امریکی صدر جان کینیڈی کا قتل، پراسرار گولی کے متعلق سیکریٹ سروس کے اہلکار کا چونکا دینے والا دعویٰ اور نئے سوالات

ویب ڈیسک

سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل امریکی تاریخ کا ایک حیران کن باب تو تھا ہی، لیکن مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ چھ دہائیوں کے بعد اس واقعے کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، حالانکہ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس کی ہر زاویے سے جانچ کی گئی تھی

اٹھاسی سالہ پال لانڈس کا کہنا ہے کہ انہوں نے جان ایف کینیڈی کی گاڑی سے ملنے والی ایک گولی ہسپتال میں صدر کے اسٹریچر پر چھوڑ دی تھی

واضح رہے کہ پال لانڈس امریکی سیکرٹ سروس کے ایجنٹ تھے، جنہوں نے امریکی صدر کی ہلاکت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ اپنی جلد ہی منظر عام پر آنے والی کتاب میں دعویٰ کیا ہے

ممکن ہے 1960ع کی دہائی میں ہونے والے اس قتل کے مقدمے میں شاید پال لانڈس کی یہ بات آپ کو بہت معمولی سی لگے، لیکن ایسے افراد کے لیے، جو دہائیوں سے اس کیس کے ہر ثبوت کو دیکھتے رہے ہیں، یہ دعویٰ ایک انتہائی اہم اور غیر متوقع پیشرفت ہے، جو بہت کچھ بدل سکتا ہے

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ عرصہ دراز سے جان ایف کینیڈی کا قتل سازشی نظریوں کا مرکز رہا، جس میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا رہا کہ اس واردات میں کتنے لوگ شامل تھے، اس کے پیچھے دراصل کون تھا اور صدر کو کتنی گولیاں لگی تھیں

امریکہ میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس کیس کے اصل حقائق سرکاری موقف سے مختلف ہیں اور چند مورخین کا ماننا ہے کہ قتل کی اس واردات کے بعد امریکی عوام کا حکومت پر اعتماد کم ہونا شروع ہو گیا

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک سابق سیکرٹ سروس کے ایجنٹ کے دعووں سے بھرپور نئی کتاب اس نہ ختم ہونے والی جلتی بحث پر تیل کا کام کر سکتی ہے

پال لانڈس کے ساتھ اس کتاب پر کام کرنے والے مورخ جیمز روبنالٹ کہتے ہیں ”1963 میں قتل کے بعد سے یہ اب تک کی سب سے اہم خبر ہے“

اس سے پہلے کہ ہم جان کینیڈی کے قتل کو بہت قریب سے دیکھنے والے امریکی سیکرٹ سروس کے ایجنٹ پال لانڈس کے دعوے اور اس سے پیدا ہونے والے سوالات پر بات کریں، اس قتل کی تحقیقات سے اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں

ان تفصیلات کے مطابق 11 نومبر 1963 کو صدر جان ایف کینیڈی اپنی اہلیہ جیکی کینیڈی اور ٹیکساس ریاست کے گورنر جان کونالی جونیئر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک کنورٹیبل گاڑی میں ڈالاس کے ڈیلی پلازہ کے سامنے سے گزر رہے تھے، جب اچانک گولیاں چلیں۔

صدر کینیڈی کو سر اور گردن جبکہ گورنر کو پیٹھ پر گولی لگی۔ جان ایف کینیڈی کو قریبی پارک لینڈ ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کی موت واقع ہو گئی۔ اس واقعے میں گورنر زخمی ہوئے لیکن زندہ بچ گئے۔

حکومتی انکوائری کے بعد وارن کمیشن رپورٹ میں لی ہاروے اوسوالڈ نامی شخص کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ شواہد نے بھی اس کی تصدیق کی۔ بعد میں لی ہاروے کو پولیس کی حراست میں ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایک ہی گولی صدر جان ایف کینیڈی کے جسم سے گزرتی ہوئی گورنر کونالی کو لگی تھی۔ یہ اس بات کی وضاحت بھی تھی کہ اس حملے میں ایک ہی مسلح شخص کا کردار تھا۔ اس نتیجے کو ’سنگل بلٹ تھیوری‘ یا ’جادوئی گولی کا نظریہ‘ بھی کہا جاتا ہے

کمیشن نے اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے اس حقیقت پر بھی کسی حد تک انحصار کیا کہ ہسپتال میں گورنر کونالی جس اسٹریچر پر زیرِعلاج تھے وہاں سے ایک گولی ملی تھی

اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گولی کہاں سے آئی لیکن کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ جس وقت ڈاکٹر گورنر کا علاج کر رہے تھے، اسی وقت یہ گولی ان کے جسم سے نکلی ہوگی

تاہم اس سرکاری موقف کے ناقدین نے ’جادوئی گولی‘ کے نظریے پر یقین نہیں کیا کہ ایک ہی گولی دو افراد میں اتنے زخم کی وجہ ہو سکتی ہے

امریکہ کے سرکاری موقف اور ناقدین کا اس کو ماننے سے انکار ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہا ہے، ایسے میں اب پال لانڈس کا یہ دعویٰ ایک گولے کی مانند گرا ہے کیونکہ ناصرف یہ ایک عینی شاید کا بالکل نیا بیان سامنے لایا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس دعوے نے ’سنگل بلٹ تھیوری‘ پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں

قتل والے دن پال لانڈس صدر کی اہلیہ جان کینیڈی کے ساتھ تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ صدر سے کچھ ہی فٹ دور تھے اور انہوں نے جان ایف کینیڈی کے سر پر گولی لگتے ہوئے دیکھا تھا۔ پھر بھگڈر مچ گئی اور پال لانڈس نے اس وقت جو کیا، وہ انہوں نے دہائیوں تک چند افراد کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا

