ہم کابلی دروازے سے قلعے میں داخل ہو کر اصطبل کے قریب سے گزر کر قلعے کے مشرقی حصے کی جانب ایک وسیع صحن میں پہنچے ہیں۔ ہمارے سامنے دو ایس ایس جی کمانڈوز گارڈ پوسٹ پر جدید اسلحہ سے لیس چاق و چوبند کھڑے ہیں۔ یہاں سے ارد گرد پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس پوسٹ کے ساتھ سے ہی غیر آرام دہ سیڑھیاں اکبری دور کے قلعہ دار کی رہائش گاہ کو جاتی ہیں۔ ہم گارڈ پوسٹ کے بالمقابل برُج کی سرنگ نما تنگ اور پتھریلی سیڑھیوں سے گزر کر برُج کی چھت پر چلے آئے ہیں۔ کبیر خاں آگے ہے کہ کہیں چھپی کوئی چمگاڈر، چھپکلی یا بھڑ سے ہمارا سامنہ نہ ہو جائے۔ دو بھڑیں اڑیں ضرور تھیں مگر کمال پھرتی سے کبیر نے اپنے ہاتھوں سے انہیں نشانہ بنا کر ہمیں حیران کر دیا۔ وہ ہنسا اور بولا؛ ”سر! حیران نہ ہوں ان کیڑے مکوڑوں سے ہم مار کھا گئے تو لڑ لیا ہم نے دشمن سے۔ ان زہریلے جانوروں کو مارنا بھی ہماری تربیت کا حصہ ہے۔ ان سیڑھیوں پر اترنا اور چڑھنا آسان نہیں۔
برج کی چھت پر پہنچے تو تیز ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں نے ہمیں خوش آمدید کہا ہے۔ یہاں سے گرد و نواح کا نظارہ دلکش ہے۔ دریا کے دونوں کنارے سبزے کی چادر، ٹھنڈی ہوا میں لہلہاتے درخت، پیچھے پہاڑ اور پہاڑوں کے دامن سے بہتا میرا دوست سندھو۔ یہ سحر انگیز جگہ ہے۔ پھانسی گھاٹ اسی برج کے قریب ہے۔ میرا دوست اس پھانسی گھاٹ کی بنیادوں اور اکبری دور کے بنے پلوں کے ستونوں کو چھوتا بہتا ہے۔ مجرم یا حکومت کے باغی سزا کے بعد یہاں لائے جاتے تھے اور یہ پھانسی گھر ان کی منزل ہوتا تھا۔ اُنہیں پھانسی گھاٹ تک لایا جاتا، ہاتھ پشت پر بندھے ہوتے، گلے میں پھندا ڈالا جاتا، پھانسی پانے والے کو لوہے کے تختے پر کھڑا کیا جاتا اور پھر جلاد کا کھنچا لیور بد قسمت کو پھانسی گھاٹ کی گہرائی میں اتار کر ہمیشہ کے لئے اس میں گم کر دیتا تھا۔ لاش بھی نہیں ملتی تھی۔ کہتے ہیں یہ پھانسی گھر دو سو (200) فٹ سے زیادہ گہرا اور خطرناک کیڑے مکوڑوں کا مسکن تھا اور آج بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر برسات کے موسم میں جب دریا طغیانی کیفیت میں ہوتا تو پھانسی گھر بھی کئی کئی فٹ پانی سے بھر جاتا ہے۔ پھانسی پانے والے کی لاش کب کیسے گلتی سڑتی تھی، آج تک راز ہی ہے۔ اس پھانسی گھاٹ سے مرنے والے کی لاش کبھی نکالی بھی نہیں جاتی تھی۔ مختلف آوازیں یہاں سنائی دیتی ہیں، سندھو کے شور کی، تیز ہوا کی، فوجی جوانوں کے بوٹوں کی، جی ٹی روڈ سے گزرتی گاڑیوں کی، کسی کونے میں دبکے چمگادڑ کے اڑنے کی، کہیں کسی سانپ کے پھنکار کی یا کسی کبوتر کی پھڑ پھڑاہٹ کی۔ یہاں دل دھلا دینے والا انتہائی ڈراؤنا سکون ہے۔ ہم اس ڈراؤنی جگہ سے بیگم کی سرائے چلے آئے ہیں۔
