انڈیا میں مغربی ریاست راجستھان کے شہر ’کوٹا‘ کو ملک کے ’کوچنگ کیپیٹل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے، جہاں ہزاروں نوجوان طلبا میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز کے داخلہ امتحانات کی تیاری کے لیے پورے ملک سے آتے ہیں
لیکن ’کوچنگ کیپیٹل‘ کے طور پر جانا جانے والا یہ شہر طلبا کی خودکشیوں کا گڑھ بنتا جا رہا ہے اور خودکشی کے بڑھتے واقعات نے اس شہر میں اب ایک عجیب صورتحال پیدا کر دی ہے
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں رواں سال کے دوران اب تک کم از کم چوبیس طلبا نے مبینہ طور پر خود کشی کی ہے۔ پولیس نے خودکشی کے ان واقعات کی وجہ میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجوں کے داخلی امتحانات کی تیاری کے دباؤ کو قرار دیا ہے
انڈیا اس وقت آبادی کے لحاظ سے چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑی آبادی , والا ملک بن چکا ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ملک میں، جہاں اچھے روزگار کے مواقع نسبتاً کم ہیں، والدین اپنے بچوں کے لیے ان امتحانات کو نوکری کے حصول کے لیے سب سے زیادہ قابلِ عمل راستہ سمجھتے ہیں، جس میں کامیاب ہونے کے لیے طلبہ پر والدین کی توقعات کا دباؤ دباؤ ہوتا ہے
لیکن ان امتحانات میں بہت زیادہ مقابلہ ہونے اور اعلیٰ مسابقت کی سطح کی وجہ سے بہت سے طلبا ان متحانات میں کامیاب نہیں ہو پاتے یا انہیں امتحانات سے قبل ہی یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے، جس کے نتیجے میں کچھ طلبا خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں
یہ شہر اپنی موجودہ شکل میں طلبا کو ہر وقت ایک ’اعلیٰ ترین‘ مقصد کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ شہر میں ہر طرف مسابقتی امتحانات کی تیاری کرانے والے مراکز کی جانب سے لگائے گئے بل بورڈز نظر آتے ہیں، جن پر ان امتحانات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے نام اور بڑی بڑی تصاویر حاصل کردہ نمبروں کے ساتھ آویزاں ہیں
امتحانات کی تیاری کے لیے اس شہر میں آنے والے کم عمر طلبا نئے شہر میں والدین سے دور خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ صرف کامیابی کا خواب اور والدین کی توقعات کا بوجھ ہوتا ہے۔۔
ایسے میں وہ واپس جانے سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے خاندان اور علاقے میں اسے ’ناکامی کا علامت‘ سمجھا جا سکتا ہے
ایسے ہی ایک اٹھارہ سالہ طالب علم منجوت چھابڑا نے گذشتہ ماہ خودکشی کر لی۔ منجوت رواں سال اپنے دوستوں کے ساتھ ’کوٹا‘ آئے تھے۔ بظاہر کوئی ایسی وجہ نہیں تھی جو کہ انہیں پریشان کر رہی یو، کم از کم ان کے جاننے والے بہت سے لوگ اسے سمجھنے سے قاصر تھے کہ انہوں نے یہ اقدام کیوں اٹھایا
انھوں نے اپنے سوسائیڈ نوٹ میں لکھا نوٹ میں لکھا ”ہیپی برتھ ڈے، پاپا۔۔ اپنی موت کے لیے میں خود ذمہ دار ہوں، کسی کو پریشان مت کرنا۔ سوری۔ میں نے جو بھی کیا ہے اپنی مرضی سے کیا ہے۔“
یاد رہے کہ ان کے والدین کا الزام ہے کہ یہ درحقیقت قتل کا معاملہ تھا کیونکہ انہوں نے اپنی موت سے چند گھنٹے قبل ہی فون کال پر ان سے نارمل طریقے سے بات کی تھی
چھابڑا کی طرح اس شہر میں تقریباً ڈھائی لاکھ طلبا کوچنگ حاصل کرتے ہیں لیکن اچھے کالجوں میں سیٹوں کی کافی کمی ہے۔ میڈیکل کورس کے لیے پورے ملک کے سرکاری کالجوں میں صرف ایک لاکھ کے لگ بھگ سیٹیں ہوتی ہیں، اور بیس لاکھ سے زیادہ طلبا ان سیٹوں کو حاصل کرنے کے لیے امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ اگر داخلے کے امتحانات میں نمبر اچھے نہیں آتے تو انہیں میڈیکل یا انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ کالجوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے، جو کہ سرکاری کالجوں کے نسبت کئی گنا مہنگے ہیں
