عقل اور دلیل قوموں کے مفادات پورے کرنے کے لیے بہترین حربہ ہیں۔ عقل اور دلیل کو کس طرح سے استعمال کر کے اُس کی مدد سے فوائد حاصل کیے جائیں جبکہ اصل مقاصد کو دلائل کے پردوں میں چھپا دیا جاتا ہے۔
مغربی تہذیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سائنسی سوچ نے اُنہیں عقل اور دلیل پر منصوبے بنانے اور نظامِ حُکومت چلانے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیا ہے، کیونکہ جذباتی طور پر جب کوئی منصوبہ تیار کیا جاتا ہے یا اُس پر عمل کیا جاتا ہے تو اُس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔
فلسفے میں منطق ایک ایسا اُصول ہے، جو عقلی طور پر جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز بنا دیتا ہے۔ مثلاً غلامی کا ادارہ ناانصافی اور ظلم پر قائم تھا، اَرسطو نے اسے جائز قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ قدرت نے کچھ کو حُکومت کرنے کے لیے پیدا کیا اور کچھ کو ان کی خدمت کے لیے۔ لہٰذا غلامی کا یہ ادارہ قدرت کی پیداوار ہے اور اسے باقی رہنا چاہیے۔ اَرسطو کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسفیوں اور دانشوروں کو فرصت کے لمحات مِلنے چاہئیں، تا کہ وہ غور و فکر کر سکیں۔۔ اور یہ غلاموں کا کام ہے کہ وہ روزمرّہ کے کام کر کے اُنہیں سہولت بہم پہنچائیں۔ اس دلیل کی بنیاد پر غلامی کے ادارے کو قائم رکھا گیا اور اُن کا درجہ انسانوں سے گِرا کر کم تر کر دیا تا کہ کوئی اُن پر نہ رحم کھائے اور نہ اُنہیں انسانی حقوق دینے کا سوچے۔
سَتّرہویں صدی میں یورپی مُلکوں میں تین اہم خصوصیات پیدا ہوئیں:
نمبر1۔ یہ کہ سفید نسل کی اقوام ذہنی اور عملی طور پر دوسری قوموں سے برتر ہے۔
نمبر2۔ مسیحیت نے اُنہیں نجات کا راستہ بتا دیا ہے، جبکہ دوسری اقوام گمراہی میں ہیں۔
نمبر3۔ یہ کہ یورپی قومیں تہذیب اور تمدّن میں ترقی کر گئی ہیں جبکہ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے لوگ غیر مہذب اور باربیرین ہیں۔ کیونکہ مغربی اقوام نے سائنس و ٹیکنالوجی اور دوسرے علوم میں مہارت حاصل کر لی ہے، اس لیے یہ ان کی ذمہّ داری ہے کہ وہ غیر مہذب اقوام کو مہذب بنائیں، اُنہیں مسیحیت میں شامل کر کے اُن کی نجات کا سبب بنیں۔ ان دلائل کی بنیاد پر یورپی سامراج کی بنیاد رکھی گئی۔
جب یورپی قومیں امریکہ پہنچی تو یہاں اُن کا مقابلہ مقامی لوگوں یعنی Red Indians سے ہوا۔ لوگ قبائل کی صورت میں رہتے تھے اور قبائلی رسم و رواج اُنہیں ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے تھے، اس لیے یہاں کوئی ریاست نہ تھی نہ ہی ریاستی ادارے اور قانون، اس وجہ سے یورپی اقوام نے انہیں تہذیبی طور پر کم تر قرار دیا۔
اِسکاٹ لینڈ کے ایک مؤرخ ولیم روبرٹسن (1793) نے امریکہ کی ابتدائی تاریخ لکھتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ Red Indians نہ تو تعلیم یافتہ تھے، نہ مہذب اور نہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے واقف تھے، اس لیے اُن کے پاس جو زمینیں تھیں اور فطرت کے خزانے تھے، اُنہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ یورپی اقوام نے یہاں آ کر ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور ان کی آبادیوں کو دوسری جگہ منتقل کر کے قبضہ کی ہوئی زمینوں پر کاشت کاری کے ذریعے پیداوار میں اضافہ کیا۔
