ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ ضلع ٹھٹہ میں آ کر سمندر میں بہتا ہے۔ اس علاقے میں جہاں کسی دور میں دریا ٹھاٹھیں مارتا تھا، اب ڈیموں اور بیراجوں کے باعث وہاں پانی کا بہاؤ کم ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے روایتی فصلوں کے بجائے کم پانی والی فصلیں کاشت کرنا شروع کر دی ہیں
سندھ کے تاریخی اور قدیم شہر ٹھٹہ کے علاقوں میرپور ساکرو، کیٹی بندر، گاڑھو، جالو، بگھان، اداسی، سجن والی، جور، ڈھانڈاری، کھتھو اور میران سمیت دیگر شہروں میں پان کی کاشت ہوتی ہے۔ کچھ زمیندار روایتی اجناس کو خیرباد کہہ کر پان کے پتوں کی کاشت کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سری لنکا میں پایا جانے والا پان کا پودا ’سیلون‘، بھارت میں پایا جانے والا پودا ’سانچی‘ اور مقامی طور پر پیدا کی جانے والی پان کی اقسام بھی شامل ہیں
کھیت کھلیان، پگڈنڈیاں، ٹیڑھے میڑے راستے، کہیں جنگل تو کہیں صحرا یہ ٹھٹہ سے گاڑھو کے سفر کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ یہیں کچھ ایسے کھیت بھی ہیں، جہاں خاص پتّے چُنے جاتے ہیں اور یہ نہ صرف گھروں تک پہنچتے ہیں بلکہ بازاروں کی ان منزلوں تک بھی پہنچتے ہیں، جہاں ان کے چاہنے والے ہر وقت موجود رہتے ہیں
ٹھٹہ سے گاڑھو شہر پہنچنے کے بعد پان کے کھیت نظر آنے لگتے ہیں۔ پورے ملک میں پان کی بہترین فصلیں یہیں پر ہوتی ہیں، لیکن پان کی کاشت اور پھر اس کا منڈی تک پہنچنے کا سلسلہ اتنا سیدھا اور سہل بھی نہیں، جتنا محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اس کے کئی مراحل ہیں
اس سے پہلے کہ گاڑھو اور گرد ص نواح میں پان کی کاشت اور چنائی کے بعد مارکیٹ تک پہچنے کے مراحل کی بات کریں، آئیے پان کی تاریخ پر ایک مختصر سی نظر ڈالتے ہیں
پان کی مختصر تاریخ
ممتاز لکھاری اختر حفیظ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ برِصغیر میں صدیوں سے لوگ پان کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ آج یہ نہ صرف ہمارے کلچر کا حصہ بن چکے ہیں بلکہ یہ ایک کاروباری صنعت کی شکل بھی اختیار کر گئے ہیں۔ لیکن پان کی تاریخ کیا ہے اور یہ کس طرح برِصغیر کے ماحول میں گھل مل گیا، اس کا اندازہ ہمیں تب ہوتا ہے، جب پان کا ذکر نہ صرف ہمیں شاعری بلکہ فلمی گانوں میں بھی ملتا ہے۔ جیسے ریاض خیرآبادی کا شعر ہے کہ
تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل
دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے
جبکہ بھارتی فلموں کے یہ گیت بھی بڑے مقبول ہوئے
پان کھائے سیاں ہمارو
اور
کھئی کے پان بنارس والا، کھل جائے بند عقل کا تالا
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح پان ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ سا بن گیا ہے۔
برِصغیر میں پان کی آمد مغلیہ دور میں ہوئی۔ پان کو شہنشاہ جہانگیر کی اہلیہ ملکہ نورجہاں بھی چبایا کرتی تھیں۔ یہ سن کر شاید آپ کو حیرت ہوگی کہ انہوں نے تو اسے بطورِ علاج استعمال کیا۔
اس حوالے سے ایک قصہ بھی مشہور ہے۔ بادشاہ جہانگیر اپنی بیگم کے منہ کی بدبو کو بہت ناپسند کرتے تھے لہٰذا اس بیماری کے تدارک کے لیے برِصغیر کے نامور حکما کو دربار میں مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک نسخہ پیش کیا۔ انہی نسخوں میں پان کا پتّہ بھی شامل تھا، جو پان کی شہرت کی وجہ بنا
پان کو بنانے کے لیے اس وقت جن خاص اجزا کا استعمال کیا گیا ان میں چھوٹی الائچی، لونگ، چونا یا کیلشیم، کتھا، میٹھی لونگ (جو دانتوں اور مسوڑوں کی حفاظت کے لیے مفید سمجھی جاتی ہے) بھی شامل کی گئی۔ پان کے دیگر اجزا میں چھالیہ کے چند دانے (جو پیٹ کے کیڑے مارنے کے لیے فائدہ مند ہے)، سونف اور ناریل (جو دماغی قوت کو دوام دیتا ہے) بھی شامل تھے
