پاکستان کے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔
آصف علی زرداری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن (ای سی پی) نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے اور زور دیا کہ ای سی پی آئین کے مطابق الیکشن کروائے۔ پیپلز پارٹی کو چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر ہمیں پورا اعتماد ہے۔‘ جبکہ بلاول بھٹو زرادری نے اس کے بالکل برعکس رائے کا اظہار کیا ہے
آصف زرداری کا کہنا تھا ”ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے، ہم سب کو سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔‘
آصف زرداری کے اس بیان سے بظاہر یہ تأثر ملا کہ وہ عام انتخابات کا فوری انعقاد نہیں چاہتے
آصف علی زرداری کے مطابق ”نگران حکومت ایس آئی ایف سی کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالے“
یاد رہے کہ ایک روز قبل ہی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی کا آج بھی یہی کہنا ہے کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات کا انعقاد نوے دن میں ہونا چاہیے اور اب الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ اور الیکشن شیڈول کا اعلان کر دینا چاہیے
جبکہ آصف زرداری کے بیان کے ایک دن بعد ہفتے کو صوبہ سندھ کے شہر بدین میں بلاول بھٹو زراری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”میں صرف گھر کی باتوں پر ہی سابق صدر آصف زرداری کا پابند ہوں۔ سیاسی و آئینی معاملات میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہے“
ہفتے ہی کو حیدر آباد میں بلاول بھٹو زرادری نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا ”کہا جا رہا ہے کہ 90 دن میں الیکشن نہیں ہوسکتے، 90 دن تو بہت دور ہیں 60 دن میں الیکشن ہونے چاہیے تھے، 90 دن میں بھی نہیں کرانا چاہتے تو الیکشن کب کرائیں گے؟“
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اتوار کو حیدرآباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا ”افسوس کی بات ہے کہ ہمارے دیگر سیاسی اتحادی ڈر چکے ہیں، وہ خوف میں مبتلا ہیں، جو کہ اب عام انتخابات سے بھی بھاگنا چاہتے ہیں۔“
بلاول اور زرداری اپنے بیانات سے ایک دوسرے کے خلاف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ بلاول نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ عام انتخابات 90 دن میں کرائے جائیں۔ انہوں نے لفظ اسٹیبلشمنٹ منہ سے نکالے بغیر کہا کہ وہ کٹھ پتلیاں بنانے والوں کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستانی عوام پر تجربات کرنا بند کریں اور لوگوں کو اپنے فیصلے کرنے دیں
جبکہ آصف زرداری الیکشن کمیشن کے دفاع میں سامنے آئے اور انتخابات کرنے والے ادارے پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی مشق ایک لازمی چیز بن گئی ہے۔ زرداری کے بیان کو پیپلز پارٹی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے نشر کیا ۔ زرداری نے اس پر بھی زور دیا کہ سیاست پر معیشت کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ سابق صدر نے نگران حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ فوج کی پشتیبانی میں چلنے والے ایس آئی ایف سی کے منصوبے مکمل کرے۔ زرداری کے بیان کو ایک طرح یہ بلاول کے لیے جھاڑ پلانے کے طور پر دیکھا جارہا ہے جنہوں نے جلد انتخابات کا تقاضا کیا تھا۔ زرداری نے جو کچھ کہا ہے کہ وہ ان معیشت کی درستی کے لیے انتخابات میں تاخیر کے شبہے کو آگے بڑھاتا ہے۔ ہفتے کو بلاول بھٹو نے یہ چونکا دینے والا بیان دیا کہ تازہ حلقہ بندیوں پر ان کا بیان ان کا ذاتی بیان تھا اور وہ پارٹی پالیسی نہیں ہے اور جب ان سے بیانات کے اختلاف ان کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زرداری سے پوچھا جائے کہ اس بیان سے ان کا کیا مطلب ہے
