ہم پیدل ہی اس پل سے گزر کر اٹک خورد ریلوے اسٹیشن پہنچے ہیں۔ سر سبز پہاڑوں میں گھرا یہ ریلوے اسٹیشن انیسویں صدی کے ولایت کا کوئی اسٹیشن معلوم ہوتا ہے۔ مجھے لمحہ بھر کے لئے محسوس ہوا میں اٹھارویں صدی کے ’ولیم وڈزورتھ‘ کے ولایت میں ہوں۔ پرسکون ماحول، پلیٹ فارم پر رکھے لکڑی کے بنچ، مخروطی طرز کی چھتیں، پرانی طرز کے لوہے کے کھمبے اُن سے جھولتی لمبوتری لالٹین، سر سبز پہاڑ، پہاڑ کے گرد گھومتی نیم گولائی میں گزرتی ریل کی پٹری، پرانی اینٹ سے بنی ریلوے اسٹیشن کی پر شکوہ عمارت، اسٹیشن کے احاطے سے ملحق چند پرانی طرز کے بنے ریلوے ملازمین کے کوارٹر اور ریل کے انتظار میں بیٹھے چند مسافر۔۔ مجھے لگا وڈزورتھ بھی اسی اسٹیشن کے کسی بنچ پر بیٹھا اپنی شہرہ آفاق نظم ’the prelude‘ کا کچھ حصہ لکھا ہوگا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں، بلا شبہ یہ پاکستان کا سب سے خوبصورت ترین ریلوے اسٹیشن ہے۔ 2007ء میں اسے ’ٹورسٹ ریزوٹ‘ کا درجہ دیا گیا ہے اور پاکستان ریلوے نے راولپنڈی اور لنڈی کوتل کے درمیان ’سفاری ٹرین‘ سروس کا آغاز کیا ہے تاکہ سیاح اس تاریخی ریل روٹ کا بھرپور نظارہ کر سکیں۔ یقیناً ایسے منصوبے اس ملک میں سیاحت کے فروغ کا باعث ہیں۔
بل کھاتی سڑک پر جیپ دوڑی چلی جا رہی ہے۔ سندھو ’کالا چٹا‘ پہاڑی سلسلہ کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ میں نے طہٰ سے پوچھا؛ ”اس پہاڑی سلسلے کو کالا چٹا کیوں کہتے ہیں۔“ وہ بتانے لگا؛ ”یہ دونوں پنجابی لفظ ہیں، اس پہاڑی سلسلہ کا وہ حصہ جو سر سبز ہے، دن کو کالا نظر آتا ہے، لہٰذا کالا کہلاتا ہے اور جو چٹیل ہے سفید دکھائی دیتا ہے، لہٰذا ’چٹا‘ کہلاتا ہے۔ اسی نسبت سے یہ پہاڑ ’کالا چٹا‘ رینج کہلانے لگے۔ اس سلسلہ کا سب سے اونچا مقام آٹھ سو اکتالیس (841) میٹر بلند ہے۔ آگے چل کر یہ پہاڑ سطح مرتفع پوٹھوہار سے مل جاتے ہیں۔“
یہ کوئی میتھ myth تو ہو سکتی ہے لیکن کوئی ٹھوس دلیل نہیں اس نام کی۔۔
ہم اٹک نہر سے گزر رہے ہیں۔ یہ پختہ نہر تربیلا کے پاور ہاؤس سے بہنے والے پانی کو “
’بروتھا‘ جھیل تک لاتی ہے۔ بل کھاتی سڑک پہاڑی راستوں کے گرد گھومتی ہے۔ ہمارے سامنے پانی کا بڑا ذخیرہ ابھر رہا ہے۔ یہ بروتھا جھیل ہے۔ وسیع رقبے پر پھیلی اس جھیل کی وسعت میں ایک بڑی عمارت بھی سر اٹھا رہی ہے۔ یہ بروتھا ’پاور ہاؤس‘ ہے۔ اس کے اسپل ویز سے نکلتا پانی نو سو (900) میگا واٹ بجلی پیدا کرتا اس بات کا غماز ہے کہ بجلی کے موجودہ بحران پر قابو پانے میں اس پاور ہاؤس کا بھی حصہ ہے۔ پاور ہاؤس اور اس کی خوبصورت جھیل پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم دریا کے مشرقی کنارے آباد ’سو جھنڈ‘ اور ’گھوڑا مار‘ نامی بستیوں سے گزر رہے ہیں۔ سندھو ان بستیوں کے قریب سے بہتا ہے۔ یہاں کے رہنے والے اسمگلنگ اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ مقامی خواتین بھی ان جرائم میں ان کی معاون و مددگار ہیں۔ کچھ لوگ دریا کی لائی ریت میں سونا تلاش کرتے ہیں۔ اکثریت پشتو زبان بولتی ہے۔