اسی طرح انجینیئرنگ میں حالانکہ بارہ لاکھ سیٹیں ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر طلبا کا خواب انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) ہوتا ہے، جن میں تقریباً سولہ ہزار سیٹیں دستیاب ہوتی ہیں
طلبہ کی جانب سے خودکشی جیسے انتہائی اقدام کے لیے کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ’کوٹا‘ سمیت انڈیا بھر میں ہر کوئی جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے
ماہرین نفسیات اور پولیس افسران اس طرح کے اقدام کی ایک اہم وجہ امتحانات کے وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے بچنے کے لیے والدین اور اساتذہ کے ساتھ بچوں کا مناسب رابطہ بہت ضروری ہے
کوٹا میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات بی ایس شیخاوت کہتے ہیں ”ان طلبا پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ دن میں سولہ گھنٹے تک مطالعہ کریں۔ بہت سے بچے اس قابل نہیں ہوتے ہیں“
یہ خودکشیاں کوچنگ مراکز پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہیں، جس کہ وجہ سے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی والدین خود بچوں کے ساتھ کوٹا منتقل ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ وہ انہیں اپنی نگرانی میں پڑھا سکیں
نور صبا جو کہ کوٹا سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر دور بِہار کے سیوان ضلع سے ہیں اور گذشتہ آٹھ برسوں سے اپنے بچوں کی کامیابی کے لیے کوٹا میں رہ رہی ہیں، بتاتی ہیں ”خودکشی جیسے ناخوشگوار اقدام سے بچنے کے لیے والدین بھی ذمے دار ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کے ساتھ ایک دوست کے طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے“
ان کی بیٹی نے کوٹا سے تیاری کرنے کے بعد ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ہے لیکن وہ اپنے گھر واپس لوٹنے سے پہلے اس انتظار میں ہیں کہ ان کے بیٹے کا آئی آئی ٹی میں داخلہ ہو جائے۔ نور صبا پُر امید ہیں کہ وہ اس سال کامیاب ہو جائے گا
وہ بتاتی ہیں ”میں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوں۔ کئی دفعہ میں بنا مدد کے کھڑی نہیں ہو پاتی ہوں، لیکن میں پھر بھی اپنے بچوں کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کوٹا میں اس وقت تک مقیم رہوں گی جب تک ضرورت ہوگی۔ گاؤں میں میرے آس پاس ہر شخص نے یہ کہتے ہوئے میرا مذاق اڑایا تھا کہ دیکھتے ہیں کیا کر لیتی ہے کوٹا جا کر۔۔ میں اپنے دونوں بچوں کے کامیاب بنا کر ہی واپس جاؤں گی۔“
ایسی ہی ایک طالبہ آسام کے علاقے تیز پور سے تعلق رکھنے والی ایشا ہیں، جو انجینیئرنگ کے امتحانات کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”والدین کے ساتھ کُھل کر بات چیت بہت ضروری ہے۔ ہاں دباؤ ضرور ہے، لیکن آپ کو اس سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔ یہاں ہر طالب علم دباؤ محسوس کرتا ہے، لیکن آپ کو اس میں سے خوشی تلاش کرنی پڑے گی“
جب وہ خود پریشان ہوتی ہیں تو یا تو والدین سے بات کرتی ہیں یا شاعری لکھتی ہیں یا نصابی کتب سے پوری طرح سے دور ہو جاتی ہیں
ایشا اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو سہارا دینے کے لیے ان کی والدہ یہاں اس شہر میں ان کے ساتھ مقیم ہیں، لیکن یہاں آنے والے طلبا میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جو معاشی مجبوریوں کے باعث یہاں اکیلے ہی آتی ہیں
اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو عام طور پر کوچنگ کلاسز کے لیے پچھتر ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ اور قیام و طعام کے لیے پانچ سے پچیس روپے خرچ ہوتے ہیں، جو کہ ایک معمولی انڈین فیملی کے لیے کافی بڑی رقم ہے
چند دہائیاں پہلے تک کوٹا ایک معمولی شہر ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ چمکدار عمارتوں اور سگنل فری ٹریفک کے ساتھ ایک وسیع و عریض شہر بن چکا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کوچنگ سینٹرز کوٹا کی اہم لائف لائن بن چکے ہیں۔ ہر کوچنگ سینٹر گیسٹ ہاؤسز، ہاسٹلز، پیئنگ گیسٹ اکوموڈیشن، ریستوران اور لائبریریوں سے بھرا ہوتا ہے