نیو یارک ٹائمز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں پال نے بتایا کہ جب گاڑیوں کا قافلہ ہسپتال پہنچا، تو انہوں نے صدر کی گاڑی میں ایک گولی پڑی ہوئی دیکھی۔ انہوں نے وہ گولی اٹھائی اور اپنی جیب میں رکھ لی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ایمرجنسی میں صدر کے ساتھ تھے، جہاں انہوں نے اس گولی کو جان ایف کینیڈی کے اسٹریچر پر رکھ دیا تاکہ یہ بطور ثبوت صدر کے جسم کے ساتھ ہی رہے اور ذمہ دار لوگوں تک پہنچ جائے

پال کا کہنا ہے ”موقع واردات کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بھی نہیں تھا اور یہ میرے لیے پریشان کن چیز تھی۔۔ سب کچھ اتنا جلدی میں ہو رہا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ میرے پاس ایک اہم ثبوت ہے، جسے غائب یا ضائع نہیں ہونا چاہیے“

تاہم وہ اس ثبوت کو خود اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں لائے۔ انہوں نے کسی سرکاری رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس وقت وارن کمیشن نے ان کا انٹرویو کیا تھا

اس حوالے سے مورخ جیمز روبنالٹ کہتے ہیں ”پال بہت دیر سے سوئے نہیں ہوئے تھے اور اس وقت بھی ان کو مزید ڈیوٹی کرنی تھی جبکہ وہ نفسیاتی مسائل سے بھی متاثر تھے۔۔ پال اس گولی کے بارے میں بھول گئے۔ وہ اس وقت جو کچھ ہو رہا تھا، اس میں کھو گئے“

کئی سال تک پال نے جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں یا اس سے جڑے سازشی نظریوں کے بارے میں کچھ پڑھنے کی کوشش تک نہیں کی، لیکن ایک وقت آیا جب انہوں نے اپنی کہانی دنیا کو سنانے کا فیصلہ کیا

پال لانڈس کے اس دعوے کے بعد مختلف لوگ مختلف نتائج اخذ کر رہے ہیں اور اس کہانی نے جواب فراہم کرنے سے زیادہ سوالات کو جنم دیا ہے

پال لانڈس کا اب یہ ماننا ہے کہ جو گولی ان کو ملی تھی، وہی گولی بعد میں گورنر کے اسٹریچر سے ملی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گولی صدر کی گاڑی میں پیوست ہوئی اور اس کے بعد گاڑی کے اندر ہی گر گئی

اگر ان کا خیال درست ہے تو جیمز کا کہنا ہے کہ گورنر اور صدر کو ایک ہی گولی نہیں لگی

وہ مانتے ہیں کہ اس صورت میں یہ بحث پھر سے جنم لے سکتی ہے کہ کیا لی ہاروے اکیلا تھا

اپنے مضمون میں جیمز نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر دونوں افراد ایک گولی سے زخمی نہیں ہوئے تو کیا لی ہاروے اپنی رائفل سے اتنی تیزی سے دو گولیاں چلا سکتا تھا؟

لیکن پال لانڈس کے اس دعوے پر شک کرنے والے بھی ہیں، جن میں سے ایک ان کے ایسے سابق ساتھی ہیں، جو اس دن خود موجود تھے

کلنٹ ہل وہ مشہور سیکرٹ سروس ایجنٹ ہیں، جنہوں نے گولی چلنے کے فوری بعد صدر کی گاڑی میں چھلانگ لگا کر ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ پال کے دعوے کو نہیں مانتے

کلنٹ ہل کہتے ہیں ”مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس گولی کو صدر کے اسٹریچر پر رکھتے ہیں۔ اگر اس دن کے شواہد، بیانات کو دیکھا جائے تو یہ ناقابلِ فہم ہے“

جان ایف کینیڈی کے قتل پر کتاب لکھنے والے معروف صحافی جیرالڈ پوسنر کا ماننا ہے کہ پال لانڈس کا موقف دراصل سنگل بلٹ تھیوری کو ہی ثابت کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”اب لوگوں کو یہ سمجھ آئے گی یہ گورنر کے اسٹریچر پر ملنے والی گولی کہاں سے آئی“

جیرالڈ کا کہنا ہے کہ پال کے دعوے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے لیکن ساتھ ہی وہ ساٹھ سال بعد پال لانڈس کی یادداشت پر شک کا اظہار بھی کرتے ہیں

جیرالڈ نے ہسپتال کی ایمرجنسی میں موجود لوگوں کے انٹرویو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ”وہاں کسی نے بھی پال لانڈس کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا“

جیرالڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتنے عرصے تک پال کا اس بات کو چھپا کر رکھنا بھی سوال پیدا کرتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں ”حقیقت یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے ایک گولی دیکھی، اس کو اٹھا کر جیب میں رکھا اور پھر ہسپتال سے نکلنے سے پہلے میں نے اسٹریچر پر رکھ دی۔ یہ یا تو سچ ہے یا نہیں ہے“

پال لانڈس کا دعویٰ کیا ایک پرانے نظریے کی توثیق کرے گا یا نہیں، اہم بات یہ ہے کہ یہ معاملہ صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کا ہے اور اتنے سال بعد امریکی تاریخ کے ایک عظیم سانحے پر ان کے دعوے کی وجہ سے بحث ہوگی

جیرالڈ پوسنر کہتے ہیں ”کیا کوئی اس معاملے کو ہر کسی کے اطمینان کے مطابق سو فیصد حل کر سکے گا؟ نہیں۔ یہ ایک ایسا کیس ہے، جو زیادہ تر لوگوں کے لیے کبھی بند نہیں ہوگا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close