عالمِ استغراق (مراکشی ادب سے منتخب افسانہ)

نذہا بن سلیمان (ترجمہ: فوزیہ مقبول)

ساحلِ سمندر لوگوں سے تقریباً خالی ہو چکا تھا، ماسوا ان چند کارندوں کے، جو وہاں پہ صفائی اور دیگر حفاظتی معمولات کی دیکھ ریکھ پہ مامور تھے۔ سورج وسیع و عریض سطحِ سمندر پر اپنی سنہری چمک بکھیر بکھیر کر اب غروب ہونے کے قریب تھا۔

میں وہاں بکھری ہوئی سنگلاخ چٹانوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ وہ سب ریت میں جا بجا بکھری ہوئی تھیں اور نوعِ انسان کی نسل در نسل کی زندگیوں پہ جیسے گواہ تھیں۔ غالباً یہ مجھ سے قبل یہاں آنے والے ایسے بہت سے انسانوں کو جانتی تھیں، جو یہاں شہری زندگی کے روزانہ درپیش مسائل اور گہما گہمی سے اکتا کر اپنی امیدوں اور مایوسیوں سمیت ادھر کا رخ کرتے تھے۔

میں سمندر کی لہروں کو دیکھنے میں محو تھی، جو ایک طوفانی دن کے بعد اب نسبتاً پر سکون ہو چکی تھیں اور کائنات اور اس کے خالق کی عظمت کی غمازی کر رہی تھیں۔ میں اپنے آپ میں گم تھی ایک ایسے بے پایاں عالم خیال میں، جس میں سوال پہ سوال کرتے ہوئے ایسے سوال میرے سامنے تھے، جن کا غالباً کوئی جواب نہ تھا۔ ساحل سمندر پہ مامور دو کارندوں کے بیچ ہونے والے جگھڑے کی بلند آواز مجھے میری اس تخیل کی دنیا سے باہر کھنچ لائی۔

کچھ دیر کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ دو لوگ نہ ہی تو صفائی پہ مامور کارندے تھے اور نہ ہی وہ دونوں مرد تھے، جیسا کہ مجھے لگا تھا۔۔ بلکہ وہ دونوں ایک مرد اور ایک عورت تھے جو اکثر گھومنے کے لیے ساحلِ سمندر تک آتے تھے اور جو کچھ بھی ان کے درمیان تھا، وہ جھگڑا بالکل بھی نہیں تھا۔ وہ تو جذبات سے بھرپور انداز سے ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملنا تھا۔ غالباً میں نے اپنے ذاتی محسوسات کو ان پہ منطبق کر دیا تھا۔ میں پریشان تھی اور اسی لیے میں نے یہ تصور کر لیا تھا کہ میرے ارد گرد موجود ہر شخص ہی اسی ذہنی حالت میں مبتلا ہے۔

مرد اور عورت دونوں نے آہستہ آہستہ میری جانب آنا شروع کر دیا۔ جاتی سہ پہر کی زرد روشنی میں پہلے پہل تو مجھے وہ دو بھوت لگے۔ فاصلے کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان فرق روا رکھنا بہت دشوار تھا۔ جب وہ مزید قریب آئے تو میرے سامنے ایک ایسا جوڑا تھا، جس پہ عین شباب تھا اور جو بے حد سادہ سے کھیلوں کے لباس میں ملبوس تھے۔ وہ سنہری ریت پہ ہاتھوں میں ہاتھ لیے چہل قدمی کر رہے تھے۔ یہ کام انھیں بھی اتنا ہی دل پذیر لگ رہا تھا، جس قدر یہ مجھے پسند تھا۔ ان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ایک دوسرے پہ الزام دھرنا بھی شامل تھا، جس کی آواز بآسانی سنی جا سکتی تھی۔

”یہ سب تمہاری غلطی تھی۔“

”نہیں جو کچھ بھی ہوا، اس کے ذمے دار تم تھے۔“

”بہت سے قیمتی سال گنوا دیئے۔۔ لعنت بھیجو ان سالوں پہ۔“

”اہم بات تو یہ ہے کہ ہم پھر یک جا ہیں۔ آؤ نئی شروعات کریں۔“

خوشی سے بھرپور ان کی چیخیں ایک بار پھر بلند ہونا شروع ہو گئیں اور انھوں نے سر خوشی میں بچوں کی طرح بھاگنا شروع کر دیا۔ مجھے اس وقت بے اندازہ حیرت ہوئی، جب وہ مجھ سے مخاطب ہوئے۔

