لکھاری سابق معاون خصوصی برائے صحت، عالمی ادارہ صحت کے مشیر اور شفا تعمیر ملت یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
آج میں دو کہانیوں کا ذکر کروں گا۔
رابرٹ والڈنگر ایک میڈیکل ڈاکٹر، ماہر نفسیات اور ایک زین پریسٹ ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول میں سائیکائٹری کے پروفیسر کے طور پر وہ ہارورڈ اسٹڈی آف ایڈلٹ ڈیولپمنٹ کی نگرانی کرتے ہیں جو انسان کی خوشی کے متعلق ہونی والی اب تک کی سب سے طویل سائنسی تحقیق ہے۔ 2015ء میں ڈاکٹر رابرٹ نے اس موضوع پر ایک ٹیڈ ٹاک کی، جسے دنیا بھر میں 4 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جاچکا ہے۔ ان کی تحقیق کا کیا خلاصہ ہے، آئیے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔
1938ء کے بعد سے 83 سالوں میں محققین نے امریکا میں کل 724 مردوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر رابرٹ خود اس تحقیق کے تیسرے ڈائریکٹر ہیں۔ جب انہوں نے 2015ء میں ٹیڈ ٹاک کی تو 724 میں سے تقریباً 60 مرد اس وقت تک زندہ تھے اور تحقیق میں حصہ لے رہے تھے۔ ان افراد کو ان کی نوعمری سے لے کر بڑھاپے تک دیکھا گیا کہ کون سی چیز واقعی لوگوں کو خوش اور صحت مند رکھتی ہے۔ ایسے مطالعات انتہائی مشکل اور بہت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے زیادہ تر مطالعات مختلف وجوہات کی بنا پر ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں ختم ہو جاتے ہیں لیکن استقامت اور قسمت نے اس مطالعے کو جاری رکھا۔
724 مردوں کو دو ذیلی گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک ہارورڈ یونیورسٹی کے نوجوان طلبہ پر مشتمل تھا، جن میں زیادہ تر امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ دوسرا گروپ بوسٹن کے غریب ترین محلوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کا تھا، جنہیں خصوصاً اس تحقیق کے لیے چنا گیا تھا، کیونکہ وہ 1930ء کی دہائی کے بوسٹن میں پریشان حال اور پسماندہ خاندانوں سے تھے۔
سال گزرتے گئے اور اس دوران محققین ان تمام افراد، ان کے کام، ان کی زندگی کے حالات اور ان کی صحت کے بارے میں ڈیٹا جمع کرتے رہے۔ انہوں نے ان کے خون کے نمونے لیے، ان کے دماغوں کو اسکین کیا اور ان کے بچوں اور بیویوں کے ساتھ میل جول کو ریکارڈ کیا۔
تو 8 دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اس سائنسی مطالعے، جو کہ ہزاروں صفحات کی معلومات پر منتج ہوا، سے کیا اخذ کیا گیا؟ اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو خوش اور صحت مند رکھنے کی بنیاد نہ دولت ہے، نہ شہرت، اور نہ ہی زندگی میں زیادہ سے زیادہ کامیابی کے لیے محنت کرنا۔۔ بلکہ تعجب کی بات ہے کہ اس کی بنیاد مضبوط رشتے اور تعلقات ہیں۔
اس تحقیق سے تین نتائج اخذ کیے گئے۔ پہلا یہ کہ وہ لوگ جو سماجی طور پر خاندان، دوستوں اور برادری سے زیادہ جڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ زیادہ خوش رہتے ہیں اور جسمانی طور پر صحت مند بھی ہیں، جبکہ وہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک زندہ رہتے ہیں جو اپنے قریبی لوگوں سے زیادہ قریب نہیں ہوتے۔ وہ لوگ جو الگ تھلگ رہتے ہیں وہ خوش نہیں رہتے، ان کی صحت درمیانی عمر سے پہلے ہی گر جاتی ہے، ان کی دماغی صلاحیت جلد کم ہو جاتی ہے اور ان کی عمر بھی کم ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ نوٹ کی گئی کہ وہ لوگ جو 50 سال کی عمر میں اپنے تعلقات اور رشتوں میں سب سے زیادہ مطمئن تھے، وہ 80 سال کی عمر میں سب سے زیادہ صحت مند تھے۔ جبکہ تیسرا یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اچھے تعلقات صرف ہمارے جسم کی حفاظت نہیں کرتے، بلکہ وہ ہمارے دماغ اور یادداشت کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔
دوسری کہانی میلکم گلیڈویل نے اپنی کتاب آؤٹلیئرز میں تحریر کی ہے۔ کتاب کے تعارف کے طور پر انہوں نے روم کے جنوب مشرق میں 100 میل کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے شہر روزیٹو ویلفورٹور کے لوگوں کی ایک بہت ہی دلچسپ کہانی بیان کی ہے۔
