پاکستان میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے پاکستانی خواتین کے ساتھ تعلقات کا انکشاف۔۔ معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

ان دنوں صحافی اور ٹیلی ویژن کی سابق رپورٹر مونا حبیب ریٹائرڈ امریکی سفارت کار رچرڈ اولسن کے ساتھ ’تعلقات‘ کی وجہ سے خبروں میں ہیں، جو پاکستان میں سابق امریکی سفیر رہ چکے ہیں

یہ تعلق اس وقت توجہ کا مرکز بن گیا، جب ایک انکوائری نے اولسن کے سفارتی کیریئر کے دوران غیر روایتی طرز عمل پر روشنی ڈالی۔ تاہم، پاکستان میں اپنے دور میں اولسن کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے توجہ مونا حبیب کی طرف منتقل ہو گئی ہے

تفصیلات کے مطابق پاکستان میں تعینات رہنے والے امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے حوالے سے ممتاز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ’ڈائمنڈز، گرل فرینڈز، الیگل لابنگ: دی فال آف اے ایکس ایمبیسیڈر‘ کے عنوان سے مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ اولسن مختلف تحائف وصول کرنے اور ایک پاکستانی خاتون صحافی سے ’قریبی تعلقات‘ کی بنا پر وفاقی تحقیقات کی زد میں آگئے ہیں اور انہیں اس کے لیے چھ ماہ قید ہو سکتی ہے

رچرڈ گوستاوے اولسن جونیئر 2016 میں چونتیس سالہ کرئیر کے بعد امریکی محکمہ خارجہ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ وہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں امریکی سفیر کے طور پر ہائی پروفائل پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ عراق اور افغانستان میں خطرناک اسائنمنٹس پر بھی رہے، لیکن اب ان کے خلاف محکمہ خارجہ کو بے ضابطگیوں کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں، جس نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا ہے اور وہ وفاقی تحقیقات کی زد میں ہیں

’واشنگٹن پوسٹ‘ نے عدالتی دستاویزات کے حوالے سے ان کے خلاف جاری تحقیقات پر سے پردہ اٹھایا ہے، جس میں پاکستانی خاتون صحافی کے ساتھ ان کے تعلقات، ہیروں کی برآمدگی اور دیگر کئی الزامات شامل ہیں

امریکی اخبار کے مطابق عدالت میں پیش کیے گئے خفیہ ریکارڈ سے پتہ چلا ہے کہ دبئی کے ایک امیر کی جانب سے اولسن کی ساس کو ساٹھ ہزار ڈالرز مالیت کے ہیرے کے زیورات تحفے میں دیے، اولس نے اس تحفے کی اطلاع محکمہ خارجہ کو نہیں دی

دستاویز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل نے اولسن سے ہیروں کے ان زیورات کے بارے میں تفتیش کی۔

دستاویزات میں ایک اہم انکشاف اولسن کے ایک پاکستانی صحافی خاتون کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ہے، جس کے مطابق امریکی تحقیقاتی ایجنسی ’ایف بی آئی“ نے ان سے اسلام آباد میں بطور امریکی سفیر تعیناتی کے دوران ایک خاتون صحافی کے ساتھ ان کے ’غیر ازدواجی تعلقات‘ کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی

ایف بی آئی کو معلوم ہوا کہ اولسن کو ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر نے (جو اس وقت غیر قانونی چندہ مہم اور ٹیکس سے متعلق جرائم کے لئے جیل میں بارہ سال کی سزا کاٹ رہا ہے) ٹیوشن بلز کی مد میں پچیس ہزار ڈالرز دیے تھے، جس سے سفیر کی یہ پاکستانی گرل فرینڈ نیویارک گئیں اور کولمبیا یونیورسٹی گریجویٹ اسکول آف جرنلزم میں داخلہ لیا

یہی نہیں بلکہ ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ اولسن پاکستان میں کچھ دیگر ایسے رومانوی تعلقات میں بھی ملوث تھے، جن کی وجہ سے وہ بلیک میلنگ کا شکار ہو سکتے تھے