سڑک کنارے درخت کم مگر سرسبز کھیتوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہے۔ مئی کے ابتدائی دن ہیں کھیتوں نے جیسے سنہرے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ گندم کی فصل تیار ہے۔ یہ پنجاب کے کسان کی محنت کا پھل ہے۔ فصل کٹے گی، جیب میں پیسے ہوں گے اور زمیندار کی موجیں۔ سرمئی سڑک لہلہاتے گندم کے سنہری کھیتوں کے درمیان سے گزرتی جنڈ جاتی ہے۔ سندھو کبھی سڑک سے دکھائی دیتا ہے اور کبھی کالاچٹا کا پہاڑی سلسلہ اسے نظروں سے اوجھل کر دیتا ہے۔ آسمان صاف مگر ہوا گرم ہے۔ گرمی بڑھ گئی ہے۔ سندھو سڑک کے قریب آ گیا ہے۔ جیپ سندھو کنارے روکی اور ہم اس کے کنارے چلے آئے ہیں۔ کچھ گدریلے لوگ سندھو کے کنارے مشین لگائے اس کی ریت سے سونا نکالنے میں مصروف ہیں۔ ہم ان کے قریب چلے آئے ہیں۔ وہ سندھو کی ریت کو چھوٹی سی کنوئیر مشین پر ڈالتے ہیں۔ ریت میں ملا پانی واپس دریا میں چلا جاتا ہے باقی ریت رہ جاتی ہے۔ دوسرا شخص ریت کے زرات سے سونا تلاش کرتا ہے۔ہم کچھ دیر ان کو دیکھتے رہے۔ ان میں ایک صفدر نامی شخص ’گھوڑا مار‘ بستی کا رہنے والا ہے، پچھلے 15 برس سے یہ کام کر رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا؛ ”کتنا سونا مل جاتا ہے دن بھر کی محنت کا۔“ کہنے لگا؛ ”یہ صبر آزما کام ہے جناب۔ یہ ہوائی روزی ہے۔ قسمت ساتھ دے تو دن بھر کی محنت کے بعد ایک دو گرام سے چار پانچ گرام تک سونا مل جاتا ہے اور اگر قسمت ساتھ نہ دے تو کئی کئی دن گزر جائیں اور خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑے۔“
یہاں سندھو چوڑائی میں پرسکون بہتا ہے اور اس کی روانی دیکھنے لائق ہے۔ کالا چٹا پہاڑ ذرا دور ہٹ جاتا ہے۔ہم اس کی موجوں سے اٹھکھلیاں کرنے لگے ہیں۔ مجھے اپنے کانوں میں اس کی آواز سنائی دی، ”گندم کے علاوہ مونگ پھلی اس علاقے کی دوسری اہم فصل ہے۔ عمدہ قسم کی یہ مونگ پھلی پاکستان بھر میں پسند کی جاتی ہے۔۔۔
”ہم جنڈ پہنچے ہیں۔ اٹک ضلع کی تحصیل۔ جنڈ سے چند کلو میٹر دور ڈاؤن اسٹریم ’خوشحال گڑھ‘ کے مقام پر مجھ پہ اسٹیل اسٹرکچر کا ایک اور پل بنا ہے، بالکل ویسا ہی جیسا تم اٹک خورد دیکھ آئے ہو۔ اس پل کی تعمیر مسٹر ’رابرٹسن‘ کی نگرانی 1902ء میں شروع ہوئی اور یہ 1907 ء میں مکمل ہوا۔ یہ پل جنڈ (پنجاب) کو خوشحال گڑھ (کوہاٹ خیبر پختون خوا) سے ملاتا ہے۔ مجھ پر تعمیر کئے گئے سبھی پلوں میں یہ لمبائی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا پل ہے۔اس کے اوپر سے بھی ریل اور نیچے سے دوسری ٹریفک گزرتی ہے لیکن 2010 ء میں او جی ڈی سی اور حکومت ہنگری (hungary) کے تعاون سے عام ٹریفک کے لئے نیا پل تعمیر کیا گیا ہے۔لیکن پرانا پل ابھی بھی ہلکی ٹریفک کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ میں اب کالا چٹا پہاڑی رینج سے باہر نکل کر میدان میں بہنے لگا ہوں۔ تم کہہ سکتے ہو میرا پہاڑی سفر تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ کالا باغ اور اس سے آگے میرے میدانی جلوے دیکھنے والے ہیں۔“
