قیام پاکستان سے پہلے کا ڈرگ روڈ
یہ علاقہ دراصل کراچی کی ایک مشہور اور معروف سڑک ڈرگ روڈ کے نام سے موسوم تھا۔ یہ سڑک ایک انگریز کرنل ڈرگ کے نام سے منسوب تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس سڑک کے دونوں جانب فوجیوں کے لیے بیرکس اور اسٹور تعمیر کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک ریلوے اسٹیشن بھی تعمیر کیا گیا تھا جو خالص فوجی مقاصد کے لیے تھا۔ 1924 میں یہاں سول ہوائی اڈا بھی تعمیر کیا گیا تھا اور پھر دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی ہوائی اڈا بھی تعمیر کیا گیا۔ انگریزوں نے ہندوستانی فضائی فوج کو ڈرگ روڈ کے مقام پر ہی منظم کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اس ہوائی اڈے کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی ہوائی اڈے کے صدر دفتر میں قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے پرچم کو لہرانے کی تقریب منعقد ہوئی تھی اور یوں پہلی بار پاکستان کی فضاؤں میں سبز ہلالی پرچم اسی ہوائی اڈے پر لہرایا گیا تھا۔
ہوائی اڈا بننے اور ریلوے اسٹیشن کہ قیام کی وجہ سے اس علاقے میں ایک چھوٹا سا قصبہ وجود میں آگیا تھا جو ڈرگ روڈ کی مناسبت سے ڈرگ کالونی کے نام سے مشہور ہوا تاہم اس کے علاوہ بھی کچھ گوٹھ یہاں پہلے سے موجود تھے۔
اس چھوٹے سے قصبے میں ایک گرجا گھر بھی تھا جو اب تک قائم ہے۔ اس کے علاوہ پارسیوں کا مرگھٹ بھی ریلوے اسٹیشن کے قریب قائم تھا، جس میں سینکڑوں گدھ اور چیلیں منڈلاتے رہتے تھے تاہم یہ مرگھٹ قیام پاکستان سے بھی پہلے ختم کر دیا گیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد کی ڈرگ کالونی
قیام پاکستان کے بعد بہت بڑی تعداد میں ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کی یہ لوگ تعلیم یافتہ اور انتہائی ہنر مند تھے مگر اپنا سب کچھ ہندوستان چھوڑ آئے تھےاور سب نے اپنی زندگی صفر سے شروع کی۔ جب ان کی تعداد بڑھی تو ان لوگوں نے کراچی کے مضافات میں رہائش اختیار کرنا شروع کی۔ 1950 میں جب کمشنر کراچی نے آبادکاری پروگرام کے تحت وسیع اراضی پر پلاٹ ڈرگ کالونی میں چکور نالے (کسی زمانے میں اس نالے پر موسم سرما میں چکور آکر بیٹھا کرتے تھے جس کی وجہ سے اس نالے کا نام چکور نالہ پڑ گیا) کے پاس زمین الاٹ کی تو لوگوں نے پہلے کچے مکانات بنانا شروع کیے۔ گھروں کی تعمیر کے لیے اکثر لوگ خود اپنے ہاتھوں سے مٹی کی کچی اینٹیں تیار کرتے اور گھروں کی چھتیں چٹائیوں سے بناتے۔ دروازے کھڑکیاں لگانے کے اگر پیسے نہیں ہوتے تو ٹاٹ کی بوریوں سے پردہ بنا کر لگا دیتے۔ کھلے گھر میں خواتین کے پردے کے انتظام کے لیے ایسی بیلوں کے پودے زمین میں لگائے جاتے تاکہ یہ بیلیں پھیل جانے کے بعد پردے کا کام کریں۔ شروع شروع میں بجلی کا تصور بھی نا تھا اور لالٹین ہی پر گزارا تھا۔
1951ء میں چکوری نالے سے تھوڑا آگے جا کر سرکار نے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ 80 گز کے کوارٹرز بنانا شروع کیے اور اسے ایک نمبر سے پانچ نمبر تک پانچ بلاکس میں تقسیم کیا۔ کراچی میں مہاجرین کے لیے قائم مختلف عارضی خیمہ بستیوں میں سے لوگ ان کوارٹرز میں لا کر بسائے گئے۔ ان کوارٹرز میں بسنے والے مہاجرین میں سب سے زیادہ بڑی تعداد الہ اباد سے آنے والے مہاجرین کی تھی اس کے علاوہ بہار، لکھنو، فتح پور، امروہہ اور دہلی وغیرہ سے آنے والے مہاجرین بھی یہاں بڑی تعداد میں آباد ہوئے۔
قیام پاکستان سے پہلے کی ڈرگ کالونی ہمیشہ سے کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر کنٹرول تھی اور اب بھی کنٹونمنٹ بورڈ کے ہی انڈر آتی ہے اور یہ اب ایک بہت بڑی آبادی بن گئی ہے۔ کینٹ بازار یہاں کا سب سے پرانا اور مشہور بازار ہے۔ اسی مناسبت سے یہ پورا علاقہ کینٹ بازار کا علاقہ یا اب بھی اسے ڈرگ روڈ کا علاقہ کہا جاتا ہے.