ماہر نفسیات شیکھاوت، جو کہ کوٹا کے ایک طویل عرصے سے رہائشی ہیں، کہتے ہیں ”کوٹا میں ہر کوئی کوچنگ پر منحصر ہے۔ ان کی مارکیٹنگ کافی طاقتور ہے“
یہاں آنے والے طلبا کی اکثریت کا تعلق اتر پردیش، بِہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ جیسی ریاستوں سے ہے، جہاں روزگار کے مواقع محدود ہیں اور تعلیم کے اچھے مواقع کی کمی ہے
کوٹا میں تقریباً دس بڑے کوچنگ سینٹرز ہیں، جن کی شاخیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کسی ایک شہر میں اتنی بڑی تعداد میں کوچنگ سینٹرز شاید ہی پورے انڈیا میں کہیں اور ملیں
ان کوچنگ سینٹرز میں مختلف بیجز ہوتے ہیں، جس میں طلبا کو ان کی کارکردگی کے مطابق درجہ بند کیا جاتا ہے۔ کوٹا میں کوچنگ کرنے والے طلبا کا الزام ہے کہ اس کی وجہ سے بہترین طلبا کو بہترین اساتذہ ملتے ہیں، اور کمزور بچوں کو ’نچلے‘ بیجوں میں بھیج دیا جاتا ہے
کوٹا کے ایڈیشنل سپریٹنڈنٹ آف پولیس اور اسٹوڈنٹ ہیلپ سیل کے سربراہ ٹھاکر چندرشیل کا کہنا ہے کہ اس سے ایک طرح کی درجہ بندی پیدا ہوتی ہے جو اکثر طلبا کے لیے وقار کا مسئلہ بن جاتا ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ انہیں اپنے والدین کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے
شیکھاوت، بہت سے طلبا اور والدین نے بتایا کہ اس طرح کی درجہ بندی طلبا میں تناؤ کا باعث بنتی ہے
اتر پردیش کے متھرا شہر کے یوگیش شرما اپنی بیٹی کی کاؤنسلنگ کے لیے اکثر کوٹا آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے وہی بچے کامیاب ہوتے ہیں، جو پہلے سے پڑھائی میں تیز ہوتے ہیں اور جن کی کامیابی کوچنگ والوں کے لیے اشتہار کا کام کرتی ہے
وہ کہتے ہیں ’یہ صورتحال کمزور طلبا میں منفی جذبات پیدا کرتی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ گھر والوں کے اتنے پیسے خرچ کروانے کے بعد امتحانات میں ان کا انتخاب ہو گا یا نہیں۔۔۔ اور بعض اوقات یہی سوچ اس حد تک بڑھتی ہے کہ خودکشی کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔‘
کوٹا انڈیا میں کوچنگ کا مرکز کیسے بنا؟
مقامی افراد کے مطابق کوٹا میں کوچنگ کلچر 1980 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب ’وی کے بنسل‘ نامی ایک مقامی انجینیئر نے اپنی کمپنی بند ہونے کے بعد طلبا کو داخلہ امتحانات کے لیے پڑھانا شروع کیا۔
ان کے ایک طالبعلم نے آئی آئی ٹی کے لیے کوالیفائی کر لیا، جس کے نتیجے میں مزید طلبا ان سے ٹیوشن لینے آئے اور دھیرے دھیرے یہ معمولی ٹیوشن سینٹر کوچنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک چین میں تبدیل ہو گئی اور ملک گیر شہرت کی حامل ہوئی۔
لیکن جلد ہی انھیں ’ایلین‘ نامی ایک کوچنگ انسٹیٹیوٹ نے پیچھے چھوڑ دیا۔
پچھلے سال ارب پتی روپرٹ مرڈوک کے بیٹے جیمس مرڈوک اور ’اسٹار اور ڈزنی انڈیا‘ کے سابق چیئرمین شنکر نے اس کوچنگ چین میں 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
حالیہ برسوں میں، اسٹارٹ اپ کلچر کے ساتھ نئے حریف، جیسا کہ بائیجو، ان اکاڈمی، پھزکس والا نے بھی کوٹا کا رُخ کیا۔ رپورٹس کے مطابق ان سینٹرز میں چند معروف اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ 2 کروڑ روپے تک ہے۔
خودکشیوں کے بارے میں طالب علموں کی رائے
یہاں آنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ خودکشی کی وجہ والدین کی توقعات ہیں کیونکہ بہت سے والدین قرض ادھار حاصل کر کے بچوں کو کوٹا بھیجتے ہیں۔ امتحانات میں اچھی کارکردگی کا دباؤ، پڑھائی کی سخت روٹین اور اپنے دوستوں کے ساتھ مقابلہ اہم فیکٹرز ہیں۔
’یہ بچے اکثر کوٹا میں اکیلے رہتے ہیں، ان کا کوئی دوست نہیں ہوتا ہے، وہ والدین سے دور ہوتے ہیں، گھر کا کھانا نہیں ملتا ہے اور ان میں سے اکثر زندگی میں پہلی بار والدین کے بغیر گھر سے باہر رہنے آتے ہیں۔‘