ہم جنڈ شہر چلے آئے ہیں۔ روایت کے مطابق جنڈ شہر سکندر اعظم کے دور میں بھی آباد تھا جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے شیر شاہ سوری نے آباد کیا۔ جنڈ تحصیل کے گاؤں ’ناڑہ‘ سے 5 میل کی دوری سے بہتا عظیم سندھو، صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کو علیحدہ کرتا ہے۔ ناڑہ دراصل بانس کی قسم ہے جو یہاں بکثرت پیدا ہوتی ہے اور یہی اس گاؤں کے نام کی نسبت ہے۔ بانس کے علاوہ مونگ پھلی بھی یہاں کی قابل ذکر فصل ہے۔ ناڑہ قدیم دور میں ٹیکسلا اور سنٹرل ایشیاء کے درمیان اہم گزر گاہ تھی۔ یہ سرزمین بدھ اور ہندو مت کی قدیم اجڑی اور کھنڈر بنی نشانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ رنجیت سنگھ اور انگریزی افواج کے بہت سے بہادر سپوتوں کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔ یہاں کی حیاتیاتی اور نباتاتی زندگی بھی بہت رچ Rich ہے۔
دھوپ کی شدت ناگوار محسوس ہو رہی ہے۔ سڑک کنارے درخت کم ہیں مگر سڑک کنارے مشروبِ صندل کے ٹھیلے گرم موسم میں راحت مہیا کرتے ہیں۔
سورج سر پر آن پہنچا ہے یعنی آدھا دن بیت گیا ہے۔ جنڈ سے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کر کے اٹک قلعہ کے مرکزی دروازے پر دستک دی ہے۔ مرکزی گارڈ پوسٹ پر چاق و چوبند جوان موجود ہیں۔ بریگیڈئیر ثاقب کے ریفرنس سے تعارف کروایا تو خوش دلی سے قلعے میں داخلے کی اجازت مل گئی ہے۔ اگلے ہی لمحے ہم 500 سال پرانی تاریخ کے دور میں پہنچنے والے ہیں۔ یہ عمارت 5 صدیوں سے یہاں سے گزرے انسانوں اور زمانوں کی چشم دید گواہ ہے۔
سرمئی بل کھاتی سڑک اونچائی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایک لمبے یو ٹرن کے بعد ہم دوسری چیک پوسٹ پر رکے ہیں جہاں ہمیں آفیسرز میس جانے کا کہا گیا ہے۔ جیپ بوڑھ کے ایک بڑے، گھنے اور پرانے درخت (یہ درخت بھی قلعے کی عمر کا ہوگا) تلے رکی، جہاں ہمیں فوجی انداز میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ نین میرے پیچھے ہے۔ آفیسرز میس میں پرتکلف کھانے سے ہماری تواضع کی گئی ہے۔ میجر احسن خوش لباس، مسکراتا چہرہ اور شائستہ شخصیت کے مالک ہیں۔ کہنے لگے؛ ”آپ کو اٹک قلعہ میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمارا ایس ایس جی کمانڈو کبیر خاں آپ کو قلعہ کی سیر کروائے گا۔ امید ہے آپ کو تاریخ کا 500 سال پرانا دور بھی یاد آئے گا۔“ انہوں نے اجازت چاہی اور چلے گئے۔ سپاہی کبیر خاں نے اپنا تعارف کرواتے بتایا؛ ”میں مہمند ایجنسی کا رہنے والا ہوں۔ میں ایس ایس جی کمانڈو اور ’ٹارگٹ شوٹر‘ ہوں۔بس ایک ریت ہے کہ جو بھی سپاہی ریسٹ پر ہوتا ہے وہ آئے مہمانوں کو بطور گائیڈ قلعے کی سیر کرواتا ہے۔ آج میں آپ کو قلعے کی سیر کرواؤں گا۔ یہ قلعہ اب پاکستان آرمی کے اسپیشل سروسز گروپ ’الصمصام‘ بٹالین کا مسکن اور ہیڈ کوراٹر ہے۔ آئیے قلعے کی سیر کو چلتے ہیں۔“
