آبی بحران کے اس عہد میں ترقی یافتہ ممالک ”جدید ڈرپنگ اریگیشن سسٹم“ کے ذریعے زراعت کے فروغ اور ترقی کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں آنے والی تباہ کن ماحولیاتی تبدیلیوں کو ممکنہ حد تک کم کرنے میں عالمی سطح پر اس ماحول دوست رجحان کی حوصلہ افزاٸی کی جا رہی ہے۔
مگر پاکستان میں حقیقی قیادت کے فقدان اور وژن نہ ہونے باعث ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ترجیحات متعین کرنا تو دور کی بات، اس ضمن میں کبھی غور ہی نہیں کیا گیا, جس کا بھیانک نتیجہ آبی بحران کے باعث زراعت کی تباہی، ہیٹ اسٹروک، ماحولیاتی آلودگی اور نت نئی بیماریوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
اس کی ایک مثال ”حرماں نصیب ملیر“ ہے جس کو کسی زمانے میں کراچی کا گرین بیلٹ کہا جاتا تھا!
اس میں شک نہیں، کہ موسمی تغیرات، بارشوں کا سلسلہ موقوف ہونے اور زیرِ زمین موجود میٹھے پانی کے ذخاٸر کے بتدریج کم ہونے کے باعث ملیر کی زراعت پر نہایت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے، تاہم ان فطری عوامل سے کہیں زیادہ ملیر کی تباہی کے اس عمل میں سرکاری سرپرستی میں وسیع پیمانے پر ملیر ندی سے ریتی بجری کے اخراج اور بلڈر مافیا کے ہاتھوں ملیر کی زرخیز زمینوں پر ہاٶسنگ پروجیکٹس کی یلغار کا کلیدی کردار ہے، جن میں بحریہ ٹاٶن اور ڈی ایچ سٹی جیسے نام نہاد میگا پروجیکٹس بھی شامل ہیں. جس کا ایک لازمی نتیجہ اب ملیر ایکسپریس وے کے مجوزہ منصوبے کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔
ملیر ایکسپریس وے کے منظور شدہ نقشے کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کو ممکن بنانے کے لیے صدیوں سے آباد ملیر کے متعدد گوٹھوں، ہزاروں گھروں اور سر سبز و شاداب سروے نمبر زرعی زمینوں کو مسمار کر کے صفحہِ ہستی سے مٹایا جاٸے گا۔
اس المناک صورتحال نے ملیر کے باشندوں اور کاشتکاروں کو شدید تشویش، بے چینی، ذہنی اذیت اور عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کر دیا ہے اور وہ اپنے آپ کو ریاستی طاقت کے آگے بے بس اور لاوارث محسوس کررہے ہیں۔
ہاٶسنگ پروجیکٹس نے کراچی کو آکسیجن فراہم کرنے والے ملیر کے گرین بیلٹ ہی کو تباہ نہیں کیا بلکہ یہ امر ملیر کی تاریخ، شناخت، تہذیبی ورثے، جغرافیہ، سیاست، معیشت، معاشرت اور وساٸل پر بھی انتہائی تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہوٸے ان کو صفحہٕ ہستی سے ختم کرنے کا موجب بن رہا ہے، حالانکہ ان ہاؤسنگ پروجیکٹس کو فراہم ہونے والے پانی کو ”ڈرپنگ اریگیشن سسٹم“ کے لیے بروئے کار لاکر ملیر کے گرین بیلٹ کو نہ صرف تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا تھا، بلکہ اس کے ذریعے ملیر میں زراعت کو مزید فروغ دے کر بے روزگاری کو کم کر کے ماحولیاتی آلودگی اور بیماریوں کا ممکنہ حد تک تدارک بھی کیا جاسکتا تھا۔
لیکن ایسے سہانے خواب صرف مہذب، ترقی یافتہ، باشعور اور وژنری معاشروں میں شرمندہِ تعبیر ہوسکتے ہیں، یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے. پہلے میگا پروجیکٹس کے نام پر ملیر کی زمینیں ہتھیا لی گئیں، ان پر شہر تعمیر کرنے کے کے لیے بھی ملیر کی ندیوں کی ریتی بجری کا خراج پیش کیا گیا، جس سے شاداب ملیر کی بقیہ زمینیں بنجر بن گئیں. اب انہی میگا پروجیکٹس کو ایکسپریس وے دینے کی قیمت بھی ملیر کو چکانی پڑے گی!
انفرادی سوچ اور ذاتی مفاد کے حامل اس ”کرپٹ مافیا نگر“ میں زراعت اور فطرت کے بارے میں سوچنا میں بھی بادی النظر میں سوہانِ روح محسوس ہوتا ہے۔