پاکستانی بھائیوں کا تجرباتی کوڈ، جو دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس ثابت ہوا!

ویب ڈیسک

یہ 1980 کی دہائی کی بات ہے۔ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ امجد فاروق علوی اپنے دفتر میں سو رہے تھے۔ اچانک ان کے دفتر میں فون کی گھنٹی بجی۔ امجد فاروق کی آنکھ کھلی اور انہوں نے جیسے ہی فون اٹھایا تو دوسری جانب سے ایک خاتون انگریزی میں بات کر رہی تھیں

نیند کے اثرات کی وجہ سے امجد فاروق کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ خاتون کہہ رہی تھیں ”کیا آپ پاکستان سے امجد فاروق بات کر رہے ہیں؟ کیا یہ برین کمپیوٹر سروسز ہے؟“

امجد فاروق علوی نے حیرانی اور پریشانی کے عالم میں سوچا کہ ایک امریکی خاتون انہیں رات کے دو بجے فون کر کے ان کا اور ان کی کمپنی کا نام کیوں پوچھ رہی ہیں اور اس کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

آگے کیا ہوا یہ ہم آگے چل کر آپ کو بتاتے ہیں، آئیے پہلے ملتے ہیں امجد فاروق علوی سے، جو دنیا کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے کمپیوٹر وائرس بنایا

وہ بتاتے ہیں کہ اَسی کی دہائی میں وہ مختلف تجربات کیا کرتے تھے جن میں ایک تجربہ دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس بنانے کا تھا

امجد فاروق کو پڑھائی کا کچھ زیادہ شوق نہیں تھا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ فائٹر پائلٹ بنیں، لیکن ان کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ ان کے تین بھائی ہیں۔ ان کے والد بڑے بھائی کو ڈاکٹر، اور چھوٹے بھائی کو حافظ قرآن بنانا چاہتے تھے

امجد فاروق بتاتے ہیں ”ہمارے والد نے اپنے خواہش کا اظہار ضرور کیا لیکن ساتھ ہی ہمیں اپنی دلچسی کے مطابق آگے جانے کی تلقین کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیں بھرپور آزادی دی تھی“

ان کے والد نے انہیں کئی کتابیں خرید کر دیں اور انہیں امریکن سینٹر اور برٹش کونسل کی ممبرشب بھی دلائی۔ امجد کے مطابق ”لیکن ہمیں پڑھائی کا شوق نہیں تھا، کتابیں اچھی ہوتی تھیں لیکن مجھے انجینیئرنگ کا شوق تھا“

امجد اگرچہ والد کی طرف سے دی جانے والی کتابیں نہیں پڑھتے تھے لیکن وہ کمپیوٹر، الیکٹرانکس اور انجینیئرنگ کے متعلق کتابیں ضرور پڑھتے تھے

وہ بتاتے ہیں ”آغاز میں میرا شوق الیکٹرانکس میں تھا، اسکول کے زمانے میں، سائرن، ریڈیو اور واکی ٹاکی کے پراجیکٹس بنایا کرتا تھا۔ اس دوران میں نے لائبریری جانا شروع کیا تو کمپیوٹر اور الیکٹرانکس کی کتابیں پڑھنے کی دھن سوار ہوگئی“

ان کے بقول انہوں نے مختلف لائبریریوں میں جا کر کمپیوٹر سے متعلق بنیادی علم خود ہی سیکھ لیا۔ اس دوران انہوں نے ریڈار اور مائیکرو ویو کے بارے میں کافی کچھ پڑھا۔ وہ لائبریری جانے کے لیے اسکول سے بھاگ جاتے تھے۔ ”اسکول جاتے تھے لیکن دو تین کلاس کے بعد اکثر بھاگ جاتے تھے۔ پھر جب اسکول والوں کو معلوم ہوا تو خاصی طبیعت صاف کی“