”یہ جگہ جہاں اس وقت ہم کھڑے ہیں قلعے کی مرکزی عمارت ہے۔“ سپاہی کبیر خاں بتانے لگا، ”جناب! شہنشاہ ہند جلال الدین محمد اکبر (اکبر اعظم) کے گورنر اٹک حکیم شمس الدین نے اس جگہ کی اہمیت کے پیش نظر بادشاہ کے حکم سے یہ قلعہ 1581ء میں تعمیر کروایا تھا۔ اٹک اُس دور میں وسطی ایشیائی ریاستوں اور دوسرے علاقوں سے ہندوستان آنے کے لئے داخلی دروازے (گیٹ وے) کی حیثیت رکھتا تھا۔ دشوار گزار درہ خیبر گزرنے کے بعد ہندوستان میں داخل ہونے والی سپاہ کے لئے دوسری بڑی رکاوٹ دریائے سندھ اور دریائے کابل کا یہ سنگم ہی تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس جگہ کی اہمیت میں سکندر اعظم کے زمانے سے لے کر آج تک کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اشوک اعظم کے دور کی بنے اسٹوپاز، چٹانوں پر کندہ بدھ کے فرمان آج بھی ’اشوکا – دی گریٹ‘ کے دور کی یاد دلاتے ہیں تو ارد گرد پھیلی شیر شاہ سوری کے دور کی ڈاک چوکی کچھ مغلیہ دور کی کھنڈر ہوتی عمارات گزرے وقتوں کی یاد دلاتی خاموش کھڑی اپنی تباہی کی منتظر ہیں۔ اس قلعے سے ملحقہ ’ملاحی ٹولا‘ نامی بستی کے بارے روایت ہے کہ یہاں شاہی ملاح رہتے تھے اور آج ان کی اولاد آباد ہے۔ تاریخ کے مطابق اکبر اعظم نے ان ملاحوں کو بنارس سے لا کر یہاں بسایا تھا۔ اسی نسبت سے یہ قلعہ ’اٹک بنارس‘ بھی کہلاتا رہا ہے۔ یہاں آباد کچھ ملاحوں کی اولاد آج بھی اپنے آبائی کی پیشے سے ہی وابستہ ہے۔ گو اکثریت پڑھ لکھ کر اب جدید دور کے دوسرے پیشے اپنا چکی ہیں۔“
ویسے بھی اس مقام پر کشتی میں دریا پار کرنے کی ریت اب تقریباً ختم ہو چکی ہے البتہ تفریح کے لئے کشتی استعمال ہوتی ہے۔ یہ تو رحموں باباہی ہیں جو خاندانی کام سے آج بھی خود کو جڑے ہیں۔
ہمارا گائیڈ بتا رہا ہے؛ ”سر! قلعے کے مرکزی دروازے کو جاتا راستہ نیم دائرے میں گھومتا ہے جو شاید اس لئے ایسا بنایا گیا تھا کہ دشمن کی یہاں تک رسائی آسان نہ ہو۔ سامنے لکڑی اور لوہے کی پتریوں سے بنے قلعے کے دیو ہیکل مرکزی دروازے پر لوہے کی بڑی بڑی میخیں ٹھونکی گئی ہیں تاکہ اگر ہاتھی بھی دروازہ توڑنا چاھے تو اپنا سر زخمی کروانے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکے۔ قلعے کے چار دروازے ہیں۔ کابلی دروازہ (راستہ کابل کو جاتا ہے اور یہی مرکزی دروازہ بھی ہے)۔لاہوری دروازہ (راستہ لاہور جاتا ہے)۔ دہلی دروازہ (راستہ دہلی جا تا ہے) اور کشمیری دروازہ (راستہ کشمیر جاتا ہے)۔ جناب! سبھی دروازے آج بھی اپنی اصلی حالت میں اس دور کے کاریگروں کی مہارت یاد دلاتے ہیں۔ قلعے کی فصیل سولہ سو دس (1610) میٹر رقبے میں پھیلی ہے جس میں رہائش گاہیں، اصطبل، جیل، پھانسی گھاٹ اور بیگم کی سرائے وغیرہ شامل ہیں۔پھانسی گھاٹ قلعے کی فصیل سے باہر ہے۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