اس کے علاوہ چند عقائد بھی پان سے جڑے ہیں۔ بِہار میں دولہا دلہن کے ایک ہونے کی علامت کے طور پر وہ اپنے خون کا قطرہ پان پر ٹپک کر ایک دوسرے کو دیتے ہیں، اس کا مطلب ہوا کہ جب ایک دوسرے کا خون آپس میں مل گیا تو وہ ایک ہو گئے
جبکہ ہندو مت کے مطابق بھگوان کرشنا بھی پان کھاتے تھے اور ان کے ہونٹ سرخ رہتے تھے۔ پان بیچنے والوں کو تنبولن بھی کہا جاتا ہے، بلکہ ماضی میں عورتیں ہی پان بیچا کرتی تھیں، پھر جب یہ مارکیٹ آئٹم بن گیا تو پان بیچنے والے پنواڑی بھی کہلانے لگے۔ جبکہ تنبولن کی ایک معنی پان بیچنے والے کی بیوی کے بھی ہیں۔
پوچھا میں تنبولن سے دکان پر یہ جا،
دل پھیر نہ پان کی طرح سے اپنا
میٹھے پان میں چھالیہ، گل قند، پسا کھوپرا، سبز الائچی، سونف، مختلف رنگ برنگے مصالحے استعمال کیے جاتے ہیں اور اگر کوئی خاص موقع ہو تو چاندی کے ورق بھی لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ اکثر خواتین میٹھا پان ہی کھاتی ہیں، اور جو لوگ اپنے منہ اور دانتوں پر کتھے کا رنگ نہیں چاہتے وہ سلیمانی پان کھاتے ہیں۔ سلیمانی پان میں کتھا نہیں لگایا جاتا
مگر اب ہمارے ہاں پتی والا پان بھی خوب کھایا جاتا ہے اور آج میٹھے پان کھانے والوں کی نسبت پتی والا پان کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
گاڑھو میں پان کی کاشت
حیدرآباد کے علاقے گاڑی کھاتا میں پان کی کیبن لگانے والے محمد علی میمن بتاتے ہیں کہ ہیں کہ وہ پہلے سری لنکا سے آنے والا پتا استعمال کرتے تھے مگر ایک تو وہ بہت مہنگا ہو گیا ہے دوسرا آتا کم ہے، اسی لیے اب وہ گاڑہو سے پان منگواتے ہیں جو سستے اور آسانی سے دستیاب ہیں، اور ذائقے میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے
صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے ساحلی شہر گاڑہو سے ملک بھر کو پان کے پتے بھیجے جاتے ہیں اور ان کی مانگ بڑھ رہی ہے
پچاس سالہ رحمت اللہ گاڑہو میں چھوٹے کسان ہیں اور ایک ایکڑ پر پان کاشت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں تین اقسام کے پان سانچی، سیلون اور پاکستانی بڑے پیمانے پر اگائے جاتے ہیں
وہ بتاتے ہیں ”پاکستان میں پہلے انڈیا اور سری لنکا سے پان کے پتے درآمد کیے جاتے تھے لیکن چند برس قبل ہم نے یہاں پان لگانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ سری لنکا کا پان ہمارے پان کی نسبت بڑا اور میٹھا ہوتا ہے مگر ہمارا پان بھی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔“
رحمت اللہ کے مطابق ایک ایکڑ پر پان کاشت کرنے کے لیے تقریباً بیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اچھی فصل ہو تو اس سے سال میں ایک کروڑ روپے کمائی ہو جاتی ہے
پان فارمنگ کے بارے میں رحمت اللہ بتاتے ہیں ”پان دیگر فصلوں کی طرح کھلے آسمان کے نیچے نہیں اگتے۔ ان کو ہلکے سائے کی ضرورت پڑتی ہے اسی لیے پہلے چھاپرے بنائے جاتے ہیں۔چھاپرا تیار کرنے کے لیے پہلے لکڑی کے کھمبے یا پلر لگائے جاتے ہیں۔ ایک ایکڑ میں ایک ہزار سے بارہ سو پلر لگائے جاتے ہیں، جن پر چھ لاکھ کے قریب لاگت آتی ہے۔ چھت بنانے کے لیے چٹائی درکار ہوتی ہے۔ ایک ایکڑ میں سات سو سے زیادہ چٹائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک چٹائی کی قیمت تقریباً چھ سو روپے ہے اور اس چھت پر مجموعی طور پر پانچ لاکھ روپے کے قریب خرچ ہوتے ہیں۔ چھت کی بدولت پودے تیز دھوپ کے علاوہ تیز ہوا اور مٹی سے بھی محفوظ رہتے ہیں“