گورنمنٹ کی طرف سے بسائی گئی کالونی میں 80 گز کے کوارٹرز اور کم رقبے پر دیگر رہائشی بلاکس کے علاوہ 400 گز کا رہائشی علاقہ بھی موجود ہے جس میں بڑے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ یہ یہاں کا پوش علاقہ ہے اور انتہائی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ بنایا گیا ہے۔
1960 میں ڈرگ کالونی نمبر 3 میں ہاجرہ آباد کالونی کے نام سے کمشنر سید دربار علی شاہ نے سنگ بنیاد رکھا جس کی تکمیل پر محترمہ فاطمہ جناح نے مکینوں میں چابیاں تقسیم کی۔ اس وقت ایک کوارٹر کی قیمت 3 ہزار روپے تھی اور وہ بھی قسطوں میں وصول کی گئی۔ اس میں ایک کمیونٹی سینٹر بھی قائم کیا گیا، جس کا نام معروف خاتون بیگم قیوم کے نام پر رکھا گیا۔ اسی طرح کا 4 نمبر میں بھی ایک کمیونٹی سینٹر کھوکھر کلب کے نام سے قائم ہے۔ اس کے علاوہ شاہ فیصل ایک نمبر پر مرکزی سڑک بازار کی صورت اختیار کر گئی ہے، جہاں سب سے قدیم بازار سبزی گلی کے نام سے مشہور ہے۔ پرانے شمع سینما پر اب شمع شاپنگ سینٹر بنا دیا گیا ہے جو کالونی کا سب سے مشہور شاپنگ سینٹر بن گیا ہے.
سپیریئر کالج والی ڈبل روڈ پر ہی آگے جا کر پشاوری چپلی کباب بہت مشہور ہیں اور لذیذ اتنے ہیں کہ شاید پشاور میں بھی ایسے لذیذ چپلی کباب نہ بنتے ہوں. اس کے علاوہ بمبئی بریانی، رحمان بیکرز، بمبئی بیکری، دہلی سویٹس اور امینیہ سویٹس بھی بہت مشہور ہیں.
کالونی کی ترقی میں سعید وارثی صاحب کا اہم کردار تھا، جنہوں نے 1964ء میں مجلس سماجی کارکنان کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جبکہ اس کا دفتر ایک نمبر پر بنایا گیا تھا۔
ڈاکٹر قدسیہ شوکت عمر، جو 1929ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئی تھیں، ان کی شادی کے 12 دن بعد ہی ان کے شوہر شوکت عمر کا انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹر قدسیہ نے ان کی یاد میں 30 اگست 1960 کالونی میں ہی عید گاہ کے برابر میں شوکت عمر کے نام سے ایک ہسپتال قائم کیا۔ 1979ء میں انہوں نے اس ہسپتال کو فوجی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا، جو آج تک اس کے انتظام کو دیکھتا ہے۔
کچھ ذکر شاہ فیصل ٹاؤن کا
یکم ستمبر 1977 کو ڈرگ روڈ کا نام شاہراہ فیصل اور ڈرگ کالونی کا نام شاہ فیصل کالونی رکھ دیا گیا۔ یوں یہ پورا علاقہ شاہ فیصل کالونی کے نام سے مشہور ہو گیا تاہم اب بھی پرانے لوگ اسے ڈرگ کالونی کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔
یہ علاقہ کراچی شہر کے شمال مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ شاہ فیصل کالونی کا علاقہ ہمیشہ سے ضلع شرقی کا حصہ رہا ہے مگر 2000ء میں جب ضلعی نظام کو ختم کر کے ٹاؤن سسٹم متعارف کرایا گیا تو شاہ فیصل کالونی کو بھی ایک ٹاؤن بنا دیا گیا۔ یہ ٹاؤن ڈرگ روڈ کے اسٹیشن سے شاہراہ فیصل اور نیشنل ہائی وے کے ساتھ ساتھ ملیر ندی تک تھا۔ اس طرح شاہ فیصل کالونی کی حدود بھی بڑھ گئی اور اس میں ملیر کے علاقے شمسی سوسائٹی، الفلاح، رفاہ عام، باغ ملیر جامعہ ملیہ اور بابا ولایت شاہ کے مزار سے ملیر ندی تک کے علاقے شامل کر دیے گئے۔
2013ء میں جب ٹاؤن سسٹم کو ختم کر کے دوبارہ ضلعی نظام نافذ کیا گیا تو شاہ فیصل کالونی کو نئے بننے والے ضلع کورنگی کی ایک تحصیل کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ 2022 کے ضلعی ٹاؤن سسٹم میں شاہ فیصل ٹاؤن کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے تاہم موریہ خان گوٹھ کو اب ملیر میں شامل کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی گوٹھ ہے جس میں ہندو برادری کے بھی کافی گھر موجود ہیں اور وہ اپنے تمام رسم و رواج اسی جگہ منعقد کرتے ہیں۔ اس کے شمال مشرق میں ملیر، مشرق میں بن قاسم ٹاؤن، جنوب میں لانڈھی اور کورنگی ہیں جبکہ شمال مغرب میں فیصل کنٹونمنٹ واقع ہے۔
