سندھ: یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے انوکھی سمری

ویب ڈیسک

سندھ کی 9 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کے انتخاب کے لیے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے تاریخ کی پہلی انوکھی سمری وزیراعلیٰ سندھ کو بھجوا دی ہے، جس کے بعد سے اس پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق وائس چانسلرز کی تعیناتی کے عمل میں سب سے اہم تعلیمی قابلیت اور گریڈ 22 کے لیے اپلائی کرنے والے امیدوار کا کم از کم پروفیسر اور اپنے ڈپارٹمنٹ کا ڈین ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیس سال تک بحیثیت ماہر تعلیم جبکہ دس سال کسی بھی انتظامی عہدے کا تجربہ رکھنا بھی شامل ہے

مطلوبہ امیدوار کے لیے دنیا کے معروف جرنلز میں کم از کم پندرہ ریسرچ پیپرز شائع ہونے بھی ضروری ہیں جبکہ تحقیقی پروجیکٹس کو دنیا کے کسی بھی معروف ادارے نے فنڈ کیا ہو

تاہم حیران کن طور پر سندھ کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے سندھ کی نو یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے ایک انوکھی سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کر دی ہے، جس میں وائس چانسلر کے لیے پی ایچ ڈی اور پندرہ ریسرچ پیپرز کی اشاعت سمیت صرف ماہر تعلیم ہونے اور خاص کر تدریسی عمل سے بیس سال تک منسلک رہنے کی شرط کو ختم کر دیا گیا ہے

سمری منظور ہونے کی صورت میں سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہوگا، جہاں کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے اب سول سرونٹ، کالج ٹیچر، 17 گریڈ یا اوپر کے افسران بھی درخواستیں دینے کے اہل ہوں گے

اس عہدے کے لیے بیس سال کا تجربہ درکار ہوگا مگر تعلیمی تجربہ ضروری نہیں البتہ دس برس کا انتظامی تجربہ لازمی درکار ہوگا جبکہ عہدے کے لیے عمر کی حد پینسٹھ سال سے کم کرکے باسٹھ سال کردی گئی ہے

اٹھارویں ترمیم منظور ہونے سے قبل ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار متعلقہ صوبوں کے گورنرز کے پاس ہوتا تھا، تاہم اب یہ اختیار گورنرز سے صوبے کے وزیراعلیٰ کو منتقل ہو چکا ہے

اس حوالے سے پنجاب میں محکمہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن، خیبر پختونخوا میں ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اور سندھ میں محکمہ یونیوسٹیز اینڈ بورڈز کی تشکیل دی گئی متعلقہ صوبائی اسمبلیوں نے اپنے اپنے یونیورسٹیز ایکٹ منظور کیے

اس میں سب سے زیادہ تاخیر صوبہ بلوچستان نے کی، تاہم رواں سال 11 اپریل کو بلوچستان یونیورسٹیز بل 2022 بھی منظور کر لیا گیا ہے

یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتی ایک انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ جس کے لیے سینئیر تعلیم دانوں اور بیوروکریٹس پر مشتمل کمیٹی، خالی اسامی کے لیے امیدواروں کی قابلیت کو مدنظر رکھ کر انٹرویوز کے بعد تین نام وزیراعلیٰ کو تجویز کرتی ہے، جس کے بعد وہ کسی ایک نام کو منظور کرتے ہیں

گریڈ 22 کے وائس چانسلر کی اپنی اہلیت خاصی اہم ہے کیونکہ وہ ایک ایسے ادارے کا سربراہ ہوتا ہے جس میں تعلیم و تحقیق ہونی ہوتی ہے

پاکستان کے چاروں صوبوں میں اس عہدے کے لیے عمر کی حد پینسٹھ سال، دورانیہ کہیں تین سال اور کہیں چار سال ہے۔ اسی طرح کسی صوبے میں مدت ملازمت قابل توسیع ہے تو کسی صوبے میں نشست پر براجمان وائس چانسلر اپنا دورانیہ مکمل ہونے کے بعد دوبارہ بطور امیدوار اپلائی تو کرسکتا ہے لیکن تعیناتی کا فیصلہ ازسر نو ہوتا ہے

سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سندھ محمد مرید راہمون کی جانب سے بھیجی گئی سمری میں وزیراعلیٰ سے مجموعی طور پر سندھ کی 9 پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے مستقل وائس چانسلرز تعینات کرنے کے اشتہارات جاری کرنے کی اجازت مانگی گئی ہے

سمری میں سفارش کی گئی ہے کہ داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی اور بیگم نصرت بھٹو ویمن یونیورسٹی کے لیے بھی نیا اشتہار دیا جائے جبکہ داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی اور سکھر ویمن یونیورسٹی کے لیے پہلے ہی کئی ماہ قبل نہ صرف اشتہار دیا جاچکا تھا بلکہ کمیٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کو سفارشات بھی بھجوائی جا چکی ہیں

ان میں ڈاکٹر اسلم عقیلی کا نام دائود انجینئیرنگ یونیورسٹی کے لیے اور سکھر ویمن یونیورسٹی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر انیلا عطا الرحمٰن کا نام سرفہرست تھا

سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز محمد مرید راہمون نے وزیراعلیٰ سندھ کو بھیجی گئی سمری میں بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی، لاڑکانہ کی وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطا الرحمٰن کی مدت ملازمت ختم ہونے سے قبل ہی ان کے ادارے کے وائس چانسلر کی اسامی کو مشتہر کرنے کی اجازت مانگی گئی۔ ان کی مدت ملازمت 24 ستمبر 2022 کو مکمل ہوگی، اور ممکن ہے انہیں توسیع مل جائے کیونکہ سندھ میں وائس چانسلرز کا عہدہ قابل توسیع ہے اور پہلے سے ہی سرچ کمیٹی انہیں سکھر یونیورسٹی کے لیے وائس چانسلر کے طور پر میرٹ لسٹ پر سر فہرست قرار دے چکی ہے

داؤد انجینئیرنگ یونیورسٹی، بیگم نصرت بھٹو یونیورسٹی فار ویمن سکھر اور بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سمیت سمری میں سندھ کی دیگر یونیورسٹیوں مہران انجینیئرنگ یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی، سکل ڈویلپمنٹ یونیورسٹی خیرپور، آئی بی اے سکھر، شہید اللہ بخش یونیورسٹی آرٹس اینڈ ڈیزائن اور اروڑ یونیورسٹی سکھر کا بھی ذکر ہے، جہاں گذشتہ کئی ماہ سے قائم مقام وائس چانسلرز تعینات ہیں

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اگر یہ سمری منظور کرلی تو سندھ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تلاش کمیٹی کی جانب سے میرٹ پر منتخب شدہ دو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے نام مسترد ہوجائیں گے

جبکہ پہلی مرتبہ بغیر پی ایچ ڈی اور تحقیقی پرچوں کے 17 گریڈ تک کے افسر جامعات کے وائس چانسلرز بن سکیں گے اور پہلی بار ہی ماہرین تعلیم کے بجائے بیوروکریٹ بھی وائس چانسلر بننے کے اہل ہوجائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close