صوبہ سندھ کے شہر سجاول میں صبح کے چار بجے ایک ہوٹل کو پولیس نے گھیر لیا۔ ہوٹل انتظامیہ سے کمروں کے رہائشیوں کا ڈیٹا لینے کے بعد ایک کمرے میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو بتایا تھا کہ ایک شخص ہوٹل میں کئی دنوں سے رہ رہا ہے
پنجاب اور سندھ پولیس کے اس مشترکہ آپریشن کا مقصد وسیم نامی شخص کو اغوا کنندگان کے چنگل سے چھڑوانا تھا، جو گذشتہ چار مہینے سے غائب تھا۔ پولیس کے مطابق اغوا کار اس شخص کے خاندان سے سات لاکھ روپے تاوان لے چکے تھے
دو بار کمرے کے دروازے پر دستک دی گئی لیکن اندر سے کوئی حرکت نہیں ہوئی، تیسری دفعہ دروازہ کھٹکھٹانے پر اندر سے ایک شخص کی آواز آئی اور ساتھ ہی اس نے دروازہ کھول دیا
پولیس نے فوری اس شخص کو قابو کرتے ہوئے اس کا موبائل فون اور شناختی کارڈ لیا تو اس بات کا پتا چلا کہ یہ وہی مغوی ہے، جس کو پولیس ڈھونڈ رہی تھی۔۔ لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں تھی
پولیس نے وسیم کو حراست میں لینے کے بعد تفتیش شروع کی تو بات ڈیڑھ سال پہلے ’تین پتی‘ نامی گیم تک پہنچ گئی
ایس پی سی آئی اے نارتھ فرقان بلال نے معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ”وسیم کا تعلق مانسہرہ کے علاقے سے ہے اور پچھلے دس سال سے وہ لاہور کے مصری شاہ کے علاقے میں پرانے لوہے کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے۔ چار مہینے پہلے یہ اغوا ہوا تو اس کے اغوا کاروں نے اس کے گھر والوں سے سات لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی۔ وسیم کے باپ کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ لیکن اس کہانی کا کوئی سرا ابتدا میں نہیں مل رہا تھا۔ ’اغوا کار‘ اس کے گھر والوں سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کرتے تھے۔ اور تاوان بھی لے چکے تھے۔ اس کی اپنی سم اور موبائل لاہور سے نکلتے ہی بند ہو چکے تھے“
دوران تفتیشن وسیم نے پولیس کو بتایا ”ڈیڑھ سال پہلے مجھے فیسبک پر تین پتی نامی ایک آن لائن گیم کا اشتہار نظر آیا اور میں نے اپنے موبائل فون پر پلے اسٹور سے یہ گیم ڈاؤنلوڈ کی اور سب سے پہلے بیس روپے کا جوا کھیلا۔ بیس روپے ہارنے کے بعد پچاس سو اور پھر ہزار تک بات پہنچی اور پہلے ہی ہفتے، میں نے اٹھائیس ہزار روپے جیتے بھی“
لیکن آگے چل کر وسیم کو یہ کھیل بھاری پڑنے والا تھا۔
ہار اور جیت کے اس کھیل میں بات بہت آگے چلی گئی اور وہ اپنی ذاتی جمع پونجی تقریباً پچاس لاکھ روپے اس گیم میں ہار گئے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی عقل ٹھکانے نہیں آئی اور وہ ہاری رقم جیتنے کے لالچ میں اس گھن چکر میں پھنس گئے
وسیم مصری شاہ کی لوہے کی مارکیٹ میں ایک بڑے کاروباری تھے اور ان کے ہاں کئی تاجروں نے کمیٹیاں بھی ڈالی ہوئی تھیں۔ پہلی تین کمیٹیاں اپنی ہونے کی وجہ سے انہوں نے مزید ڈیڑھ کروڑ روپیہ اس گیم کی نذر کر دیا
پولیس کو دیے گئے بیان میں وسیم نے بتایا ”جیسے جیسے میں پیسے ہار رہا تھا، میں ڈپریشن کا شکار بھی ہونا شروع ہو گیا۔ مجھے ہر بار یہی لگتا تھا کہ اگلی بار جیت جاؤں گا، لیکن میں اس چنگل سے نہیں نکل سکا۔ لوگوں کی کمیٹیوں کا پیسہ بھی اس گیم میں لگا چکا تھا تب میں نے اپنے آپ کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اور گھر والوں کو یہی بتایا کہ میں وصولیوں کے لیے جنوبی پنجاب کے علاقے میں جا رہا ہوں۔ اور اس کے بعد میں اپنے فون کو سب سے پہلے بند کیا اور سم پھینک دی“