پان کی کاشت کے لیے ایک ایکڑ میں تقریباً پانچ سو سے چھ سو تک گملے لگتے ہیں۔ ایک گملے کی قیمت نو سو روپے تک ہوتی ہے۔ پان کی فصل کے چاروں طرف دیوار بنائی جاتی ہے۔ کھاد، ادویات اور مزدوری کے علاوہ دیگر اخراجات بھی ہوتے ہیں
رحمت اللہ کا کہنا ہے ”اگر سیلاب، بارشیں اور تیز ہوائیں نقصان نہ پہنچائیں تو پان کے پودے کی عمر بیس سے پچیس سال ہو سکتی ہے۔ ایک ہفتے میں دو مرتبہ پان کے پتے چُنے جاتے ہیں۔ بڑے، چھوٹے اور سب سے چھوٹے پتوں کو الگ الگ کیا جاتا ہے۔ ان کی قیمتیں مختلف ہوتی ہیں۔ پتے توڑنے کے بعد دو ہفتوں میں نئے پتے پیدا ہو جاتے ہیں“
انہوں نے بتایا کہ سندھ کے تین شہروں کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹہ میں پان کی منڈی لگتی ہے
پان کے کاشتکار تنویر احمد کے مطابق: ”پان کے پودوں کو زیادہ گرمی نہیں چاہیے، دھوپ زیادہ آئے گی تو پتے پیلے ہو جاتے ہیں، پیلے ہوجاتے ہیں تو پھر مارکیٹ میں ان کی کوئی ویلیو نہیں رہتی۔ جب سبز رنگ کے ہوتے ہیں تو پھر ان کے ریٹ صحیح ملتے ہیں“
انہوں نے بتایا کہ جون، جولائی اور اگست کے تین ماہ کاشت کاروں کے پاس پانی نہیں ہوتا ہے پھر فصلوں کے لیے بور لگائے جاتے ہیں، جس کا پانی کبھی کبھار کھارا/کڑوا بھی نکل آتا ہے۔ ایسے میں انہیں میٹھے پانی کے ٹینکر منگوانے پڑتے ہیں، جو بہت مہنگے پڑتے ہیں۔ انہیں اپنے فارم کے لیے کم از کم چار، پانچ ٹینکروں کی ضرورت ہوتی ہے
گاڑھو سے تعلق رکھنے والے ایک اور کاشت کار میر بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ پان کی فصل کا اپنی اولاد کی طرح خیال رکھتے ہیں۔ پان نازک ہوتے ہیں اس لیے ان کی سارا دن دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کھیت میں گودائی اور پٹائی ہوتی ہے اور پودوں کی بیماری پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے
انہوں نے بتایا کہ سانچی پان کی فصل سب سے اچھی ہوتی ہے۔ سیلون پان نازک ہوتا ہے اور اس میں ہوا اور گرمی برداشت کرنے استطاعت بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے اس کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے
پاکستان میں کسانوں کے لیے سود مند اس فصل پر اب تک کوئی تحقیق منظر عام پر نہیں آئی اور نہ ہی محکمہ زراعت کے عملے کو اس بارے میں کچھ علم ہے
گاڑہو میں سات سے آٹھ ہزار چھاپروں میں بڑے پیمانے پر پان کی پیداوار ہوتی ہے
پان کے کھیت پر مزدوری کرنے والے عثمان بلوچ نے بتایا ”ہم ہفتے میں دو دن پان کے پتے چنتے ہیں۔ پانی بھی بہت احتیاط سے دینا پڑتا ہے۔ پان کے کھیتوں میں نالیوں کے ذریعے اتنا پانی دیا جاتا ہے، جو چند منٹوں کے اندر زمین میں جذب ہو جائے۔ اگر پانی کھڑا ہو جائے گا تو پان کی فصل تباہ ہو جائے گی۔ موسم سرما میں پان کی پیدوار میں کمی آجاتی ہے“
رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ اگر کسانوں کو پان کی کاشت کے حوالے سے رہنمائی اور وسائل مہیا کیے جائیں تو یہ ملک کی نقد آور فصلوں میں ایک اور اچھا اضافہ ہوگا
ملک بھر میں پان بہت شوق سے کھایا جاتا ہے، یہ خصوصاً شادی بیاہ یا موسیقی کی محفلوں میں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کو کراچی میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے، اسی لیے پان کے پتوں کی سب سے بڑی منڈی بھی کراچی میں ہے، جہاں تنویر احمد اور دیگر زمیندار پان کے پتے بیچنے کے لیے جاتے ہیں