امجد کی زندگی میں اسکول اور لائبریری جانے کی کشمکش چل رہی تھی کہ وہ غیر ارادی طور پر بزنس میں آگئے 1983میں ان کے بڑے بھائی کے ایک دوست ان سے بطور فری لانسر کام کروانے لگے۔ ”میں اپنے بھائی کے دوست کے ہاں کمپیوٹرز سنبھالتا تھا۔ اس دوران میں نے ڈپلوما کیا اور پھر ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس میں داخلہ بھی لیا، لیکن ڈگری مکمل نہیں کر پایا“

وہ بتاتے ہیں کہ ان کو ڈگری حاصل کرنے اور پڑھائی کا شوق نہیں تھا۔ ”تعلیمی اداروں میں جا کر میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ان اداروں میں کیا کچھ پڑھایا جاتا ہے اور میں نے کیا کچھ پڑھا ہے؟ تاکہ میں اندازہ لگا سکوں کہ میں نے اب تک کون سی چیزیں نہیں پڑھیں“

سنہ 1986 تک امجد مختلف سافٹ ویئرز پر کام کرتے رہے اور ساتھ ہی اس حوالے سے کتابیں بھی پڑھ رہے تھے۔ وہ اپنی کتابوں سے متعلق ایک دلچسپ کہانی بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”اس زمانے میں رسالے اور کتابیں زیادہ مقبول تھیں، میں انارکلی سے رسالے لایا کرتا تھا۔ اس قدر کتابیں اور رسالے جمع ہوگئے کہ میری والدہ مجھے ’کباڑیہ‘ کہہ کر پکارنے لگیں“

وہ بتاتے ہیں ”اس دور میں ڈاس آپریٹنگ سسٹم آیا تھا، لیکن آپ اس پر زیادہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ ہمیں اس حوالے سے پراجیکٹ ملا جس پر ہم نے مختلف تجربات شروع کیے۔ ڈاس اپریٹنگ سسٹم میں کوئی سکیورٹی نہیں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ صارف کا نام اور پاسورڈ تک استعمال نہیں ہوتا تھا۔ ڈاس سسٹم کے لیے انٹرنیٹ سے جڑا ہونا بھی ضروری نہیں تھا۔ یوں صارف کو لگتا تھا کہ شاید یہ ان کے ساتھ ہی محفوظ ہوتا ہے، لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس میں کہیں نا کہیں کمزوریاں موجود ہیں“

امجد ڈاس آپریٹنگ سسٹم کے ان فلاپی ڈسکس کو مختلف طریقوں سے پرکھ رہے تھے۔ اس وقت لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان فلاپی ڈسکس کی مدد سے ڈیٹا بھی منتقل ہو سکتا ہے

وہ بتاتے ہیں ”اس وقت تک کسی کے ذہن میں نہیں آیا تھا کہ یہ فلاپی ڈسکس تبدیل ہو سکتی ہیں اور ان میں ڈیٹا ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے، ہمارے ذہن میں آیا کہ فلاپی ڈسک تو ایک میڈیم ہے اور اس کے ذریعے ڈیٹا ضرور ایکسچینج ہوتا ہوگا، تو ہم نے اس پر ایک تجربہ کیا، جو کہ بہت سنجیدہ ہو گیا“

یہ تجربہ اس قدر سنجیدہ ہوگیا کہ انہوں نے سوچا تک نہیں کہ ایک دن یہ دنیا کا پہلا وائرس قرار دے دیا جائے گا۔ امجد فاروق بتاتے ہیں ”میں نے اور میرے بھائی نے مل کر اس تجربے کے دوران ایک کوڈ لکھ لیا، جو وائرس کی طرح کام کر رہا تھا، ہم نے یہ کوڈ نہایت محتاط ہو کر لکھا تھا کیونکہ ہم کسی کو دہشت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی اس سے مالی فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے“

امجد فاروق کہتے ہیں ”اس کوڈ کو لکھنے کے پیچھے ہماری کی کوئی منفی سوچ نہیں تھی۔ کسی کی معلومات چرانا ہمارا مقصد نہیں۔ اگر آپ اس کوڈ کو دیکھیں تو اس میں ہمارا نام، فون نمبر اور ایڈریس تک موجود تھا“