شاہ فیصل ٹاؤن کے مختلف علاقے
شاہ فیصل ٹاون میں ایک نمبر سے پانچ نمبر تک کے علاوہ سادات کالونی، ناتھا خان گوٹھ، ریتا پلاٹ، عظیم پورہ، گرین ٹاؤن، گولڈن ٹاؤن، پنجاب ٹاؤن، وائرلیس گیٹ، شمسی سوسائٹی، رفاہ عام سوسائٹی، الفلاح سوسائٹی، باغ ملیر، بابا ولایت شاہ کے مزار کا اطراف، گوہر گرین سٹی، ملت ٹاؤن، گلفشاں سوسائٹی، پنجاب ٹاؤن، آصف آباد، سلمان فارسی سوسائٹی، بلال ٹاؤن، جامعہ ملیہ اور اس سے ملحقہ رفیع بلڈرز کی مختلف سوسائٹیز اور ملیر ندی تک کے دیگر گوٹھ جن میں خاص طور پر قدیم جمعہ گوٹھ اور صدیق گوٹھ شامل ہیں۔
اس ٹاؤن کی ایک اور بڑی پہچان یہ بھی ہے کہ اس میں جامعہ ملیہ کے پیچھے اور ملیر ندی کے ساتھ پاکستان کی دو معروف ترین حویلیاں بھی تھیں، جن میں سے ایک نواب آف بہاولپور نواب صادق عباسی کی تھی. اسی حویلی میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی کئی دفعہ قیام کیا ہے، مگر اب اس تاریخی حویلی کے باغ کو ختم کر کے اسی کی زمین پر گوہر گرین سٹی قائم کی گئی ہے جبکہ اصل حویلی کی عمارت کو اب بھی اسی حالت میں قائم رکھا گیا ہے۔ سنا ہے کہ اس میں آڈیٹوریم اور جمنازیم بنایا جائے گا. اس حویلی کے بالکل سامنے بھوپال ہاؤس ہے جہاں بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان قیام پاکستان کے بعد سے اپنی وفات تک رہائش پذیر رہیں اور ان کی قبر بھی یہیں موجود ہے. PCB کے سابق چیئرمین شہریار خان انہی کے فرزند ہیں.
تعلیمی ادارے
موجودہ دور میں شاہ فیصل کالونی کی تعلیم کے فروغ میں سب سے اہم کردار سپیریئر کالج، خورشید گرلز کالج اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین پانچ نمبر شاہ فیصل کالونی کا ہے۔ شاہ فیصل کالونی سے لے کر ملیر تک کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد انہی دو کالجوں سے وابستہ رہی ہے۔ اس سلسلے میں خورشید گرلز کالج کی ایک سابقہ پرنسپل پروفیسر زینت ابتہاج کا کردار بہت اہم ہے۔
ان 3 تعلیمی اداروں سے بھی پہلے پورے مضافاتی علاقے میں جس ادارے کا سب سے اہم کردار رہا ہے وہ اسی ٹاؤن کے علامہ اقبال کالج کا ہے، جو پہلے اسٹار گیٹ کے پاس واقع تھا اور پروفیسر حسنین کاظمی نے اپنے رفقاء کے ساتھ 1966ء میں قائم کیا تھا۔ 2002ء میں اس کالج کی گرلز کو شاہ فیصل 2 نمبر پر جامعہ حمادیہ کے برابر میں گرلز کالج کے لیے بنائی گئی نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ پرانی عمارت میں اور نئی عمارت میں بھی ایک طویل عرصے تک پروفیسر نوشابہ صدیقی پرنسپل رہیں۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو منعقد کرانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
جامعہ ملیہ کا قیام مولانا محمد علی جوہر نے 1920ء علی گڑھ میں کیا تھا، جسے بعد میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر محمود حسین نے 1948ء میں جامعہ ملیہ کے سابق طالب علموں کی ایک تنظیم بنا کر جامعہ ملیہ کے ہی نام سے بڑی اراضی حاصل کی اور مختلف تعلیمی ادارے کھولے۔ موجودہ ضلع ملیر اور ضلع کورنگی کی تعلیمی ترقی میں اس ادارے کا کلیدی کردار ہے۔ ڈاکٹر محمود حسین کی قبر بھی جامعہ ملیہ کے احاطے میں موجود ہے.