اخبار نے دعویٰ کیا کہ 2012 سے 2015 تک پاکستان میں تعیناتی کے دوران اولسن نے متعدد خواتین کے ساتھ تعلق قائم کیا، حالانکہ وہ ایک امریکی سفارت کار سے شادی کر چکے تھے، جو اُس وقت لیبیا میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں

اولسن نے ایف بی آئی کو بتایا کہ انہوں نے سی آئی اے کے اسلام آباد اسٹیشن کے سربراہ کو اپنی ’ڈیٹنگ‘ کی عادات کے بارے میں بتایا تھا

لیکن عدالتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ انہوں نے محکمہ خارجہ کے انسداد انٹیلیجنس قوانین کے مطابق امریکی سفارتی سیکیورٹی حکام کو اپنے رابطوں کی اطلاع نہیں دی تھی

منگل کو واشنگٹن میں تریسٹھ سالہ اولسن کو امریکی ضلعی عدالت میں دو غلط کاموں کے گزشتہ سال کیے گئے اعتراف کے بعد سزا سنائی جائے گی۔

پہلے الزام پر اولسن نے اعتراف کیا کہ جب وہ پاکستان میں سفیر تھے تو انہیں خلیج فارس کی ایک سرمایہ کاری فرم میں ملازمت کے انٹرویو کے لیے لندن جانے کے لیے اٹھارہ ہزار ڈالرز کا فرسٹ کلاس ٹکٹ ملا تھا، جسے وہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے

دوسرے الزام میں انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے 2017 میں قطری حکومت کی جانب سے امریکی حکام کے خلاف غیر قانونی طور پر لابنگ کی، اور ایک وفاقی ’کولنگ آف‘ قانون کی خلاف ورزی کی جس کے تحت انہیں محکمہ خارجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سال تک ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا

تاہم سابق امریکی سفیر پر قیمتی تحائف ساس کو دینے اور پاکستانی خاتون صحافی کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات اور ان کی ٹیوشن فیس کے لیے پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی، لیکن محکمہ انصاف نے دلیل دی کہ سفیر کے یہ اقدامات غیر اخلاقی رویے کا نمونہ ہیں

عدالتی دستاویزات میں، استغاثہ نے امیر کے زیورات کو ’ایک بے حد اور واضح طور پر نامناسب تحفہ‘ قرار دیا اور اولسن پر احتساب سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنے کا الزام لگایا

ان الزامات کے تحت اولسن کو چھ ماہ تک قید ہو سکتی ہے۔

اولسن کے جس پاکستانی نوجوان خاتون صحافی سے تعلق کی چھان بین کی جا رہی ہے وہ مونا حبیب ہیں، جو 2019 مین اولسن سے شادی کر چکی ہیں

لیکن تحقیقات کا مرکز اولسن کی پاکستان میں تعیناتی کے برس ہیں، جب اولسن کی بیوی ڈیبورا تھی اور وہ مونا سے قریب ہوئے

امریکی عدالتی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اولسن اور مونا کا تعلق دو سال تک رہا، لیکن 2014 کے آخر میں دونوں کے درمیان تعلق ٹوٹ گیا، کیونکہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری مونا حبیب کو پتہ چل گیا کہ امریکی سفیر ان کے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ دھوکہ دہی کر رہے ہیں

لیکن انہوں نے چند ماہ بعد دوبارہ رابطہ شروع کیا

واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ مونا حبیب کو 2015 میں کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ اسکول آف جرنلزم میں داخلہ دیا گیا تھا، لیکن وہ اس کے لیے درکار 93 ہزار ڈالرز برداشت نہیں کر سکتی تھیں

عدالتی ریکارڈ کے مطابق اولسن نے پاکستان، چین اور مشرق وسطیٰ میں اعلیٰ سطحی کاروباری اور سیاسی رابطے رکھنے والے پاکستانی نژاد امریکی ڈیل میکر عماد زبیری سے مونا کا تعارف کروایا

ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عماد زبیری نے مونا حبیب کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا، لیکن کچھ ہی دنوں میں انہوں نے مونا کو تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے پچیس ہزار ڈالرز دینے اور پچاس ہزار ڈالرز قرض کا بندوبست کرنے کی پیشکش کی

ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ عماد زبیری نے کولمبیا یونیورسٹی کو بیس ہزار ڈالرز اور مونا حبیب کو پانچ ہزار ڈالرز کا چیک بھیجا لیکن قرض دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا

عماد زبیری کو 2021 میں ایک الگ کیس میں بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جب انہوں نے ٹیکس چوری، چندہ جمع کرنے کی غیرقانونی مہم اور دیگر الزامات کا اعتراف کیا تھا۔ اس وقت خبریں آئی تھیں کہ عماد زبیری امریکی انٹیلیجنس کے لیے کام کر رہے تھے

عدالتی فائلنگ میں اولسن کے وکلاء نے کہا کہ سابق امریکی سفیر نے ’صرف ایک تعارف کروایا، جو ایک سفارت کار کے لیے ایک بہت عام عمل ہے‘ اور یہ کہ تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کوئی غلط بات نہیں تھی کیونکہ وہ اس وقت وہ مونا حبیب سے کسی رشتے میں نہیں تھے

لیکن عدالت میں جمع کرائی گئی ای میلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سفیر اور صحافی اس وقت بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے

مونا اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔ وہ 2019 مین اولسن سے شادی کے بعد نیو میکسیکو میں مقیم ہیں۔ ڈیبورا اور اولسن کی طلاق 2018 میں ہوئی۔

اولسن کے خلاف دوسرا بڑا معاملہ ہیروں کا ہے۔

2014 میں کسی نے محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل کو اطلاع دی کہ گیارہ سال پہلے جب اولسن دبئی میں امریکی قونصل خانے کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے تو خلیج فارس کی ریاست کے ایک امیر نے ان کے دفتر میں ایک مخملی ڈبہ پہنچایا، اس کے اندر سفید سونے میں جڑے چار ہیرے رکھے گئے تھے اور ساتھ ہی ایک لاکٹ، ایک انگوٹھی اور بالیوں کا ایک سیٹ تھا، جس کی وفاقی حکام نے بعد میں عدالتی دستاویزات کے مطابق قیمت ساٹھ ہزار ڈالرز بتائی

دستاویز میں امیر کا نام نہیں لیا گیا، تاہم دبئی میں 2003 سے اب تک دو مختلف امیر رہ چکے ہیں

اُس وقت نافذ العمل غیر ملکی تحائف اور سجاوٹ ایکٹ کے معیارات کے تحت، امریکی حکام کو 285 ڈالرز سے زیادہ مالیت کے تحائف کی اطلاع دینی ہوتی تھی، اور وہ انہیں اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ وفاقی حکومت کو منصفانہ قیمت کی ادائیگی نہ کر دیں۔ اولسن نے یہ بھی نہیں کیا

انہوں نے محکمہ خارجہ کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ امیر نے ہیرے انہیں نہیں بلکہ ان کی ساس کو دیے تھے، جو دبئی میں ان کے ساتھ رہ رہی تھیں

انہوں نے کہا کہ امیر اولسن کے دو بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کے لیے دبئی آنے پر ان کی ساس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔

اولسن کی اُس وقت کی اہلیہ ڈیبورا جونز اُس وقت واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر اہلکار کے طور پر مقیم تھیں، اور جزیرہ نما عرب کے دفتری امور کی نگرانی کرتی تھیں۔

اولسن کے علاوہ ڈیبورا کی خلاف بھی ان پیروں پر تحقیقات ہوئیں اور ان سے وہ ہیرے واپس مانگے گئے تاہم دونوں نے حکام کو بتایا کہ ڈیبورا کی والدہ وہ ہیرے واپس کرنے کو تیار نہیں ہوئیں اور ان کے مرنے کے بعد ہیروں کا کچھ پتہ نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close