خیبرپختونخوا: اسکولوں میں پشتو پڑھانے کے فیصلے پر عمل درآمد۔۔ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کیا ہے؟

ویب ڈیسک

خیبر پختونخوا حکومت لگ بھگ گیارہ سال بعد کابینہ کے اس فیصلے پر عمل کرنے جا رہی ہے، جس میں پشتو زبان کو بطور لازمی مضمون سرکاری اور نجی اسکولوں میں متعارف کروانے کی ہدایت کی گئی تھی

اب اس سلسلے میں صوبائی پرائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے نجی اسکولوں کو مراسلہ بھی جاری کیا گیا ہے، جس میں نہ صرف پشتو زبان کو بطور لازمی مضمون پڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے، بلکہ ساتھ ہی اتھارٹی کی جانب سے اسکولوں کو ایک سلیبس بھی فراہم کیا گیا ہے

اسکولوں میں پشتو کو بطور لازمی مضمون پڑھانے کا فیصلہ 2012 میں اس وقت کی کابینہ نے کیا تھا، لیکن بعد میں اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو سکا

تاہم اب اس فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے حوالے سے جاری کیے گئے مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ 2012 کی کابینہ کے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کے لیے تمام سرکاری و نجی اسکول ایک پلان بنا کر اتھارٹی کو بھیجیں

 مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت

مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ایجوکیشن سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر سہیل خان، جو مقامی زبانوں اور اس کی اہمیت پر مختلف مقالے بھی لکھ چکے ہیں، کا اس حوالے سے کہنا ہے ”جب پہلی مرتبہ بچوں کو اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے تو ان کے پاس تین ہزار مادری زبان کے الفاظ کا ذخیرہ اور پانچ سو جملے ہوتے ہیں۔ مادری زبان کے ان ہی الفاظ اور جملوں پر ہم مزید عمارت تعمیر کرتے ہیں اور اسی کے ذریعے ہم بچوں کو مزید تعلیم دیتے ہیں“

ڈاکٹر سہیل خان کہتے ہیں ”دماغی طور پر ہم تعلیم، سماجیات اور فکری ترقی سکھانے کا عمل مادری زبان ہی کے ذریعے ممکن بنا سکتے ہیں کیونکہ اس طرح بچے تعلیم میں دلچسپی بھی لیتے ہیں۔“

انہوں نے کہا ”کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے مادری زبان یا کسی بھی ایک زبان پر عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے مادری زبان کی اہمیت سے کبھی بھی انکار نہیں کیا جا سکتا“

اس سلسلے میں انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا ”میں طلبہ کو ایک انگریزی ناول پڑھا رہا تھا کہ اس میں ایک جگہ پر انگریزی کا لفظ آیا اور اس کا اردو ترجمہ میں نے ’لکڑی کا ٹکڑا‘ لکھ دیا تو ایک بچے نے سوال پوچھا کہ لکڑی کے کس حصے کا ٹکڑا، تو پھر میں نے پشتو میں بتایا کہ ’توتنکے‘ یعنی لکڑی کا وہ چھوٹا ٹکڑا، جو ٹہنی سے الگ ہوجاتا ہے۔ تب ہی طلبہ کو سمجھ آیا کہ میرا کیا مطلب تھا“

اس سوال پر کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقامی زبان کی اب اہمیت نہیں ہے بلکہ انگریزی زبان پر عبور ضروری ہے؟ ڈاکٹر سہیل کہتے ہیں ”انگریزی کی اہمیت اور بین الاقوامی معیار سے کوئی انکار نہیں کرتا اور اس میں ترقی ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مادری زبان کی قیمت ادا کرنے پر انگریزی زبان سیکھ لی جائے۔“

انہوں نے بتایا، ”اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں یہ موجود ہے کہ پانچویں جماعت تک مقامی زبان لازمی قرار دی جائے۔ جرمنی اور جاپان سمیت ترقی یافتہ ممالک میں مادری زبان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور وہاں پر آپ کو لوگ انگریزی کم اور مادری زبان زیادہ بولتے ہوئے ملیں گے“

