پاکستان کی تمام مجوزہ پارلیمانی پارٹیاں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں، اس سڑے نظام کی طرح۔۔ اس لیئے ان سے کوئی بھی امید رکھنا بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ ان پارٹیوں نے اپنے لیڈروں سمیت وڈی سرکار کے پاس خود کو گروی رکھا ہے، ابھی سے نہیں شروع سے ـ ویسے بھی ان کا کیا جاتا ہے اس بوسیدہ نظام سے، اس کی مہنگائی سے، مرتا عام غریب مزدور کسان دیہاڑی دار ماہی گیر ہے۔
ایسے میں یہ کہنا کہ ایک دن کی ھڑتال، معمولی جلسے یا ایک دن کے پہہ جام سے کوئی تبدیلی رونما ہوگی، محض ایک خام خیالی ہے۔ یہاں سب کچھ اسٹیک پہ لگ چکا ہے، اہلِ طاقت نے عوام کے سب حق حقوق سلب کر رکھے ہیں، سرویلنس مکمل ہے ـ انقلاب کے سوا کوئی اور عمل اس ریاست کو تبدیل نہیں کر سکتا، نظام کو مکمل جڑ سے اکھاڑ کر ایک نئے نظام، ایک نئے عمرانی معاہدے کے سوا یہ ریاست اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔۔ مگر کمبخت انقلاب کون کہاں سے لے کر آئے، کیونکہ اس سیاسی نظام سے خلقِ خدا بے زار اور لاتعلق بن چکی ہے، اس لیئے ایک چور ایک گستاخ ایک ایشو پر روڈ رستوں پر اپنا فسٹریشن نکال لیتا ہے، ایک لمحے کو درندہ بن کر ہجوم کی شکل میں اپنی دل کی بھڑاس نکال کر سو جاتا ہے ـ
اس میں خلقِ خدا کا کیا قصور۔۔ اس ریاست نے جس طرح تقسیم در تقسیم سے اپنی حاکمیت قائم کر رکھی ہے، مذہبی شدت پسندی، نام نہاد پاکستانی قوم پرستی جس کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ مختلف اقوام کی سرزمین جن کے زبان رسم رواج اور مفادات میں زمین آسمان کا فرق ہے، انہیں الجھا کر لڑا کر اپنی حاکمیت قائم کر رکھی ہے، وہاں سارا ملبہ خلق خدا پر ڈالنا کہ یہ سو رہے ہیں، اپنے حق کے لیئے نہیں لڑتے، آواز نہیں اٹھاتے غلط اور حقائق سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔
حقوق کی جنگ سیاسی بنیاد پر ہوتی ہے، مزدور یونین، طلبہ یونین اور ماس پارٹیاں سیاسی روڈ میپ پر کام کر کے حقوق کی جنگ لڑتی ہیں۔ ایک ریاست ایک سسٹم اور مختلف نظریاتی نقطہِ نظر جیسے لیفٹ اور رائیٹ دائیں بازو یا بائیں بازو کے مطابق سسٹم کو بچانے یا بہتر بنانے کے لیئے جہدوجہد کر کے خلق خدا کے لیئے آسانیاں پیدا کرتی ہیں ـ نظریئے اور عقیدے کی بنیاد پر اپنی اپنی سیاسی وژن لے کر تبدیلی لانا ـ مگر یہاں تو سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے، وڈے تے اصلی حاکموں نے ڈکٹیٹرشپ انتہا پسندی اور جھوٹی قومی وفادری کی بنیاد پر جاگیرداری، سرمایہ داری اور مُلا مولوی کے گٹھ جوڑ سے خلقِ خدا کو وہ کُپی پلائی ہے، جس زومبی نسل تیار تو ہو گئی مگر ریاست کی سمت کہاں ہے، یہ غائب کر دیا گیا ہے۔ مزدور یونین، طلبہ یونین ختم کر کے اپنی ڈمی لیڈر اور پارلیمانی پارٹیوں کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ ہاں ان نام نہاد پارلیمانی پارٹیوں میں بیٹھے سیاسی جاگیرداروں سرمایہ داروں سابقہ بیوروکریٹس کے لشکر نے وڈّی تے بڑی سرکار کی چاپلوسی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس پر مستزاد یہ کہ دیگر ریاستی اداروں جیسے عدلیہ وغیرہ میں بھی ایسے لوگ آئے جو بندوق کو تو نظریہ ضرورت قرار دے دیتے ہیں مگر جو ان کا کام ہے وہ نہیں کرتے۔ اس پہ ایک بوسیدہ سا سڑا گلا آئین جو اپنی حفاظت نہیں کر سکتا، جو بار بار ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاتا ہے، اس سے امید لگانا یا اس کے ٹرک کے پیچھے عوام کو رگڑا دینا معمول بن چکا ہے ـ
یہی وجہ ہے کہ اب بجلی کے بل مہنگے در مہنگے ہوں یا پیٹرول کے نرخ آسمان کو چھوئیں، آٹا مہنگا ہو یا خورد نوش کے دیگر سامان گراں سے گراں تر ہو جائے، خلق خدا میں جنبش نہیں ہوتی۔۔ مگر یہی خلق خدا ہجوم بن کر ایک نہتے چور، بقول ان کے گستاخ یا اقلیتی مذہب کے کسی فرد یا گروہ پر ٹوٹ پڑتی ہے، مار دیتی ہیںے، جلا دیتی ہے، مٹا دیتی ہے۔
اب ہر کوئی ذی شعور انسان مطالعہ پاکستان کے جھوٹ سے واقف انسان، مذہبی اور سماجی انتہا پسندی سے دور انسان، سوچنے سمجھنے والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ ریاست خانہ جنگی کے کس دہکتی آگ پر کھڑی ہے ـ
ویسے ایسے انسان بھی چند ہوں گے جو بےبس بن کر یہ سب دیکھ رہے ہوں گے ـ باقی رہے مجھ جیسے لفٹ یا مارکس کے نظریئے والے، ان کے ساتھ اور بھی بڑا ظلم ہے۔ ہم جیسے چالیس سال سے اس پروگرام اس روڈ میپ کے انتظار میں مرنے کے قریب ہیں، جس میں برابری مساواتی نظام کے لیئے پاکستان کی تمام اقوام کے قومی سوال، طبقاتی جبر، استحصالی نظام سے چھٹکارا اور مظلوم مزدور کسان، ماہی گیر، کان کنوں اور عام غریب عوام کے لیئے کوئی امید ہو لڑنے کے لیئے، مظلوموں کو جوڑنے کے لیئے کوئی لائحہ عمل ہو جس سے جڑ کر ہم اپنے بہتر کل کے لیئے جہدوجہد کر کے اپنا حصہ ڈال سکیں ـ تب تک رونا ہمارا مقدر ہے مرنا سب غریب کا مقدر ہے ـ