یہ عمارت قلعے کی مرکزی عمارت سے ہٹ کر ہے۔ عمارت، جس کی چھت پر ہم کھڑے ہیں، جی ٹی روڈ اس کی بغل سے گزرتی ہے اور قلعہ کا جو حصہ ہمیں جی ٹی روڈ سے دکھائی دیتا ہے دراصل بیگم کی سرائے ہی ہے۔ سرائے سے ملحقہ باغ بھی ہے۔
”یہاں بہت سے کمرے ہیں جن میں ملکہ کی کنیزوں کی رہائش ہوا کرتی تھی۔“ کمانڈو کبیر نے بتایا۔ وہ بات جاری رکھتے کہنے لگا؛ ”ملکہ کی پرانی سرائے میں اب ایس ایس جی کمانڈوز کا ہوسٹل ہے۔ یہاں ایس ایس جی کی ٹرنینگ پر آئے افسر اور جوان اکھٹے ایک ساتھ ہی رہتے ہیں۔“
سپاہی کبیر ہمیں اس عمارت کے برج پر لے آیا ہے۔ واہ! سبحان اللہ۔ دور دور تک کے نظارے سے آنکھ لطف اٹھا سکتی ہے۔ ان نظاروں میں سب سے دلکش نظارہ بے شک عظیم سندھو کا بہنا ہی ہے۔بیگم کی سرائے کے قریب ہی ’دیوان بابا‘ کی درگاہ ہے
قدیم زمانے میں قلعے فوج کی رہائش گاہیں ہوتی تھیں اور عقوبت خانے بھی۔ قلعے غاصب، قابض، بددیانت اور بد نیت اشرافیہ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی زبان بندی اور انہیں اذیتیں دینے کے لئے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے فوجی آمروں نے ان قلعوں کو معصوم اور نہتے شہریوں کے خلاف بھی استعمال کیا ہے۔ میں کبھی سوچتا ہوں کہ یہ لاؤ لشکر رکھنے والے ڈکٹیٹر اندر سے کس قدر بزدل اور کمزور ہوتے ہیں۔ قانون توڑنے، حقوق غضب کرنے اور جواب دہی کا خوف انسان کو بزدل کر دیتا ہے، خواہ وہ خود کو کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ سمجھتا ہو۔
شام کے سائے بڑھنے لگے ہیں۔ تھکاوٹ بھی جسم میں دوڑنے لگی ہے۔ واپس قلعہ کے مرکزی حصے پہنچے، سپاہی کبیر خاں کا شکریہ ادا کیا اور سندھو کنارے تاریخ کے 500 سال پرانے دور سے واپس ریسٹ ہاؤس کے رومانوی ماحول کو چل پڑے ہیں۔
کچھ گلیاں اور کوچے اپنی سمت بلانے کا بہانہ خود ہی بنا دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی رشتہ میرا اور سندھو کا بھی ہے۔ وہ مجھے اکثر اپنی مختلف گزرگاہوں، کنارے بنی عمارات کی اور بلاتا ہی رہتا ہے۔
ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے ہیں۔رات قیام کے بعد صبح سویرے ہم اگلی منزل کے لئے روانہ ہوں گے۔ ڈیرہ اسماعیل خاں سے گزرتے تونسہ شریف سے مٹھن کوٹ پہنچیں گے۔
اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور اٹک سے اگلی منزل کو روانہ ہوئے تو موسم خوشگوار آسمان صاف اور فضاء نتھری ہے۔ سڑک پر چلتی مسافر گاڑیوں میں لوگوں کا رش ہے کہ صبح کے وقت اپنے دفاتر اور دوسرے روز گار پر نکلے ہیں۔ سنہرے کھیت ہلکی ہوا میں جھوم رہے ہیں۔