ولیم روبرٹسن تسلیم تو کرتا ہے کہ Red Indians کے ساتھ بڑا ظلم ہوا، ان کے قبائلی کلچر کو ختم کر دیا گیا اور ان کا قتلِ عام ہوا مگر اس (کے جواز) کی دلیل یہ دیتا ہے کہ ترقی کے لیے مقامی باشندوں کو اُن کی زمینوں سے بے دخل کرنا ضروری تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی اقوام نے اپنی ذہانت اور محنت سے امریکہ کو ایک مضبوط ملک بنا دیا اور یورپ کے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے یہاں آباد ہو کر اس کی ترقی میں حصہ لیا۔
اسی دلیل کی بنیاد پر امریکہ کے مؤرخین اور سیاستدان غلامی کے ادارے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اہلِ یورپ نے افریقی اقوام کو ان کے پسماندہ معاشرے سے نکال کر یورپ کے ترقی یافتہ معاشرے کا حصہ بنا دیا ہے۔ وہ مقابلہ بھی کرتے ہیں کہ افریقہ میں رہنے والوں اور امریکہ میں آباد افریقی نژاد لوگوں کے درمیان تہذیبی فرق نظر آتا ہے۔ اس لیے افریقی غلاموں سے جو محنت مزدوری کرائی گئی، اُسے انکار کرتے ہوئے اُنہیں سُست کاہل اور غیرمہذب کہہ کر نسلی تعصّب بڑھایا جاتا ہے۔ اس تعصّب کی بنیاد بھی وہ سائنس پر رکھتے ہیں کہ سیاہ فام قوموں میں سفید فاموں کی نسبت نہ ذہانت ہے، نہ عقلی فکر اور سوچ ہے۔ انہوں نے رنگ کی بنیاد پر قوموں کو تسلیم کر کے تہذیبی طور پر ان کی درجہ بندی کی۔
نسلی برتری کی یہ دلیل خاص طور پر افریقہ میں استعمال کی گئی۔ یہاں ایک جانب تو سامراجی قوتیں تھیں، جو افریقہ کی زمینوں پر قبضہ کر رہی تھیں۔ دوسری جانب مسیحی مِشنریز تھے، جو تبلیغ کے ذریعے اُنہیں کرسچن بنا کر نجات کی اُمید دلاتے تھے۔ افریقیوں کو ذہنی طور پر مغربی تہذیب کا حصہ بنانے کے لیے ضروری تھا کہ ان کے کلچر کو ختم کر دیا جائے۔ کیونکہ کلچر کے خاتمے کے نتیجے میں افریقیوں کی نہ تو کوئی تاریخ رہی، نہ ان کی روایات اور ادارے رہے، جس کی وجہ سے ان کی مقامی شناخت باقی نہ رہی اور انہیں یورپی تہذیب کا حصہ بنا کر اس میں انہیں ضِم کر دیا گیا، لیکن یورپی تہذیب نے انہیں اپنے برابر نہیں سمجھا اور عدم مساوات نے انہیں یورپی تہذیب کے تابع کر دیا۔
یورپی ممالک نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیز بنائیں اور اُن کے ذرائع کا استحصال کیا۔ اس دلیل کو ہٹلر کی نازی پارٹی نے یورپی ملکوں پر استعمال کیا۔ ہٹلر نے مشرقی یورپ اور رُوس پر حملہ کر کے جرمنی کی بالادستی کو قائم کرنا چاہا۔ مگر اس میں اُسے ناکامی ہوئی۔
لہٰذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عقل اور دلیل (reason) کو یورپی سامراج نے اپنے مُفادات میں استعمال کر کے انہیں جائز قرار دیا۔ اس لیے جب ہم عقل اور دلیل کو استعمال کرنے کا سوچیں تو ہمیں یورپی سامراج کے تعصّب اور سَفاکی کو بھی یاد کرنا ہوگا، جس پر اُنہوں نے اپنی کالونیز میں اپنی برتری کو قائم رکھنے کے لیے عمل کیا۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)