اب سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ کیا بلاول بھٹو زراری اور ان کے والد آصف زرداری آمنے سامنے آ چکے ہیں اور پھر یہ بیانات ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں؟
بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں کا پختہ خیال ہے کہ ان بیانات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ پیپلز پارٹی میں کوئی دراڑ پڑ رہی ہے، درست نہیں۔ بعض تجزیہ کار ان بیانات کو محض ’نمائشی پریکٹس‘ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے اس وقت نون لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) کے پاس اس وقت کہنے کے لیے کچھ اور نہیں ہے تو اسی طرح وہ خبروں میں رہنا چاہتے ہیں
گڈ کاپ، بیڈ کاپ (ایک ساتھی ایک دشمن) کا کھیل ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اندر کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بلاول اور زرداری ایک ہی سکے کے دورخ ہیں اور جو یہ لوگ کر رہے ہیں وہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر ہر کوئی جانتا ہے کہ کون کسے بنارہا ہے اور کس کی بات مانتی ہے۔ ذریعے نے دونوں کے مابین اختلافات کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ زرداری جو کچھ کہتے ہیں وہ پارٹی پالیسی ہوتی ہے اور بلاول جو کچھ کہتا ہے وہ عوام کو خوش کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ زرداری کے حوالے سے اس ذریعے کا کہنا تھا کہ وہ پاپولر رہنما نہیں لیکن وہ پیپلز پارٹی کا سیاسی ذہن ہیں۔ جو فیصلہ وہ کرتے ہیں وہ حتمی ہوتا ہے اور پارٹی میں ہر کوئی اسے ہی جانتا ہے۔ دوسری جانب بلاول بھٹو پاپولر ہے اور اسے ان ایشوز پر ایسی باتیں کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے، جس سے عام عوام کی توجہ حاصل کی جاسکے۔ اس ذریعے نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین نے محاذ آرائی کی پالیسی سے خاصے سبق حاصل کیے ہیں
اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار ارشاد احمد عارف کہتے ہیں ”میرا خیال ہے پیپلز پارٹی نے یہ سبق مسلم لیگ نواز سے سیکھا ہے اور اس وقت ’گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ تکینک کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح کے بظاہر متضاد بیانات کے ذریعے پیپلز پارٹی ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھنا چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ عوام کی ہمدردیاں بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے“
بلاول بھٹو کی جانب سے نوے دن میں الیکشن کرانے پر اصرار سے متعلق ارشاد عارف کا کہنا ہے ”دیکھیں جس کابینہ کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری دی گئی، اس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی موجود تھے اور وزیراعلیٰ سندھ سمیت وہاں کے تمام وزرا بلاول ہی کے ماتحت ہیں۔ مردم شماری کی منظوری دینے کا مطلب یہی تھا کہ الیکشن وقت پر نہ ہوں۔ لہٰذا اس فیصلے میں بلاول کی مرضی شامل تھی“
بلاول بھٹو کی جانب سے ’کیئر ٹیکرز کے چیئر ٹیکرز بن جانے‘ کے خدشے کے اظہار سے متعلق ارشاد عارف کہتے ہیں ”یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ الیکشن اگلے برس ہوں یا پھر یہ نگراں سیٹ اپ دو برس تک چلتا رہے، کیونکہ جو منصوبے اور اقدامات شروع کیے گئے ہیں، وہ دو چار ماہ میں مکمل تو نہیں ہو سکتے۔ اگر اس دوران نئی حکومت آ گئی تو سب کچھ ٹھپ ہو سکتا ہے جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا۔ اس لیے موجودہ سیٹ اَپ کے ذریعے کچھ ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے کہ اگلے الیکشن میں یہ سیاسی جماعتیں پوری طرح مؤثر نہ ہو سکیں۔ ایسے دورانیوں میں سسٹم میں نئے تیار کیے گئے لوگ داخل کیے جاتے ہیں۔ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا“