وسیم نے کاروباری وصولیوں کی رقم لینے کے بعد اپنی سم کو پھینکا اور وہ رقم بھی تین پتی گیم میں لگا دی۔ اس کے بعد انہوں نے کوئٹہ کا رخ کیا
ایس پی سی آئی اے فرقان بلال کے مطابق ”کوئٹہ پہنچ کر انہوں نے اغوا کار بن کر پہلی بار اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ساتھ اپنی کچھ ایسی تصاویر بھیجیں، جن میں بظاہر ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ ان پر تشدد کیا جا رہا ہے“
پولیس کی تفتیش میں یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ کوئٹہ پہنچ کر وسیم نے بیک وقت مغوی اور اغواکاروں کا کردار خود ہی نبھایا۔ فرقان بلال بتاتے ہیں ”اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے واٹس ایپ پر اپنی ہی تشدد زدہ تصاویر بھیجیں۔ یہ اپنے فون کو سامنے رکھ کے اپنی ہی التجا کرتے اور روتے وڈیو بناتا اور پھر اس وڈیو سے تصاویر کے اسکرین شاٹ لے کر اپنے گھر بھیجتا۔ جس سے اس کے گھر والے اور پریشان ہو جاتے“
اس دوران وسیم نے کئی دفعہ اپنی لوکیشن تبدیل کی کوئٹہ سے تربت اور پھر سندھ کے علاقے ٹھٹہ کا رخ کیا۔ انہوں نے ان علاقوں کا انتخاب کیا جو جرائم پیشہ افراد کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں
دوسری طرف لاہور پولیس اس پراسرار اغوا کے محرکات کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ تب یہ کیس سی آئی اے کے سپرد کر دیا گیا
سی آئی اے کے ہاتھ پہلا سرا اس وقت آیا، جب وسیم کے گھر والوں نے سات لاکھ روپے بھیجے۔ انہوں نے ڈجیٹل کرنسی اکاؤنٹ بیانس کے ذریعے یہ پیسے منگوائے
ایس پی سی آئی اے کے مطابق ”بیانس میں ڈالرز میں پیسے حاصل کرنے کے بعد ملزم نے وہ رقم روپے میں کیسے حاصل کی، یہی وہ نقطہ تھا جب ہمیں اندازہ ہونا شروع ہو گیا کہ یہ کوئی فراڈ والی صورت حال ہے۔ ان کے دو اپنے بینک اکاؤنٹ اس دوران استعمال ہوئے۔ ہم چار ایسے افراد تک بھی پہنچے جنہوں نے ڈالروں کو روپوں میں تبدیل کیا اور بیانس اکاؤنٹ کو استعمال کرنے میں وسیم کی مدد کی لیکن ان کا اس جرم سے کئی واسطہ ثابت نہیں ہوا“
لیکن ملزم وسیم تکنیکی طور پر یہ بات نہ سمجھ پائے کہ پولیس اب ان کے تعاقب میں ہے۔ دورانِ تفتیش اپنے بیان میں انہوں نے بتایا کہ اپنے ہی اغوا کے تاوان کے طور پر منگوائے گئے سات لاکھ بھی وہ تین پتی گیم کے جوئے میں ہار گئے
ٹھٹہ سے وسیم نے سندھ کے شہر سجاول کا رخ کیا، لیکن اس وقت تک پنجاب، بلوچستان اور سندھ کی پولیس کو ان کے بارے میں بہت معلومات مل چکی تھیں
فرقان بلال بتاتے ہیں ”رقوم کے تبادلے اور تین پتی کھیلنے کی وجہ سے ان کی لوکیشن اب ہمارے پاس آ چکی تھی۔ لیکن ابھی تک ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ خود ہی یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ یہ اس کے اغوا کار بھی ہو سکتے تھے، اس لیے ہم بہت زیادہ محتاط تھے۔ سجاول میں ہم نے کئی دن گزارے اور بالآخر ہم اس حجام تک پہنچ گئے، جہاں اس نے ایک روز قبل کٹنگ کروائی تھی اور پھر اس علاقے کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کو کھنگالنے کا فیصلہ کیا“
چار مہینے بعد آخر کار تین صوبوں کی پولیس نے اپنے ہی اغوا کا رچانے والے وسیم کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ اس وقت لاہور پولیس کی تحویل میں ہیں۔