اگرچہ لڑنا بِھڑنا انسانوں، جانوروں اور پرندوں کی فطرت میں شامل ہے لیکن ان کا ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ منظم جنگ کرنا۔۔۔ یہ ناممکنات میں سے لگتا ہے۔ جنگ بھی ایسی کہ جس میں گولہ بارود کی گھن گرج اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ ہو!
لیکن بظاہر ناممکن لگتا یہ واقعہ بھی تاریخ کے صفحات میں درج ہے۔ آسٹریلوی ویب سائٹ آسٹریلین جیوگرافک ڈاٹ کام پر ایک عجیب و غریب جنگ ’دی گریٹ ایمیوز وار‘ کے بارے میں بتایا گیا ہے
ہوا ہچھ یوں کہ ضلع کیمپین کے ایک زرعی علاقے میں پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کو زمنییں الاٹ کی گئیں کہ وہ وہاں اناج اگائیں
یہ سنہ 1932 کی بات ہے جب فوجیوں نے الاٹ کی گئی زمین کو جھاڑ جھنکار کی صفائی ستھرائی کے بعد اسے ہموار کیا، اس پر ہل چلائے، بیج بویا، پانی لگایا اور بالآخر گندم کی فصل زمین کا سینہ چیر کر پھوٹنے لگی
سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، لیکن دوسری جانب آسٹریلوی شترمرغ (ایمیوز) کے غول موجود تھے، جو بدلتے موسم کے بعد خوراک اور افزائشِ نسل کے لیے نقل مکانی کی تیاری کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے شتر مرغوں کے غول نے اسی علاقے کا رخ کیا، جہاں آسٹریلوی فوجیوں نے فصلیں اگائی تھیں
اردگرد دیہات والے کسانوں نے فصلوں کو خرگوشوں سے بچانے کے لیے حفاظتی تار لگا رکھے تھے، جبکہ کسی حد تک انتظام فوجیوں نے بھی کر رکھا تھا، جو ایمیوز کو روکنے کے لیے قطعی ناکافی تھا
واضح رہے کہ ’ایمیو‘ شُترمرغ کی طرح کا ’ریٹائرڈ‘ پرندہ ہے، یہ اصطلاح ان پرندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو اُڑ نہیں سکتے۔ اس کا قد چھ فٹ تک ہوتا ہے۔ یہ اونچی اور لمبی جست لگانے اور برق رفتاری سے دوڑنے میں ماہر ہوتا ہے۔ اس کو ’آسٹریلین شترمرغ‘ بھی کہا جاتا ہے
نوماڈز ورلڈ اور سائنس اے بی سی پر دی گئی رپورٹس کے مطابق جب سستانے کے لیے بیٹھے فوجیوں کی نگاہ میں چند ایمیو آئے تو ایک نے مسکراتے ہوئے کہا ”یہ کہاں سے آ گئے“ اور پھر ڈنڈوں کے اشاروں اور ہاؤ ہُو کر کے انہیں بھگا دیا
لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس نے ان فوجیوں کا آرام سے کام کرنا اور بیٹھنا تک حرام کر دیا
پھر ایک غول دیکھا گیا جو حفاظتی تاروں کو پھلانگتا چلا گیا، ان کے پنجوں میں پھنس کر تار بھی اکھڑتے گئے، جس پر خرگوشوں کی یلغار کی راہ بھی ہموار ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے فصل کا اچھا خاصا حصہ تلپٹ ہو گیا، بہرحال فوجیوں نے کافی کوششوں کے بعد ایمیوز کو ایک بار پھر بھگا دیا
لیکن امیوز بھی کہاں ہار ماننے والے تھے۔ اگلے روز وہ اس سے بھی زیادہ تعداد میں آن پہنچے۔ اتنی بڑی تعداد کو روکنا مشکل ہی ناممکن بھی تھا، اس لیے انہوں نے جی بھر کر فصل اجاڑی، اٹکھیلیاں کیں، فوجیوں کی طرف دیکھ کر عجیب سی آوازیں نکالیں، جیسے کہہ رہے ہوں ’ہمت ہے تو روک کر دکھاؤ‘ فوجیوں کو لگا جیسے امیوز ان کا مذاق اڑا رہے ہیں