سندھو بتاتا ہے ”اٹک سے آگے میں بلند اور عمودی چٹانوں میں پھنسا بہتا ہوں۔ میری تہہ میں نوکیلی چٹانیں ہیں۔ اکثر یہاں بھنور پیدا ہوتے ہیں، جن کی زد میں آکر کئی بار کشتیاں الٹ بھی جاتی ہیں۔ ان خطروں کے باوجود صدیوں سے لوگ کشتیوں سے ہی میرے آر پار آ جا رہے ہیں۔ اس کے مشرقی کنارے ’خوشحال گڑھ‘ کا ْقصبہ ہے اور مغربی کنارے ’کوہاٹ‘ ۔ انگریز کے دور کی اہم چھاؤنی اور آج کے دور میں پاکستان آرمی کی ’آئی ایس ایس بی‘ (انٹر سروسز سلیکش برانچ) برانچ کا ہیڈ کواٹر۔ یہیں وادیِ پوٹھوہار کا سب سے بڑا دریا ’دریائے سون‘ مجھ میں گرتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کبھی یہ بھی بھرا ہوا بہتا تھا۔ منبع پر پانی کی کمی نے دریائے سون کو ساون کی ندی ہی بدل دیا ہے۔ بارش برس جائے تو سون کا پانی خون کے رنگ کی طرح سرخ ہو جاتا ہے اور میرے پانی کو بھی دور تک سرخ کر دیتا ہے۔۔
”یہاں سے 10 میل ڈاؤن اسٹریم نمک کی پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ساتھ میں بھورے رنگ کی چٹانیں کھڑی ہیں۔ سارا راستہ اس قدر سلوٹوں سے بھرا کہ اس میں سے راستہ بنانا مشکل ہے لیکن میں ہوں کہ بس بہتا چلا جا رہا ہوں۔۔“ داستان گو اپنی گزرگاہ سے جڑے لوگوں، مقامات اور کہانیوں کا پردہ فاش کرتا جا رہا ہے۔
”میرے جنوب میں نمک کی سرخ اور ارغوانی رنگ کی چٹانیں کھڑی ہیں اور یہیں سے میں میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ مغربی کنارے کالاباغ اور مشرقی کنارے ’ماڑی انڈس‘ کے قصبے ہیں۔ میرا پاٹ یہاں ایک سے دس میل تک پھیلا ہے۔ اس پاٹ میں کئی جزیرے ہیں جن میں مال مویشی اور زراعت ہوتی ہے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں۔ سیلاب کے موسم میں یہاں کے مکین نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ یہاں نرسل کا جنگل دور دور تک پھیلا ہے۔ پانی کی سطح بلند ہوتی ہے تو یہ جزیرے غائب ہو جاتے ہیں اور جب پانی کا دھارا رخ بدلتا ہے تو نئے جزیرے جنم لیتے ہیں۔“
زمین دریا برد ہوتی رہتی ہے اور نئی پیدا بھی۔ سندھو کی اپنی سلطنت اور اپنے اصول ہیں۔ کوئی اسے حکم نہیں دے سکتا ہے۔۔
سندھو داستان جاری رکھے ہے، ”یہاں کرومنیم، جپسم، کوئلے کی کانیں ہیں لیکن سب سے اہم نمک ہے۔ ’پنک نمک‘ کی یہ کانیں دنیا میں سب سے بڑی ہیں۔ یہاں پھیلے ریگستانی بیابانوں میں کہیں کہیں سفید نمک کی ٹکڑیاں بکھری پڑی ہیں جن پر کانٹے دار جھاڑیاں فاصلہ فاصلہ پر اگی نظر آتی ہیں۔ میرے کنارے اکثر شام کو آندھیاں چلتی ہیں۔۔