تنویراحمد کہتے ہیں کہ ان جیسے کاشت کاروں کے لیے پان کی کاشت کرنا ایک طرف گٹکے کی وجہ سے مشکل ہو رہی ہے اور دوسری طرف سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سے پان کے پتوں کی درآمد کی وجہ سے بھی انہیں منڈی میں کم قیمت مل رہی ہے
انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف گٹکا بنانے اور اس کی فروخت پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروائے بلکہ دیگر ممالک سے پان کے پتوں کی درآمد کو بھی ختم کرے
پان کو منڈیوں تک کیسے پہنچایا جاتا ہے؟
سندھ کا دارالحکومت کراچی پان کی فروخت کی ایک بڑی منڈی ہے، جبکہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی پان بڑے پیمانے پر فروخت ہوتا ہے۔ یہاں منگل اور ہفتے کے روز منڈی لگتی ہے، جس میں ہزاروں کلو پان فروخت ہوتا ہے
بیج بونے سے لے کر پتّہ اُگنے اور پتّے چُننے سے لے کر پان کے شوقین کے منہ میں جانے تک، اس کی رسد کے جو مراحل ہیں وہ بھی کافی دلچسپ اور محنت طلب ہیں۔ اس سلسلے میں پان کے کھیتوں سے ہفتے میں دو دن گاڑیاں پان کے پتّے لے کر مختلف منڈیوں کی جانب روانہ ہوتی ہیں۔ جن میں ایک نمبر (سائز میں بڑے)، دو نمبر (سائز میں چھوٹے) اور باقی خستہ حال پتّے ہوتے ہیں، ان سب کو الگ الگ کیا جاتا ہے
اس کے بعد انہیں پانچ پانچ کلو کی پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھرا جاتا ہے، مگر ان میں بھرنے سے قبل ان پر پانی چھڑکنا لازمی ہوتا ہے تاکہ انہیں سڑنے سے بچایا جا سکے
منڈی تک رسائی کے لیے کھیتوں سے گاڑی یا سوزوکی پک اپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں سے پان کے پتّے سندھ کے تین بڑے شہروں کی منڈیوں کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹہ میں پہنچتے ہیں۔ کراچی میں لی مارکیٹ پان کی منڈی ہے، حیدرآباد میں ٹاور مارکیٹ جبکہ ٹھٹہ میں شاہی بازار بڑی منڈی ہے۔ جہاں سے پان کے پتّوں کی رسد دیگر دکانوں اور کیبنوں تک کی جاتی ہے
جب یہ پتّے ان بڑی منڈیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں بھی انہیں تازہ دم رکھنے کے لیے ٹوکریوں میں پانی سے بھرپور کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے۔ یہ کام اس لیے بھی بہت نازک ہے کیونکہ منڈی پہنچنے کے بعد یہ پتّے مزید محض دو سے تین دن تک ہی استعمال کے قابل رہتے ہیں، اور اس کے بعد پھر یہ سڑنے لگتے ہیں
اب بالفرض جن شہروں میں باقاعدہ منڈی کی سہولت نہیں ہے وہاں دلال یا بروکر شہروں میں پان کی رسد کا کام خود کرتا ہے، مگر چند تاجر ایسے بھی ہوتے ہیں جو کھیتوں سے ہی براہِ راست پان اٹھاتے ہیں، انہیں منڈی جانے کی ضرورت نہیں پڑتی
حیدرآباد میں پان منڈی کے کمیشن ایجنٹ اعجاز عزیز کے مطابق، وہ گاڑھو کے زمین داروں سے کمیشن پر مال خریدتے ہیں۔ انہیں پان پر پندرہ روپے فی کلو کمیشن ملتا ہے اور وہ اسے دکان داروں اور دیہی علاقوں میں فروخت کرتے ہیں
انہوں نے بتایا ”سیلون پان دو ہزار سے تین ہزار روپے کلو، سانچی پان تیرہ سو سے پندرہ سو روپے کلو جبکہ سری لنکا کا پان ساڑھے چار ہزار روپے کلو فروخت ہوتا ہے“
اعجاز عزیز کہتے ہیں ”اس کاروبار میں کبھی کبھی ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ ہم مال خرید کر جلد آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ اگر تین دن میں پان فروخت نہ ہو تو پتا سُکڑ کر خراب ہو جاتا ہے جس سے ہمیں بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔“
منڈی کے ایک دکاندار کامران قائم خانی نے بتایا کہ وہ مال خرید کر اسی وقت برف کے ٹکڑے کے ساتھ ٹوکری میں ڈال کر ٹھنڈی جگہ پر رکھ دیتے ہیں اور پھر اسے عمر کوٹ، بدین، سانگھڑ، نواب شاہ، تھرپارکر سمیت دیگر اضلاع میں فروخت کیا جاتا ہے۔