صدیوں سے اس قصبے کے ناخواندہ، محنتی غریب لوگ آس پاس کی پہاڑیوں میں موجود سنگِ مرمر کی کانوں میں کام کرتے تھے۔ 19ویں صدی کے آخر تک بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں انہوں نے نئی دنیا کی طرف بڑی تعداد میں ہجرت کرنا شروع کی۔ آہستہ آہستہ، انہوں نے نیویارک سے 90 میل مغرب میں اسی نام کے ساتھ اپنا اطالوی قصبہ دوبارہ قائم کیا۔ وہاں انہیں قریبی سلیٹ کی کان میں کام بھی مل گیا۔
امریکن روزیٹو اتنی ہی محدود اور خود کفیل کمیونٹی تھی، جتنی کہ اطالوی روزیٹو۔ سال گزرتے گئے یہاں تک کہ کسی شہر میں تحقیق کرنے والے ایک ڈاکٹر نے نوٹ کیا کہ اپنی 17 سال کی میڈیکل پریکٹس کے دوران اس نے مشکل سے ہی روزیٹو میں 65 سال سے کم عمر کسی فرد کو دل کی بیماری میں مبتلا پایا ہے۔
یہ 1950ء کی دہائی کا امریکا تھا۔ اس وقت دل کی بیماری کو روکنے کے لیے کوئی کولیسٹرول کم کرنے والی دوائیں یا کوئی اور علاج دستیاب نہیں تھا۔ دل کا دورہ تقریباً ایک وبا بن چکا تھا۔ تو ایسے معاشرے میں روزیٹو کے لوگ دیگر امریکیوں کی طرح دل کے مسائل کا شکار کیوں نہیں تھے؟
ڈاکٹر وولف نے تحقیقات کا فیصلہ کیا۔ 1961ء میں اس نے ایک ٹیم کو اکٹھا کیا، جس نے تقریباً تمام 2 ہزار رہائشیوں پر تحقیق کی۔ ٹیم نے ان کے میڈیکل ریکارڈ کو دیکھا، ان کے خون کے نمونے لیے، اور ان کی ای سی جی کیں۔
اس کے بعد جو نتائج سامنے آئے، وہ حیران کن تھے۔ عملی طور پر کسی بھی فرد میں دل کی کسی بیماری کی کوئی علامت موجود نہیں تھی اور 55 سال سے کم عمر کا کوئی بھی شخص دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک نہیں ہوا تھا۔ روزیٹو کے 65 سال سے زیادہ عمر کے مردوں میں دل کی بیماری سے موت کی شرح امریکا کی اوسط شرح سے تقریباً نصف تھی۔ اس چھوٹی کمیونٹی میں تمام وجوہات سے اموات کی شرح توقع سے 30 سے 35 فیصد کم تھی۔
اس ’غیر معمولی‘ صورتحال کی وضاحت کے لیے وولف نے ماہرین عمرانیات کی خدمات حاصل کیں جو گھر گھر گئے اور 21 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہر فرد سے بات کی۔ وہاں کوئی خودکشی نہیں کرتا تھا، لوگ نہ شراب نوشی سے مر رہے تھے نہ نشے سے، وہاں جرائم کی شرح بھی کم تھی۔ کسی کو پیپٹک السر بھی نہیں تھا۔ وہاں لوگ صرف بڑھاپے سے مر رہے تھے۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی خاص صحت بخش غذا استعمال کرتے ہوں بلکہ وہ تو خنزیر کی چربی میں کھانا بنا رہے تھے، اور روزانہ کی بنیاد پر بہت زیادہ ہیم اور میٹھے پکوان کھاتے تھے۔ وہ بہت زیادہ تمباکو نوشی کرتے تھے اور ساتھ ہی موٹے بھی تھے۔ ان سب چیزوں کے باوجود روزیٹو میں دل بیماریوں سے ہونے والی اموات کی شرح قریبی دو قصبوں کے مقابلے تین گنا کم تھی۔
تو یہاں ایسی کیا خاص بات تھی؟ خوراک، ورزش، جینز، یا جغرافیے سے متعلق تمام ممکنہ وجوہات کو مسترد کرتے ہوئے، محققین کو بتدریج احساس ہوا کہ روزیٹو کا راز روزیٹو میں ہی مضمر ہے۔ روزیٹو کے رہائشی ایک دوسرے سے بہت زیادہ جڑے ہوئے تھے۔ وہ اکثر ایک دوسرے سے ملنے جاتے تھے، اپنے صحن میں گپ شپ کرتے تھے، ساتھ چہل قدمی کرتے تھے، کھانا پکاتے تھے اور ساتھ کھاتے تھے، ان کی تین نسلیں ایک ہی چھت کے نیچے رہتی تھیں، لوگ اجتماعی طور پر سماجی کام کرتے تھے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا، جس میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ملتے جلتے رہتے تھے۔
تو ان دونوں کہانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھے تعلقات اور رشتے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ دوست کئی چیزوں کا علاج ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم صحت پر تعلقات کے مثبت اثرات کا اندازہ نہ لگا سکیں، لیکن ان کا اثر یقینی ہے اور شاید یہ ان عوامل سے زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے جن سے انسانی صحت کو خطرے لاحق ہوتے ہیں۔
نوٹ: لکھاری سابق معاون خصوصی وزیراعظم برائے صحت ہیں اور اس وقت عالمی ادارہ صجت سے بطور مشیرِ ‘یونیورسل ہیلتھ کوریج’ منسلک ہیں۔ یہ مضمون 25 اگست 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا۔ کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