”کالاباغ سے تیس (30) کلو میٹر نیچے میرے دائیں کنارے کوہ سلیمان اور افغانستان کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا آخری قابل ذکر دریا ’دریائے کرم‘ مجھ میں گرتا ہے۔ اس راستے سے بھی وحشی اور جنگجو حملہ آور ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ گو ہر مرتبہ یہ حملہ آور اجنبی ہی ہوتے تھے مگر اپنے پیشروؤں کی طرح ظالم بھی۔ بہتر حکمت عملی سے انگریز کے دور حکومت میں یہ حملے رک گئے۔ میرے مشرقی کنارے میانوالی کا قدیم قصبہ اب بڑا شہر بن چکا ہے۔ اس شہر نے کئی نام بدلے۔ یہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے سنگم پر واقع ہے۔ جناح اور چشمہ بیراج اس کے مضافات میں ہیں۔ سکندر کے ایک سالار ’سلوکس‘ کو یہیں چندر گپت موریا نے شکست دی۔“ سندھو یہاں تک داستان سنا کر کچھ خاموش ہوا ہے
”ہم ڈیرہ اسماعیل خاں کے قریب ہیں۔ وادی گومل کا اہم اور مرکزی شہر۔ میں اس کی مشرقی سمت سے بہتا ہوں۔ مغرب میں کوہ سلمان کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ جس کی سب سے اونچی چوٹی ’تخت سلیمان‘ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار چار سو اٹھارہ (18418) فٹ بلند ہے۔ ’فورٹ منرو‘ اسی پہاڑی سلسلہ کا اہم تاریخی درہ اور تفریحی مقام ہے۔ کبھی یہ درہ دشوار گزار تھا۔ گیارہ (11) میل لمبے اس درے کو عبور کرنے میں کئی گھنٹے لگتے تھے مگر اب جاپان کے تعاون سے تعمیر کی جانے والی جدید سڑک اور اسٹیل اسٹکچر کے پل کی تعمیر نے اس مسافت کو بہت کم کر دیا ہے۔ ’گومل پاس‘ سے شروع ہو کر پہاڑوں کا یہ سلسلہ جیکب آباد تک چلا گیا ہے۔ اس پہاڑی سلسلہ میں پائن، زیتون اور جونیپر کے درخت بکثرت ہیں۔ گومل پاس، گھاٹ، زاؤ، چوہار کھل دھانہ اور سخی سرور اس سلسلہ کے دیگر نمایاں درے ہیں۔ صاف موسم میں تخت سلمان کی چوٹی اپنا شاندار درشن دیتی ہے۔ اس شہر کی بنیاد میرانی خاندان کے بلوچ سردار سہراب خاں نے 1469ء میں رکھی اور اپنے بیٹے اسماعیل خاں کے نام سے منسوب کیا۔ یاد رہے ڈیرہ غازی خاں کو بھی میرانی سردار حاجی خاں نے آباد کیا اور اپنے بیٹے غازی خاں کے نام سے منسوب کیا تھا۔
میرانی بلوچ خاندان نے یہاں 300 سال تک حکومت کی۔ سدوزئیوں نے انہیں شکست دی۔ سکھ بھی یہاں قابض رہے۔ سکھ دور کی نشانی ’قلعہ اکال گڑھ‘ آج بھی موجود ہے۔ 1823ء میں سندھو اس شہر کو اپنے سیلاب میں بہا لے گیا اور نیا شہر سندھو سے گیارہ (11) کلومیٹر دور مغرب میں دُرانی سرداروں نے آباد کیا۔ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں یہاں کی عظیم درس گاہ ’گومل یونیورسٹی‘ کی بنیاد رکھی جو ڈیرہ غازی خاں جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔ ہم یہاں سے گزر کر ہی ڈیرہ غازی خاں پہنچے گے انشا اللہ۔ یاد رہے یہ شہر پشتون اور بلوچ قبائل کا جنکشن ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