ان بڑے تعلیمی اداروں کے علاوہ شاہ فیصل ٹاؤن میں ہر بڑے اسکول کی برانچ موجود ہے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کے تحت قائم تعلیمی اداروں میں برائٹ سکسیس کوچنگ سینٹر، فارابی کوچنگ سینٹر اور آدم جی وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں تاہم ماضی میں العمر کوچنگ سینٹر اس علاقے کا سب سے بڑا کوچنگ سینٹر تھا مگر اب برائٹ سکسیس کوچنگ سینٹر اس علاقے کا سب سے بڑا کوچنگ سینٹر ہے. جبکہ جامعہ فاروقیہ، جامعہ حمادیہ، مدرسہ قادریہ سبحانیہ اور دارالعلوم مدرسہ روحانیہ اسلامیہ جیسے بڑے مدارس بھی شاہ فیصل ٹاؤن میں واقع ہیں۔
معروف شخصیات
شاہ فیصل میں رہائش اختیار کرنے والے معروف ادبی لوگوں میں حمایت علی شاعر، ڈاکٹر ہلال نقوی، سرشار صدیقی، منظر ایوبی، سرور بارہ بنکوی، سید یاور مہدی، اوج کمال، شعیب ناصر، ساقی امروہوی، ابرار حسین اثر سلطان پوری، چھجن صاحب اور اطہر نفیس شامل ہیں۔ معروف ہاکی کے کھلاڑی سمیع اللہ، کلیم اللہ، سلیم شیروانی اور شہناز شیخ جبکہ کرکٹر توصیف احمد اور معروف بینکر زیارت علی کا بھی شاہ فیصل کالونی مسکن رہ چکا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج، پروفیسر ضیاء اللہ صدیقی, پروفیسر عطا اللہ حسینی، جسٹس اقبال رضوی، پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین قادری، پروفیسر ریاض احمد بدایونی، پروفیسر ناصر عباس، پروفیسر محمد کاظم، پروفیسر ذکا اللہ صدیقی، پروفیسر سیف اللہ، پروفیسر قاسم قمبر، پروفیسر اقبال انصاری، پروفیسر مسعود احمد فاروقی، پروفیسر چودھری احسان اللہ، پروفیسر ڈاکٹر طاہر علی، پروفیسر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر صبا زہرا، پروفیسر نصر اقبال، پروفیسر حامد، پروفیسر عاکف، پروفیسر ڈاکٹر عدنان احمد، پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل بدایونی، پروفیسر طہٰ عباس، پروفیسر سعید الرحمٰن، پروفیسر بو فہیم عبدالرحمٰن، پروفیسر مدثر اور معروف سیاست دان کنور قطب الدین کا تعلق بھی شاہ فیصل ٹاؤن سے ہی ہے۔
حوالہ جات: اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب اور مضامین سے مدد لی گئی ہے:
1۔ بلدیہ کراچی سال بہ سال (بشیر سدوزئی)
2۔ کراچی تاریخ کے ائینے میں (محمد عثمان دموہی)
3. پاکستان کرونیکل (ڈاکٹر عقیل عباس جعفری)
4۔ شہروں میں شہر کراچی (نسرین اسلم شاہ)
5۔ سادات کالونی ڈرگ روڈ (سید ظہیر حسن زیدی)
6۔ عرب نیوز (29 مارچ 2019)
7۔ وادی ملیر (حمید ناضر)
8۔ کچے گھر تھے اور جھونپڑیاں (شگفتہ فرحت اخبار جنگ 6 اکتوبر 2021)
9۔ وکیپیڈیا
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)