وہ بتاتے ہیں کہ اگر وہ اس وائرس کو پھیلا کر منفی عزائم رکھتے تو وہ خود کو ظاہر نہ کرتے بلکہ ایک خفیہ طریقے سے لوگوں کو تنگ کرتے

امجد فاروق علوی اور ان کے بھائی باسط علوی نے یہ کوڈ لکھ کر بات ذہن سے نکال لی۔ ان کے بقول ”ہم نے جب یہ بنایا تو ہم اپنے کام میں مصروف ہو گئے، ہم نے اس پر سوچنا بھی چھوڑ دیا کیونکہ ہمارے ارادے ایسے ہرگز نہیں تھے کہ کوئی کمپیوٹر وائرس بن جائے گا اور اس طرح کمپیوٹر کو متاثر کرے گا“

یہ سوال کہ آخر انہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ کمپیوٹر وائرس دنیا بھر میں پھیل گیا ہے؟ اس کق جواب ہمیں کہانی کے پہلے حصے سے جوڑتا ہے

امجد بتاتے ہیں ”میں اکثر اپنے دفتر میں سویا کرتا تھا۔ ایک رات اسی طرح میں اپنے دفتر میں سو رہا تھا کہ اچانک دو بجنے کے بعد میرے دفتر کے فون کی گھنٹی بجی۔ میں اٹھا اور فون اٹھایا تو دوسری جانب سے ایک خاتون انگریزی زبان میں مجھ سے میرا نام لے کر پوچھ رہی تھیں کہ کیا آپ پاکستان سے ہیں اور کیا یہ برین کمپیوٹر سروسز ہے؟ میں نے انہیں اثبات میں جواب دیا تو خاتون نے بتایا کہ ان کے کمپیوٹر میں ایک مسئلہ آگیا ہے اور اس کا تعلق ان سے یعنی علوی برادران سے ہے“

امجد فاروق کے مطابق وہ اس بات پر ایک طرف پریشان ہوئے تو دوسری طرف انہیں خدشہ لاحق ہوگیا کہ ایسے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک خاتون کو امریکہ میں مسئلہ آرہا ہے اور اس کا تعلق پاکستان میں رہنے والے کسی شخص سے ہو۔ ”اس وقت تو یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اتنی دور سے کسی چیز کا تعلق ہم سے جوڑا جائے گا۔ وہ خاتون بتا رہی تھی کہ میں نے انہیں ایک میسج بھیجا ہے جو کہ میرے لیے انتہائی حیران کن تھا“

امجد فاروق کے بقول ”میں نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں خاتون کو بتایا کہ میں نے ایسا کوئی میسج آپ کو نہیں بھیجا۔ خاتون نے بتایا کہ نہیں، میرے سافٹ ویئر میں آپ کا میسج ہے، ویلکم ٹو ڈینجن۔ جب انہوں نے یہ میسج پڑھا تو میں نے سوچا یہ تو وہ وائرس والا معاملہ ہے“

امجد فاروق بتاتے ہیں کہ جب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ اسی وائرس سے متعلق بات کر رہی ہیں تو انہوں نے مزید دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے دریافت کیا کہ ’کیا آپ مجھے مزید بتا سکتی ہیں۔ میری دلچسپی بڑھ گئی کیونکہ پاکستان سے کسی نے اس حوالے سے ہم سے رابطہ نہیں کیا تھا، جس کا مطلب تھا کہ یہ کمپیوٹر وائرس یہاں نہیں پھیلا بلکہ یہاں سے براہ راست امریکہ پہنچ گیا ہے۔‘

امجد فاروق کے مطابق جس خاتون نے انہیں فون کیا تھا وہ ایک امریکی صحافی تھیں جو میامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں اور وہاں سے ایک نیوز لیٹر نکالتی تھیں۔ انہوں نے امجد فاروق کو فون پر بتایا کہ ’میں نیوز لیٹر لکھ رہی تھی تو اچانک فلاپی رک گئی ہے اور اس میں جگہ ختم ہو گئی، لیکن جب میں نے دیکھا تو اس میں جگہ موجود تھی۔ پھر میں نے اپنے کمپیوٹر ایکسپرٹ سے بات کی تو اس میں یہ پیغام تھا، اب میں کیا کروں، مجھے حل بتا دیں۔‘

