جمہوریت بھی عدم مساوات کا باعث بنتی ہے

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ میں تہذیب کی ترقی کے ساتھ معاشرہ طبقاتی ہو گیا۔ حکمران طبقے کے پاس ریاست کی طاقت اور اس کے اداروں پر تسلط تھا جبکہ عام لوگ بے بس اور محرومی کا شکار تھے۔

تاریخ میں نچلے طبقے کے عوام مساوی درجہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ شورش، فسادات اور بغاوتیں بھی ہوئیں مگر وہ حکمراں طبقوں کے مقابلے میں عزت و وقار حاصل نہیں کر سکے۔ تبدیلی اس وقت آئی، جب حکمران طبقوں کے درمیان تفادات شروع ہوئے۔

انگلستان میں فیوڈل لارڈز اور بادشاہ کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں 1215 میں میگنا کارٹا وجود میں آیا، جس میں بادشاہ کو اپنی کئی مراعات چھوڑنی پڑیں اور پارلیمنٹ کا ادارہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔

یورپ میں جمہوری روایات اور ادارے ارتقائی طور پر وجود میں آئے اور عوام کو یہ حق ملا کہ وہ انتخابات میں اپنا ووٹ استعمال کر سکیں۔ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت تو تھی مگر امیدواروں کا تعلق اشرافیہ سے ہی ہوتا تھا۔ اس لیے معاشرے میں عدم مساوات کا اصول جاری رہا۔

جمہوریت میں اشرافیہ نے اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے کئی اور طریقوں کو استعمال کیا۔ جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ یہ پارٹیاں اپنے سیاسی منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف نظریات کو پارٹی کی بنیاد بناتی تھی۔

ہر پارٹی کا مقصد یہ تھا کہ عوام کے جذبات کو ابھارا جائے۔ کبھی مذہبی نعرے لگائے جاتے تھے، کبھی قوم پرستی اور وطن پرستی کا نام لیا جاتا تھا، اور کبھی نسلی پاکیزگی کے دعوے کیے جاتے تھے۔ لہٰذا جو پارٹی یا امیدوار لوگوں کے جذبات کو ابھارنے میں کامیاب ہو جاتا تھا، وہ انتخاب میں کامیابی حاصل کر لیتا تھا۔

اس لیے جمہوریت اور انتخابات نے عوام میں اتحاد کے بجائے انہیں تعصب اور نفرتوں میں مبتلا کر دیا اور معاشرے میں سیاسی پختگی نہ آ سکی۔

اس تناظر میں جب ہم موجودہ سیاست کو دیکھتے ہیں تو جمہوری ممالک فرقے واریت اور نسلی تعصبات کا شکار نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں افریقی باشندوں کو ان کے حقوق نہیں دئیے گئے ہیں۔ فرانس میں الجزائر، تیونس اور مراکش کے فرانسیسی شہریوں کو برابر کا درجہ نہیں دیا جاتا۔

انگلستان میں انڈیا اور پاکستان کے لوگ تعصب کا شکار ہیں۔ جرمنی میں ترکوں کو اب تک غیر ملکی کہا جاتا ہے حالانکہ یہی لوگ کئی دہائیوں سے ان ملکوں میں آباد ہیں، مگر وہ مساوی درجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں جمہوری روایات اور ادارے مضبوط ہیں، مگر وہاں بھی عام لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے، اور غلط بیانی کر کے حکمراں طبقے مقبولیت حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں عراق کی جنگ سے ملتی ہے۔

عراق پر مہلک ہتھیاروں کے وجود پر جھوٹا پروپیگینڈا کیا گیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے غلط بیانی کے ذریعے یہ الزام لگایا کہ عراق مہلک ہتھیاروں کو استعمال کرنے والا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنے عوام کو گمراہ کر کے جھوٹ کو سچ بتایا اور عراق پر حملہ کر کے تباہی اور بربادی کی۔ یہی ڈراما برطانیہ نے لیبیا میں کیا اور آج بھی امریکہ اور یورپ کا میڈیا دوسرے ملکوں کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلا کر اپنے عوام کو اصل حقیقت سے دور رکھتا ہے۔

اگر ہم پاکستان میں جمہوریت کے نتائج کو دیکھیں تو یہ بھی امید افزا نہیں۔ کہنے کو تو جمہوری نظام ہے لیکن اشرافیہ اور عوام کے درمیان بڑا فرق موجود ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں جاگیردار اور سجادہ نشینوں کا تسلط ہے۔ انتخابات میں یہی جیتتے ہیں اور عوام کو محض ووٹ کی ڈھال بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔

جو پارٹی بھی اقتدار میں آ جاتی ہے، وہ معاشرے کو انتہاپسندی کی جانب لے جاتی ہے۔ اس مذہبی انتہا پسندی میں مذہبی اقلیتوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت ہمارے مسائل کا حل ہے؟

کیا جمہوریت نے ترقی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، کیونکہ موجودہ صورت حال میں حکمران طبقے جمہوریت میں اور زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں، معاشرے میں مراعات یافتہ اور مراعات سے محروم لوگوں کے درمیان فرق بڑھ جاتا ہے، کیونکہ حکمران طبقے ریاستی اداروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو قانون کی بالادستی کو ختم کرتے ہیں، عدلیہ کے اختیارات کا خاتمہ کرتے ہیں اور جب عوام مزاحمت کرتے ہیں تو انہیں سختی سے کچل دیا جاتا ہے۔

اس ماحول میں عوام کی عزت و وقار کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور وہ بےبس اور خاموش شہری بن جاتے ہیں۔

لہٰذا جمہوری ادارے ہمارے ملک میں مشکلات کو پیدا کیے ہوئے ہیں، اور سیاسی اختلافات کے نتیجے میں لوگ تقسیم ہو کر بکھر گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ترقی یافتہ معاشروں میں اشرافیہ نے اپنی مراعات میں سے کچھ حصہ عوام کو دے کر انہیں خاموش کر دیا ہے۔ جبکہ تیسری دنیا کے ملکوں میں حکمران طبقوں نے عوام کو کچھ دینے کے بجائے انہیں ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔

پاکستان جیسے ملکوں کے لیے یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close