اس کے بعد فوجی سر جوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ حکومت کو آگاہ کیا جائے۔ اس وقت کے وزیر دفاع سے ملاقات کا پروگرام بنایا گیا اور یوں فوجیوں کے چند نمائندے سر جارج پیریئس سے ملنے جا پہنچے
ملاقات میں طے پایا کہ حفاظتی جنگلوں کو مزید مضبوط بنایا اور اونچا کیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا مگر اونچی جست کی طاقت رکھنے والے ایمیوز کو نہیں روکا جا سکا
اس کے بعد ایک اور وفد ترتیب دیا گیا جو ایک بار پھر وزیر فاع سر جارج پیریئس سے ملا، جس میں طے کیا گیا کہ ایمیوز کی تعداد کم کر دی جائے تو ان کا زور ٹوٹ جائے گا اور وہ فرار ہو جائیں گے۔ اس کے لیے فوجیوں کو دو مشین گنز دی گئیں، چونکہ فوجی انہیں چلانے کا تجربہ رکھتے تھے، اس لیے سب کا یہی خیال تھا کہ بس معاملہ حل ہو گیا
سر جارج پیریئس نے یہ ہدایت بھی کی کہ مارے جانے والے ایمیوز کی کھالیں جمع کی جائیں، ان سے ہیٹ بنائے جائیں گے جبکہ اسے فوجیوں کے لیے ’نشانہ بازی‘ کی بہترین مشق بھی قرار دیا گیا۔ یہ بھی طے پایا کہ معاملے کی ہوا میڈیا کو نہ لگنے دی جائے
یہ 2 نومبر 1932 کی بات ہے، جب ایمیوز نے فصلوں کا رخ کیا تو انہیں اندازا نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ انہیں موقع دیا گیا کہ وہ اچھی طرح بے خوف ہو جائیں اور پھر جھاڑیوں میں چھپے چند فوجیوں نے ان پر آتشیں ہتھیاروں کے منہ کھول دیے، جس پر ایمیوز بدک گئے اور ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ کچھ ایمیوز کو گولیاں لگیں اور باقی اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے گولیوں کی پہنچ سے بہت جلد نکل گئے اور پیچھے کی طرف بھاگ گئے
فوجی مطمئن ہوگئے کہ اب وہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کریں گے، لیکن یہ ان کی خیال خام ثابت ہوئی
ایک دن چھوڑ کر 4 نومبر کو امیوز اپنے وقت سے قبل بہت بڑی تعداد میں امڈ آئے۔ اس بار لگتا تھا کہ وہ پوری تیاری سے آئے ہیں کیونکہ وہ مشین گنز کے سامنے آنے سے گریز کرتے رہے۔ جس طرف بھی مشین گن اٹھتی وہ آناً فاناً چوکڑیاں بھرتے ہوئے غائب ہو جاتے۔ تھوڑی دیر بعد مشین گنیں جام ہو گئیں اور چند ہی ایمیوز نشانہ بن پائے، جبکہ کچھ زخمی ہوئے، جن کو ’حراست‘ میں لے لیا گیا۔
تاہم اس کے باوجود بھی فوجی اس حد تک زچ ہوئے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسے بات نہیں بنے گی۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر گولہ بارود بھی استعمال کرنا پڑے گا
وزیر داخلہ کو علم ہوا تو انہوں نے وفد کو ضروری سامان مہیا کرتے ہوئے صاف کہا کہ ’جَسٹ کِل دیم‘ اور باقاعدہ طور پر ’جنگ‘ کا اعلان کرتے ہوئے اس کی کمان میجر میریڈتھ کو سونپی گئی