امجد فاروق بتاتے ہیں ”اس وقت ان کو مسئلہ آرہا تھا تو میں نے ان کا مسئلہ حل کیا اور وہ مجھ سے کافی دیر تک بات کرتی رہیں۔ اس کے بعد خاتون نے مجھے کہا کہ میں آپ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہوں، پھر اس دن یا شاید اگلے دن انہوں نے کال کی اور مجھ سے کئی سوالات پوچھ کر انٹرویو شائع کر دیا“

امجد فاروق کہتے ہیں ”اس انٹریو کی اشاعت سے کمپیوٹر وائرس کی یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جس کے بعد یہ دیگر جامعات اور مقامات میں ٹریس کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی یہ خبر ٹائم میگزین کے کور پر چھپی تو پوری دنیا میں خبر پھیل گئی کہ دو پاکستانی بھائیوں نے کمپیوٹر وائرس بنایا ہے۔“

امجد فاروق نے کہا ”ٹائم میگزین میں ہماری اسٹوری چھپی، جس کے بعد یہ خبر پاکستانی اخبارات اور پاکستان ٹیلی ویژن میں بھی نشر کی گئی“

امجد فاروق اور ان کے بھائی اس حوالے سے اس قدر باتیں سننے کے بعد پریشان ہونے لگے اور انہوں نے ایک وکیل کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا۔ ”میں پریشان تھا کہ میرے لیے مسئلہ نہ بن جائے، میرے بھائیوں نے بھی کہا کہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے، اس کے بعد میں اپنے وکیل سے ملا تاکہ معاملہ کی نزاکت دیکھ سکوں۔ وکیل نے مجھے مشورہ دیا کہ ’آپ اسے رجسٹر نہیں کر سکتے، لیکن اس کو کتابی شکل میں ڈھال کر اس کے کاپی رائٹس کلیم کر سکتے ہیں“ امجد فاروق کے مطابق ”ہم نے اس کی کتاب بنائی اور اس کے کاپی رائٹس کلیم کیے، مجھے یہ فکر تھی کہ کوئی اس میں رد و بدل کر کے غلط استعمال نہ کردے اور الزام مجھ پر نہ آجائے“

اس سوال پر کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر امریکہ اور پھر پوری دنیا میں کیسے پھیلا ہوگا؟ امجد فاروق کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں پھیلایا۔ اس وقت کمپیوٹر کا استعمال بہت کم تھا، اور فلاپی ڈسکس اتنے استعمال نہیں ہوتے تھے۔ ان کے بقول انہوں نے ایک سافٹ ویئر بنایا تھا، جس میں انہوں نے اپنا تیار کردہ یہ کوڈ ڈال دیا

”اس وقت کوئٹہ میں ایک این جی او کے ہسپتال کو مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا تو ہم نے ان کے لیے ایک سافٹ ویئر بنایا۔ ہم نے اس تجرباتی وائرس کو اس میں ڈال دیا اور ان کو بتا دیا کہ یہ سافٹ ویئر کسی کو نہیں دینا ورنہ ہمیں پتا چل جائے گا۔“

امجد فاروق سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس اسی ہسپتال سے باہر گیا ہے اور وہیں سے پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ ’شاید باہر سے کوئی آیا ہوگا، اور وہاں سے ڈیٹا لے کر امریکہ گیا ہوگا اور یوں یہ وائرس سفر کرتے کرتے پاکستان سے امریکہ پہنچا ہوگا“