”مادام شام بخیر! آپ کی مہربانی ہوگی اگر آپ ہماری خوشیوں میں شامل ہو جائیں۔۔ میں سعید ہوں اور یہ لطیفہ ہے۔ ہم لوگ گزشتہ سات سالوں سے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہیں۔ کل ہم شادی کے لیے شادی کرانے والے دفتر جائیں گے اور اس طرح ہماری خوشی کی تکمیل ہو جائے گی۔۔“

”مبارک ہو سعید۔۔۔ مبارک ہو سعیدہ۔“

”نہیں میرا نام سعیدہ نہیں، لطیفہ ہے“

”ہاں مجھے پتہ ہے لیکن مجھے امید ہے کہ تم بھی سعیدہ ہو جاؤ گی۔“

اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور وہ دونوں بندر گاہ کی طرف بھاگ گئے، جہاں سعید نے اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر رکھی تھی۔ وہ دونوں اس پہ سوار ہوئے اور شہر کی طرف جانے والے راستے پہ جاتے جاتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

سمندر کی سرد ہوا نے میرے رخساروں کو چھوا اور ہوا کے اس ٹکراؤ نے مجھے تخیّل کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں لا پھینکا۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی کہ میں اس طرح ساحلِ سمندر پہ کیوں ہوں؟

گونگی بہری چٹانوں کی مانند بالکل ساکت گم سم اکڑوں بیٹھے ہوئے؟ اور پھر وہ بھی اس وقت؟ جب کہ میرا اس وقت تک باہر رکنا خلاف معمول تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کچھ عرصہ پہلے، بلکہ کچھ سال پہلے ہونے والے ایک ازدواجی جھگڑے نے میرے اندر کے باغی کو جگا دیا تھا اور وہ مجھے کھینچ کے اس جگہ لے آیا تھا۔ میں نے ساحلِ سمندر کو ایک منصف محض سمجھا تھا، جسے میں جب اپنی کہانی سناؤں گی تو وہ مجھ جیسے مظلوم کی طرف داری کرے گا اور میرے ساتھ انصاف کرے گا۔ میں نے اس معاملے پہ غور کیا تو میں اس معاملے کے معمولی پن پہ ہنس پڑی۔۔ مجھے تو یہ سارا ہنگامہ اور ذہنی کوفت بے کار لگی۔میں نے اپنے آپ سے دھیمی سی سر گوشی کی ’غالباً یہ سب میری غلطی تھی یا کم از کم میری تھوڑی بہت غلطی تو ضرور تھی۔‘

غالباً نوکری اور خاندان کے درمیان توازن قائم کرنے کے دباؤ نے مجھے حواس باختہ کر دیا تھا۔ میں نے خود کو اور اپنے شوہر کو اس بات کا موقع ہی نہ دیا تھا کہ جو کچھ ہوا اسے منطق کے نقطہ نظر سے دیکھیں یا سمجھیں کہ اس معمولی اور سادہ سے مسئلے پہ اتنا شدید رد عمل کسی طور مناسب نہیں۔ میں نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا، ’قطعِ نظر اس کے کہ میں غلط تھی یا ہم دونوں ہی غلط تھے، ہم اپنی روایات، رسم رواج اور تہذیب ثقافت کے سنہری اصولوں سے کیا سیکھ پائے، اگر ہم نے ان لوگوں کے ساتھ خاص طور پہ صبرو تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا، جو ہمارے بے حد قریب ہیں اور ہمارے بہترین سلوک کے حقدار ہیں“

ایک چھوٹی سی غلط فہمی اس سارے مسئلے کی وجہ بنی۔ میں نے ہی بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ اس ساری صورت حال کا ٹھیک سے سامنا کرنے کی بجائے میں گھر سے نکلی اور سر پٹ گاڑی دوڑاتی ہوئی غیر ارادی طور پہ ساحلِ سمندر پہ آ گئی، جیسا کہ مجھ ایسے لوگ اکثر پریشانی میں یہاں ہی پناہ لیتے ہیں۔

میں اپنے قدموں پہ کھڑی ہو گئی، اپنے کپڑوں سے ریت کو جھاڑا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کے اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی جہاں میرا شوہر اور میری بلی ساسن میرے منتظر تھے۔

English Title: A Moment of Contemplation
Written by: Nuzha Bin Sulayman

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close