ابھی اس معاملے کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تھا کہ میڈیا کو خبر ہو گئی اور جب مشین گنوں نے آگ اگلنا شروع کی اور کھیتوں میں دھماکے شروع ہوئے تو صحافی وہاں کیمروں کے ساتھ پہنچ چکے تھے۔ زبردست لڑائی ہوئی۔ اس روز ایمیوز نے صرف جان بچا کر بھاگنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کچھ فوجیوں پر حملے بھی کیے
اب یہ فیصلہ ہوا کہ ایمیوز کے آنے کا انتظار کرنے کے بجائے اس جنگل میں جا کر نشانہ بنایا جائے، جہاں وہ چھپ جاتے ہیں۔ گاڑیاں بھیجی گئیں تاہم زیادہ تر ایمیوز محفوظ رہے کیونکہ وہاں بے تحاشا درخت تھے اور اونچے نیچے راستے پر گاڑیاں دوڑانا بھی ممکن نہیں تھا اس لیے یہ معرکہ بھی ایک لحاظ سے ایمیوز نے ہی جیتا
اس کے بعد بھی کئی روز تک کارروائیاں ہوتی رہیں اور کئی ہزار گولیاں چلا کر بھی چند سو ایمیوز ہی مارے گئے۔ یہ تعداد ان کی لگ بھگ تیس ہزار کے قریب آبادی کے مقابلے میں بہت کم تھی
8 نومبر تک تین ہزار سے زائد راؤنڈ فائر کیے جا چکے تھے لیکن دو سے پانچ سو تک ایمیوز ہی ہلاک ہوئے۔ پرندوں کے ایک ماہر ڈومینک سر وینٹی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”فوجیوں کا خیال تھا کہ وہ بے شمار پرندے مار لیں گے تاہم ایمیوز نے گوریلا لڑائی شروع کر دی اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے، جس پر فوجی ہتھیار بے کار ہو گئے اور مہینہ بھر کی لڑائی کے بعد فوج کے ہاتھ کچھ نہ آیا“
میڈیا نے ایمیوز کا ساتھ دیا
اس وقت کے اخبارات کے لیے ’ایمیوز وار‘ ایک ہاٹ موضوع تھا۔ اس پر رپورٹس چھپتیں، کارٹون بنتے۔ لوگوں کی جانب سے آپریشن پر سخت تنقید شروع ہو گئی اور وزیر دفاع کو ’منسٹر فار ایمیوز وار‘ کہا جانے لگا
پھر آسٹریلیا کے ایوان نمائندگان میں اس معاملے پر بحث شروع ہوئی اور جنگ کی پوری رپورٹ پیش کی گئی
انہی دنوں معرکے کی کمان کرنے والے میجر میریڈتھ کا بیان سامنے آیا، جس میں ان کا کہنا تھا ”وہ زولوز (سخت جان افریقی لوگ) کی طرح ہیں۔ مشین گن کا ان پر اتنا ہی اثر ہوتا ہے، جتنا کسی ٹینک پر۔۔ ان کے لیے گولیاں بے کار تھیں“
انہوں نے مزید کہا ”ایمیوز کئی گولیاں کھا کر بھی بے جگری سے لڑتے ہیں اور کسی سخت جان فوج سے کم نہیں“
تقریباً سوا مہینے تک جاری رہنے کے بعد 10 دسمبر کو حکومت نے ہار مانتے ہوئے کارروائی ختم کرنے کا اعلان کیا اور بتایا گیا کہ لڑائی میں کُل 986 ایمیوز مارے گئے جبکہ ڈھائی ہزار زخمی ہوئے جو بعدازاں دم توڑ گئے۔ فوجیوں نے مجموعی طور پر دس ہزار سے زائد گولیاں چلائیں
اگرچہ حکومت کے اعلان کے ساتھ ہی واضح ہو گیا کہ ایمیوز جیت چکے ہیں تاہم اس فتح کے بعد ایمیوز نے کس قسم کے جذبات کا اظہار کیا، کوئی جشن منایا پارٹی کی یا نہیں، اس حوالے سے راوی خاموش ہے۔