اتراکھنڈ کے ہریدوار سے تعلق رکھنے والے انیمیش بھی کچھ مہینے پہلے انھیں حالات میں تھے لیکن وہ شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کی فیملی نے اس کے ساتھ دیا۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’کچھ ہی ہفتوں میں یہاں آ کر میں بیمار پڑ گیا، ہفتہ وارانہ ٹیسٹس چھوٹ گئے، اور پھر چھوٹے ہوئے نصاب کو پورا نہیں کر پایا، اس سے تناؤ شروع ہو گیا۔ میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور کوچنگ جانا بند کر دیا۔ میں بالکل افسردہ ہو گیا تھا۔‘
ان کے مطابق انھوں نے اپنے والدین کو پوری بات بتا دی جو انھیں ماہر نفسیات کے پاس لے گئے۔ وہ کہتے ہیں ’اس سے مجھے دباؤ سے باہر نکالنے میں مدد ملی اور اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’تناؤ اور افسردگی کے ساتھ میرے تجربے سے لوگوں کو مدد فراہم ہو، اسی لیے میں آپ کو یہ باتیں بتا رہا ہوں۔‘
زیادہ تر طالب علموں نے بتایا کہ ان کے دن کی شروعات اکثر صبح 6 بجے ہوتی ہے اور آدھی رات تک جاری رہتی، جس میں ان کا زیادہ تر وقت پڑھنے میں گزرتا ہے۔
چند طالب علموں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ دباؤ ہمیشہ بُری شکل اختیار کرے، بلکہ کئی دفعہ یہ انھیں محنت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
چند افراد ان کوچنگ مراکز کے کام کاج کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں۔
کوچنگ سینٹرز اور ٹیچرز اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے شرے کوٹا میں انجینئرنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تناؤ اس لیے ہوتا ہے کہ ٹیچر آپ سے دس گھنٹے تک پڑھنے کی توقع رکھتے ہیں، اور وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو نارمل بات ہے۔ ساتھ ہی والدین اور دوستوں کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔‘
کیا انتظامیہ طلبا کی مدد کر سکتی ہے؟
ماہر نفسیات شیکھاوت کہتے ہیں کہ ’کوچنگ سینٹرز ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ بدنامی سے ڈرتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’خودکشی کا خیال ایک بار میں نہیں آتا۔ یہ سوچ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی ہے۔‘
حال ہی میں انتظامیہ نے طلبا کی خودکشیوں پر قابو پانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں، جیسا کہ پنکھے میں سپرنگ لگانا، چند ہاسٹلز کے باہر جالی لگانا، طلبا کے مدد کے لیے پولیس اہلکاروں کا سادہ کپڑوں میں ہاسٹلوں کا دورہ کرنا اور طلبا کی خیریت دریافت کرنا۔
خودکشی کے حالیہ واقعات کے بعد حکومت نے آئندہ دو ماہ کے لیے ہفتہ وار ٹیسٹوں پر پابندی کا بھی اعلان بھی کیا ہے۔
لیکن طلبا اور ماہرین کہتے ہیں کہ یہ اقدامات کاسمیٹک ہیں کیونکہ خودکشی کا رجحان رکھنے والا شخص اپنی زندگی ختم کرنے کے مزید کئی طریقے نکال لے گا۔
پولیس افسر چندرشیل اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جال یا پنکھے میں سپرنگ لگانا حتمی حل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ضروری یہ ہے کہ کمزور بچوں کی شناخت کی جائے۔ دماغی صحت ایک ایسا معاملہ ہے جسے لے کر کوئی بھی آگے نہیں آنا چاہتا اور بعض اوقات تو بچوں کو یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔‘
چندرشیل کہتے ہیں کہ ’کوٹا پولیس کی اسٹوڈنٹ ہیلپ لائن پر گذشتہ دو مہینوں میں مدد کے خواہاں طلبا کی طرف سے تقریباً تین سو کالیں موصول ہوئی ہیں، لیکن اس میں کئی ایسی کالز تھیں جو فیس کی واپسی یا سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ تبصروں جیسے مسائل کی شکایت کے لیے تھیں۔‘
چندرشیل کہتے ہیں کہ یہ اکثر ایک چھوٹا سا معاملہ ہوتا ہے جو کہ خودکشی جیسے انتہائی خیالات کو ذہن میں لاتا ہے اور والدین اور استاتذہ کی یہی کوشش ہونی ہونی چاہیے کہ اسے نظر انداز نہ کریں۔