کبھی کبھی زندگی وبال جان بھی بن جاتی ہے۔ انسان زندگی کی حراست میں قید ہو جاتا ہے۔
اسی قید سے آزادی کی خواہش کبھی انقلاب لے آتی ہے تو کبھی انسان قید و صعوبتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کبھی مظالم سہتا ہے، کبھی جنگ کا سامنا کرتا ہے تو کبھی اپنا سب کچھ کھو دیتا ہے۔
پر بچے ان تمام لڑائیوں، جنگوں، اختلافات اور سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنے چاہییں۔
بچوں کو ایک محفوظ حال اور مستقبل ملنا چاہیے۔ جس میں ان کو تعلیم اور صحت کی سہولیات ملیں۔ وہ کھیل سکیں۔ وہ خوش ہوں۔ ان کے پاس بہت ساری کتابیں، کھلونے اور چاکلیٹس ہوں۔ وہ باغوں، پارکوں میں کھیلیں، بلبلے بنائیں، خوب ہنسیں اور بہت خوش رہیں۔
پر بچے سب سے زیادہ جنگوں، سانحات، حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان پر بہت سے خطرات منڈلا رہے ہیں جن میں بیماریاں، جنسی زیادتی، اغوا، خوراک کی کمی، تعلیم سے محرومی اور قتل شامل ہے۔
بچوں پر جو سب سے بڑا تشدد کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کو خوفزدہ کیا جائے، ان کو ڈرایا جائے ان سے مستقبل کے خواب چھین لیے جائیں۔
دنیا اس تصویر پر غمگین ہو گئی تھی، جب ایک شامی بچی نے فوٹوگرافر کو دیکھ ہاتھ اوپر کر لیے تھے۔ اس کو لگا پولیس یا فوج کا اہلکار ہے۔ اس لیے جب فوٹوگرافر اس کے سامنے آیا تو اس نے ہینڈز اپ کر لیے۔
اس کیمرے میں بچے کا خوف محفوظ ہو گیا۔
اس سے پہلے ایک دو سالہ بچے کی تصویر بہت وائرل ہوئی جب البانیہ میں ان کے خاندان خاردار تاروں کے آر پار سے مل رہے تھے اور اس کو تار کے درمیان سے اس پار اپنے دادا دادی سے ملوایا جا رہا تھا۔ اس تصویر میں دو خاندانوں کا کرب نمایاں تھا۔ بچہ ہوا میں معلق اور خوفزدہ تھا اور دونوں اطراف خاندانوں کی بےبسی نمایاں تھی۔
ترکی کے ساحل پر دو سالہ ننھے ایلان کردی کی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی۔ وہ شام سے محفوظ مستقبل کے لیے یورپ جا رہا تھا، اس کے والدین کی کشتی ڈوب ہو گی اور وہ جان کی بازی ہار گیا۔ اس تصویر نے دنیا کو ان مصائب سے آگاہ کیا جو بچے جنگوں کے بعد دیکھتے ہیں۔
اسی طرح انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے ایک بچے کی وہ تصویر آپ کو یاد ہوگی، جس میں ایک کشمیری بچہ اپنے نانا کی لاش پر بیٹھا رو رہا تھا، جس کو انڈین فوج نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ ایسی تصاویر درد دل رکھنے والوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ پر جو لوگ نفرتوں اور جنگوں کے بیوپاری ہیں، وہ کہاں رکتے ہیں۔
سلسلہ تھما نہیں۔۔ بچوں پر ظلم جاری ہے۔۔
پاکستان میں بھی بچے بہت بار ظلم و زیادتی کا شکار ہوئے۔ یہاں بم دھماکوں میں زخمی ہونا یا شدت پسندی کی زد میں آ جانے کی ایسی مثالیں ملتی ہیں جو بہت ہولناک ہیں۔ سانحہ اے پی ایس پشاور ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرے گا۔
ان بچوں کے والدین آج بھی روتے ہیں۔ پاکستان میں کبھی ریپ کے کیسز سامنے آ جاتے ہیں تو کبھی اغوا، تو کبھی جبری مشقت۔ بچوں پر ظلم کا سلسلہ رک نہیں رہا۔