ڈاکٹر سہیل خان کہتے ہیں ”انگریزی زبان الگ چیز ہے اور علم الگ چیز ہے اور علم حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی زبان اہم ہے کیونکہ اس سے بچوں کے کانسپٹ واضح ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی چیز کو آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔“

انہوں نے مزید بتایا، ”پاکستان کی حالت کو دیکھیں کہ بچے کسی بھی امتحان میں نمبر تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی فکری ترقی کم ہوتی ہے، کیونکہ وہ رٹا لگا کر چیزیں کسی دوسری زبان میں سیکھتے ہیں لیکن اس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے اور انہیں چیزوں کا آئیڈیا نہیں ہوتا“

ڈاکٹر انور علی پشاور کے گورنمنٹ ڈگری کالج، بڈھ بیر میں پشتو ادب کے پروفیسر ہیں اور شہر کی مختلف جامعات میں طلبہ کو پشتو لکھنے اور سکھانے کے حوالے سے کلاسز بھی لیتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ پشتو کے معروف شاعر حمزہ بابا کا ایک پشتو شعر ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ’دیگر زبانیں سیکھنا اگر کام ہے تو اپنی زبان بھلانا بے کمالی ہے‘

انہوں نے کہا ”دنیا میں پشتو بولنے والوں کی آبادی تقریباً سات کروڑ کے لگ بھگ ہے، جو ایک بڑی تعداد ہے لیکن اس آبادی کی مادری زبان خطرے سے دوچار ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی زبانوں کے ختم ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا

ڈاکٹر انور علی کہتے ہیں ”یہ خطہ اگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے ہے تو اس کی بڑی وجہ میرے خیال میں یہی ہے کہ یہاں مادری زبان میں تعلیم کا فقدان ہے۔ طلبہ کو انگریزی اور دیگر زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے اور وہ رٹا لگا کر امتحان تو پاس کرلیتے ہیں لیکن جسے علم کہتے ہیں، وہ طلبہ کے پاس نہیں ہوتا“

طلبہ کی پشتو سیکھنے میں دلچپسی کے حوالے سے ڈاکٹر انور نے بتایا ”خیبر پختونخوا میں انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز ایک ایلیٹ یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے، لیکن میں نے وہاں پر پشتو لکھنے اور سکھانے کے حوالے سے کچھ سیشنز کیے ہیں اور میں حیران ہوا کہ طلبہ اتنی زیادہ تعداد میں پشتو لکھنے اور سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں“

وہ کہتے ہیں ”مادری زبان میں اظہارِ خیال، شعر اور ادب بہت بہتر انداز میں کیا جاتا ہے۔ اگر عصری تعلیم بھی مادری زبان میں ہو تو بچے اس کو بہتر طریقے سے سیکھ سکتے ہیں اور اس کے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی مادری زبان ختم نہ ہو“

جاپان کی مثال دیتے ہوئے انور علی نے بتایا کہ وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے لیکن وہاں پر جاپانی زبان ہی بولی جاتی ہے اور تعلیم بھی زیادہ تر اپنی زبان میں ہی دی جاتی ہے

’کوجنٹ سوشل سائنسز‘ نامی جریدے میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق جاپان میں تعلیمی اداروں میں جاپانی زبان پڑھائی جاتی ہے اور مادری زبان کی اہمیت اس سے عیاں ہے کہ انگریزی زبان کے بین الاقوامی ٹیسٹ ’ٹوفل‘ میں جاپان دنیا میں دوسرا کم ترین اسکور کرنے والا ملک ہے

تاہم مقالے کے مطابق اب جاپان کو انگریزی زبان بچوں کو سکھانے کے لیے 2011 سے پانچویں جماعت تک ہفتے میں ایک دن اگریزی زبان سکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے جبکہ اسکولوں میں اس کے لیے باقاعدہ انسٹرکٹرز بھی رکھے گئے ہیں

مقالے کے مطابق: ’جاپانی زبان کو شاید انگریزی زبان سے کوئی خطرہ نہ ہو لیکن چونکہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے، تو دنیا سے مقابلے کے لیے جاپان نے اب انگریزی زبان سکھانے کی کوشیں شروع کردی ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close