امجد فاروق بتاتے ”آج کل جو کمپیوٹر وائرس عام ہے وہ انتہائی ایڈوانس نوعیت کا ہے۔ اُس زمانے میں کمپیوٹر سسٹم بہت سادہ تھا، اب تو انٹرنیٹ آگیا ہے، سکیورٹی پر بہت کام ہوا، اس کی پرائیویسی پر بھی بہت کام ہو چکا ہے، لیکن آج بھی کمپیوٹر میں غیر محفوظ پہلو موجود ہیں، کئی لوگ غیرقانونی استعمال بھی کرتے ہیں“

امجد فاروق سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کے وائرس سے دنیا کو کوئی فائدہ بھی ہوا ہے؟ تو انہوں نے کہا ”ہمارے وائرس کا بڑا فائدہ ہوا، ہمارا مقصد بھی یہی تھا کہ ہم ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ یہ پھیلتا کیسے ہے، دوسرا یہ ثابت کرنا تھا کہ اس وقت ڈاس کا نظام کمزور تھا، جبکہ اسے حکومتیں استعمال کر رہی تھیں، دفاعی میدان میں بھی استعمال ہو رہا تھا اور کمرشل حلقوں میں بھی اس کا استعمال جاری تھا، لیکن وہ غیر محفوظ تھا، ہم دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ یہ اتنا محفوظ نہیں ہے اور اس کی سکیورٹی کو بہتر کیا جانا چاہیے“

ان کے مطابق اس کے بعد جب نئے فلاپی ڈسکس آئے تو اس میں اس کمزوری کا ازالہ کیا گیا تھا۔ ”ہم نے مائیکرو سافٹ کو یہ ایک بڑا بوسٹ دیا کہ وہ اسے بہتر کرے“

دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس بنانے کے بعد علوی برادران کو دنیا بھر سے اس کا اینٹی وائرس بنانے کی پیشکش بھی ہوئی۔ ”ہمیں مکیفے اور پیٹر نارٹن نے آفر کی تھی، لیکن میں نے انکار کیا کیونکہ ہم خود بھی اس کا اینٹی وائرس بنانا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ اس سے نقصان ہوگا اور لوگ کہیں گے کہ آپ اس سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، تو ہم نے اس پر کام کرنا ترک کر دیا“

آج کل امجد فاروق علوی اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر الیکٹرانس، کمپیوٹر وغیرہ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ’آج کل ہم کمپیوٹرز اور سافٹ ویئر کے حوالے سے حل دینے کی خدمات فراہم کر رہے ہیں، دراصل یہ انٹرنیٹ سلوشن پرووائیڈر کمپنی ہے۔‘

انہوں نے الیکٹرانکس وار فیئر اور ڈیفنس سسٹم پر کام کیا ہے۔ پہلے یہ کمپیوٹرز بنانے اور اسیمبل کرنے کے میدان میں آئے تھے۔ امجد فاروق نے اپنے ابتدائی دنوں کے متعلق بتاتے ہیں ”ہم مال روڈ کے دو تین لوگوں سے چیزیں خریدتے تھے اور کمپیوٹر اسیمبل کرتے تھے۔ اس کے بعد ہم انٹرنیٹ میں آئے، انٹرنیٹ سروس پروائڈر بن گئے، ڈیٹا کمیونیکیشن پر کام کیا، آج کل ہم انٹرنیٹ سلوشن دیتے ہیں جس کا ہمارے پاس لائسنس بھی موجود ہے“

امجد فاروق نے اس سے قبل سنگاپور میں انٹرنیٹ کی بحالی میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ ’سنگاپور میں انٹرنیٹ سروسز پر پابندی تھی، ہم نے وہاں کے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے لیے تحریک شروع کی اور سنگاپور حکومت سے بات کر کے انٹرنیٹ بحال کیا۔‘

ان کے بقول انہیں ایک بار سعودی عرب سے بھی پیشکش ہوئی تھی، لیکن انہوں نے ٹھکرا دی، جس کا انہیں آج بھی افسوس ہے۔ ”سعودی عرب سے بھی بار بار پیشکش ہوتی رہی، لیکن میں نہیں گیا، مجھے آج بھی پچھتاوا ہے کہ چلا گیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close