مستقبل قریب میں ملک کے مجموعی سیاسی منظرنامے کے بارے میں ارشاد عارف کا کہنا تھا ”سیاست کا اصل میدانِ جنگ پنجاب ہی ہے۔ مسلم لیگ نواز پنجاب کھونا نہیں چاہتی جبکہ بلاول اور آصف زرداری سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں حمایت حاصل کیے بغیر ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ اس وقت ن لیگ کا خیال ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں گے، نقصان انہی کا ہوگا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی ناکامیوں کو بوجھ نگراں سیٹ اپ پر پڑے اور لوگ چند ماہ گزر جانے کے بعد ان کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت کی کارگردگی بھول جائیں۔ ان کے خیال میں عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے“
ملک کی پارلیمانی سیاست بالخصوص سندھ کے سیاسی اتار چڑھاؤ اور الیکشن سے جڑے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار عبدالجبار ناصر بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے متضاد بیان کو ’نمائشی عمل‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرادری نے ایسے بیانات کے ذریعے نواز شریف اور شہباز شریف کی نقل کی ہے اور نقل زیادہ دیر تک چل نہیں سکتی۔ آصف زرداری کو شاید یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے (سیاسی) کھیل میں وہ اِن نہیں ہیں۔ وہ کسی طرح سے خود کو اس کھیل میں اِن کرانا چاہتے ہیں“
کیا بلاول بھٹو کے ان بیانات سے یہ تاثر لیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے والد کے اثر سے نکل رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں عبدالجبار ناصر نے کہا ”بلاول اپنے والد کی مرضی کے بغیر ایک قدم بھی ہِل نہیں سکتے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے شہباز شریف اپنے اقدامات کے لیے حتمی طور پر بڑے بھائی نواز شریف کے اشارے کے محتاج رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا المیہ یہی ہے کہ آصف زرداری نے سیاست کرنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو کھلا میدان نہیں دیا۔ انہیں ڈکٹیشن پر چلایا ہے، اس لیے اس وقت وہ ان متضاد بیانات کے ذریعے جو تجربہ کر رہے ہیں، وہ اس مرحلے میں کامیاب نہیں ہو سکتا“
عبدالجبار ناصر کے مطابق ”الیکشن نوے دن میں کسی بھی طور ممکن نہیں بلکہ یہ ایک سو بیس دن میں بھی نہیں ہو سکتے۔ آئینی طور پر مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن پر حلقہ بندیاں کرانا لازم ہو جاتا ہے۔ حلقہ بندیوں کے بعد ووٹر لسٹوں کو فائنل کرنے کا مرحلہ بھی کافی وقت لیتا ہے۔ اس وقت لوگ آئین کے آرٹیکل 224 کا بہت ذکر کر رہے ہیں حالانکہ اس کے ساتھ آرٹیکل 218، 219، 220، 221 اور 222 بھی تو ہیں“
تو پھر کیا نگراں سیٹ اپ کا دورانیہ زیادہ طویل ہونے کا خدشہ درست ہے؟ اس سوال کے جواب میں عبدالجبار ناصر کا کہنا تھا ”آج سے دو ہفتے قبل یہ سوال ہوتا تو میں اس کا جواب ’ہاں‘ میں دیتا، لیکن اب آئینی تقاضوں کی تکمیل کی جو رفتار ہے، وہ دیکھ مجھے لگتا ہے کہ الیکشن فروری 2024 سے آگے نہیں جائیں گے۔ میری معلومات کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اب اگر تیس نومبر کو حلقہ بندیاں مکمل ہوئیں تو اس وقت تک ووٹر لسٹوں کا بھی 90 فیصد کام پورا ہو چکا ہوگا۔ صرف اعتراضات اور درست اندارج کا مرحلہ باقی بچے گا۔ اگر معاملات اسی تیز رفتاری سے آگے بڑھے تو 20 دسمبر سے قبل ووٹر لسٹیں فائنل ہو جائیں گی اور پھر الیکشن کے شیڈول کا اعلان کر دیا جائے گا“
عبدالجبار کے مطابق ”الیکشن کمیشن کے ذہن میں انتخابات کے لیے 28 جنوری کی تاریخ تھی لیکن تکنیکی طور پر یہ ممکن نہیں۔ اب یہی لگتا ہے کہ الیکشن فروری کے دوسرے یا تیسرے ہفتے ہی میں ہوں گے۔“