلیا میں پائے جانے والے ’کارپیٹ پائیتھون‘ نامی سانپ میں بکثرت موجود ہوتا ہے، یہ سانپ زہریلے نہیں ہوتے
اس کیڑے کے لاروا عام طور پر چھوٹے میمل اور مارسوپیلز میں موجود ہوتے ہیں، جن کو یہ اژدھے کھا لیتے اور یہ اپنا لائف سائیکل ان سانپوں میں مکمل کرتے ہیں
ماہرین کے مطابق ”انسان حادثاتی طور پر ان کیڑوں کے لارووں کے میزبان بن سکتے ہیں“
خیال کیا جاتا ہے کہ نیو ساؤتھ ویلز کی رہائشی خاتون کے جسم میں یہ لاروا شاید ان کے گھر کے قریب جھیل کے ساتھ اگنے والی ’وریگال گرینز‘ نامی مقامی گھاس/ ساگ جمع کرتے ہوئے داخل ہوا ہوگا اور یہ لاروا کسی اژدھے کے فضلے کے ساتھ یہاں پہنچا ہوگا، جس میں اس کیڑے کے انڈے موجود تھے
پیراسائٹولوجی کے ماہر مہراب حسین ’جرنل فار ایمرجنگ انفیکشس ڈزیزز‘ میں لکھتے ہیں”خاتون حادثاتی طور پر اس کیڑے کی میزبان بن گئیں، کیونکہ انہوں نے ایک ایسی گھاس کو کھانا پکانے کے لیے استعمال کیا، جس میں ایک مخصوص قسم کے سانپ کا فضلہ اور کیڑوں کے انڈے بکثرت موجود تھے“
ڈاکٹر مہراب حسین کے مطابق ”دماغ پر اس کیڑے کے حملے کا کوئی کیس اب تک سامنے نہیں آیا تھا اور تیسری اسٹیج کے لاروا کی جانب سے انسانی میزبان میں پرورش ایک اہم دریافت ہے کیونکہ ماضی میں ہونے والے تجربات، جن میں بھیڑوں، کتوں اور بلیوں کا جائزہ کیا گیا تھا، میں اس طرز کی لاروا کی پرورش نظر نہیں آئی تھی“
واضح رہے کہ راؤنڈ ورمز مزاحمت اور کئی اقسام کے ماحول میں کامیابی سے زندہ رہنے کی صلاحیت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انسانوں میں ان کی موجودگی پیٹ درد، متلی، اسہال، بھوک کی کمی، وزن کی کمی، بخار اور تھاوٹ جیسی علامات کا باعث بن سکتی ہے
اس نئے مطالعے میں محققین کا کہنا ہے کہ خاتون نے اس مقامی گھاس/ ساگ کو پکایا تھا اور اس گھاس کو کھانے یا اسے چھونے کی وجہ سے اس پیراسائٹ کا شکار بن گئیں
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون میں سب سے پہلے جنوری 2021 میں علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ پہلے پہل وہ پیٹ درد اور اسہال میں مبتلا ہوئیں، جس کے بعد سانس لینے میں دشواری، کھانسی اور بخار کی شکایات پیش آئیں
پیٹ درد اور اسہال جیسی علامات میں تین ہفتے مبتلا رہنے کے بعد مسلسل خشک کھانسی، بخار اور رات کو پسینے آنے کے بعد چونسٹھ سالہ اس خاتون کو جنوری 2021 میں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جہاں اُن کے دماغ کے سامنے والے حصے میں ایک غیر معمولی تبدیلی نظر آئی۔ تاہم ڈاکٹروں کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی اور حقیقت تب ہی آشکار ہوئی جب سرجن نے جون 2022 میں دماغ سے کیڑا نکالا
طبی تاریخ کا حصہ بن جانے کے بعد اب یہ خاتون روبہ صحت ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علامات کی وجوہات شاید راؤنڈ ورم کے لاروا کی پیٹ سے جگر اور پھیپھڑوں جیسے اعضا میں منتقلی کے باعث پیش آ رہی تھیں
جب ان کے نظام تنفس اور پھیپڑوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان کے ٹشوز میں طفیلیے کی موجودگی کا پتہ نہیں چلا
کینبرا ہسپتال سے وابستہ اور اس مطالعے کی مصنفہ کرینہ کینیڈی نے اس بارے میں بتایا ”اس وقت جب انسانی انفیکشن کا باعث بننے والے مائیکروسکوپک لاروے کی تلاش، جس کا پہلے پتہ نہیں چلایا جا سکا، گھاس کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے کی کوشش جیسا عمل تھا۔“
2022 تک خاتون کی یاداشت اور سوچنے کی صلاحیت میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ اس وقت تک ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی یاداشت کھونے اور ڈپریشن کا شکار ہیں، جس کے باعث ایم آئی آر ٹیسٹ کرایا گیا، جس میں ان کے دماغ کے سامنے والے حصے کے ٹشو میں زخم کا پتہ چلا
اس کے بعد یہ کینبرا ہسپتال کے نیورو سرجن تھے، جن کو بالآخر آٹھ سینٹی میٹر کیڑے کا پتہ چلا، جس کی پیراسائٹالوجی کے ماہرین اور مالیکیولر مطالعے سے تصدیق ہوئی
ڈاکٹر کینیڈی کے مطابق، ”ایسے لوگ جو باغبانی کرتے ہیں یا جنگلوں میں خوراک تلاش کرتے ہیں، انہیں باغبانی اور ایسی خوراک کو ہاتھ لگانے کے بعد اچھی طرح اپنے ہاتھ دھونے چاہیں“
انہوں نے کہا ”کوئی بھی خوراک جو کھانا پکانے یا بطور سلاد استعمال کی جائے، انہیں بھی اچھی طرح دھونے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کچن کی جگہوں اور کٹنگ بورڈز کو استعمال کے بعد دھونا اور صاف کرنا چاہیے۔“
محققین نے خبردار کیا کہ اس کیس سے بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا میں جانوروں سے انسانوں میں انفیکشنز منتقل ہونے کا حقیقی خطرہ موجود ہے، جہاں وہ ایک دوسرے کے مسکن میں مداخلت کر رہے ہیں
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں میڈیسن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سنجیا سینانائکے اس کیس کو ایک وارننگ قرار دیتی ہیں
ان کی ٹیم کے مطابق گذشتہ تیس سال میں تیس قسم کے نئے انفیکشن سامنے آ چکے ہیں، جن میں سے 75 فیصد ایسے ہیں، جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے، جس کا مطلب ہے کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں
سنجنا سینانائکے کہتی ہیں ”اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی آبادی کے بڑھنے سے ہم جانوروں کے رہائش گاہوں کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بار بار سامنے آ رہا ہے۔ چاہے یہ نپاہ وائرس ہو جو جنگلی چمگاڈروں سے سور میں اور پھر انسانوں میں منتقل ہوتا ہے یا پھر کورونا وائرس ہو جو چمگاڈروں سے کسی اور جانور کے ذریعے انسان میں آ جاتا ہے“
انہوں نے کہا ”اگرچہ کورونا اب کم ہو رہا ہے لیکن یہ بات اہم ہے کہ حکومتیں نئی بیماریوں کی چھان بین جاری رکھیں“