کچھ دنوں سے ایک بہت پیارے بچے عمار کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں۔ وہ باپ کی جدائی میں تڑپ رہا تھا۔ اس کے باپ کو رہائی تو نہ ملی لیکن وہ زندگی کی حراست سے آزاد ہو گیا۔
عمار عباد کی موت سب کو رلا گئی۔ عمار پی ٹی آئی کے اسیر رہنما کا بیٹا تھا۔ مبینہ طور پر وہ والد کے جیل جانے کی وجہ سے علیل ہو گیا۔
اس کا والد ایک سیاسی کارکن ہے، کوئی عادی مجرم تو نہیں۔ بچے کے لیے یہ سب نیا تھا جو ان کے ساتھ ہوا۔ پولیس کا آنا جانا اس کو خوفزدہ کر گیا۔
پنجاب میں جو کچھ نو مئی کے بعد ہوا وہ سب کچھ بہت الگ ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ پڑھا لکھا اور مڈل کلاس طبقہ وابستہ ہے۔ ان لوگوں نے پہلے جیل اور چھاپے جیسی چیزیں نہیں دیکھی تھی۔
بہت سے مرد کارکنان ملٹری ٹرائل بغاوت کے مقدمات سہہ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان اب بھی جیل میں ہیں۔ ان کے کیسوں کی کارروائی سست روی کا شکار ہے اور وہ ضمانت سے بھی محروم ہیں۔
اس سب میں ایک معصوم کی جان چلی گئی۔ جس کا کوئی قصور نہیں تھا نہ وہ کسی مظاہرے میں شامل تھا، نہ اس نے کوئی بغاوت کی۔ اس کے والد نے سیاسی کارکن کے طور پر احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
نو مئی کے بعد اتنی بڑی تعداد میں کارکنان کی گرفتاریاں اور ان کے خلاف کیسز سست روی کا شکار ہیں۔
اس کی وجہ سے نظام عدل پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ انصاف کہ تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا رہا۔ قید سیاسی کارکنان کے گھر والے پریشان ہیں۔ جو خواتین قید ہیں ان کے بچے غم سے نڈھال ہیں اور جن کے کفیل جیل میں ہیں ان کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔
تحریک انصاف عمار کے قتل کو ریاستی جبر کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے۔ کچھ پی ٹی آئی مخالف لوگ چند رپورٹس نکال لائے اور بچے کی وفات کو اعصابی بیماری سے منسلک کر دیا۔
پر یہاں پر بچے کے خاندان کا موقف سب سے اہم ہے، جن کے مطابق عمار بیمار نہیں تھا، وہ نو مئی کے بعد پڑنے والے چھاپوں اور والد کے جیل جانے کی وجہ سے بیمار ہوا۔
پولیس کا موقف ہے کہ اس معاملے سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔ تو لوگوں کے گھروں میں چھاپے کون مار رہا ہے، ان کے گھر میں توڑ پھوڑ کون کر رہا ہے، ان کے اہل خانہ کو ہراساں کون کر رہا ہے؟ ایک ننھی جان چلی گئی اور اس پر تاویلیں گھڑنا اس کا جواز دینا بہت افسوسناک ہے۔
وہ بچہ ٹاپر تھا، اس کو والد کی جدائی نے توڑ دیا۔ اپنے سکول میں دینے والے آخری امتحان میں پرچے پر وہ صرف ’بابا بابا‘ لکھتا رہا اور ’بابا بابا‘ کہتے ہوئے وہ دنیا سے چلا گیا۔ اب اس انتقام کو بند ہو جانا چاہیے۔
عمار کے نام پر ایک قانون ہونا چاہیے جس کے تحت عوام کے گھروں میں کوئی گھس کر ان کو ہراساں نہ کر سکے۔ ظلم کے اس سلسلے کو رکنا چاہیے ورنہ کل سب اس کی زد میں ہوں گے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)